کسی نے اسی صفحہ پر لکھا تھا
“ آخر میں ایک بات کی اور توضیح کردیناچاہتا ہوں۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر اختیار کیا ہے، اور پچھلے آٹھ سال کے دوران میں جو اصحاب “ ترجمان القرآن“ کا مطالعہ کرتے رہے ہیں وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی، میرے لئے یہ بات صاف کر دینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں جو کچھ آئندہ لکھوں گا یا کہوں گا اس کی حثیت امیر جماعت اسلامی کے فیصلہ کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کی ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہل علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اس کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی تحقیق اور اظہار رائے کی آزادی سلب ہوجائے۔ ارکان جماعت کو میں خداوند برترکا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی جسے میں نے اپنی تحقیق کی بنا پر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلا تحقیق محض میرا عمل ہونے کی حثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہر شخص کے لئے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں وہ اپنی تحقیق پر ، اور جو علم نہ رکھتے ہوں وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں اس کی تحقیق پر عمل کریں۔ نیز ان معاملات میں مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی سب آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے بالمقابل بحث و استدلال کرتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھے“
باقی رہ گئی بات مودودی صاحب اور علامہ کی مماثلت کی تو علامہ تو مسلم لیگ کے صدر بھی رہ چکے تھے اور تادم مرگ اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو لندن سے خط لکھ لکھ کر بلانے والے بھی علامہ تھے اور یہ بھی لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کے لئے آپ کے سوا کوئی موزوں نہیں۔ مودودی صاحب نے علامہ کی اس جوہر شناسی کی کیا قدر کی وہ ہم سب جانتے ہیں۔ حضرات پیر جماعت علی شاہ و پیر مہر علی شاہ رحم اللہ علیہم سے علامہ کے جو نیازمندانہ و عقیدتمندانہ تعلقات تھے ان کی طرف نظر نہیں جاتی شاید۔ علامہ تو پیر رومی کے مرید تھے اور ان کے فیض کا اعتراف کرتے تھے مودودی صاحب نے کہاں سے فیض حاصل کیا؟
اسی تناظر میں عرض کیا تھا کہ علامہ کو مودودی صاحب کے ساتھ نہ ہی ملایا جائے تو بہتر ہے۔علامہ مودودی صاحب کے مربی تھے لیکن مودودی صاحب علامہ کے پیروکار تھے یا ان کے نقطہ نظر پر قائم تھے، یہ بات قطعاً نہیں تھی اور نہ ہی یہ کسی بھی صورت ثابت کی جاسکتی ہے۔
مودودی صاحب کے دینی کارناموں کا بہت حوالہ دیا جاتا ہے۔ عرض کی تھی کہ اس موضوع کو رہنے ہی دیں۔ آپ انہیں دین کے مبلغ مانتے ہیں مانتے رہئے۔ میں نہیں مانتا تو آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ اپنے افعال ان کی تعلیمات کے مطابق چلائیے (اور اس کا ثبوت آپ کی تحریر سے تو ملتا ہی ہے، تقریر و کردار سے بھی ملتا ہوگا) مجھے جو دین پر عمل کا بہتر نمونہ نظر آتے ہیں میں ان کی پیروی میں زندگی گزارتا ہوں۔ اس میں طعن و تشنیع کی کیا بات؟
اور برائے مہربانی اب دوبارہ مودودی صاحب کے افکار کے مطالعہ کی ہدایت مت فرمائیے گا ان کے افکار کا جتنا مطالعہ "تفہیم القرآن" میں کر لیا ہے اتنا ہی کافی ہے بات بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔