جمیعت، ایک غنڈہ اور دہشت گرد تنظیم!

قسیم حیدر

محفلین
اگر کسی بھائی کے نزدیک یہ دعوٰی غلط ہے تو بس آپ کو تو صرف یہ کرنا ہے کہ جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی کاروائی کی کوئی نقل، کوئی تراشہ کچھ بھی مہیا فرما دیں۔ کیونکہ کچھ صاحبان کا تعلق یقیناً جماعت سے ہے اس لئے ان کے لئے یہ کام آسان ہوگا اور اگر ایسا ہو سکے تو ہم میں سے کچھ کی (مجھ سمیت) لاعلمی دور ہو سکے گی۔ میں نے تو ذاتی طور پر کیونکہ تحریک پاکستان کے دوران کسی بھی واقعہ کے متعلق کسی بھی جفادری مؤرخ کو مولانا بشیر احمد اخگر سے اختلاف کرتے نہیں دیکھا اس لئے میرے لئے تو ان کی بات معتبر ہے تاوقتیکہ آپ اسے غلط ثابت نہ کردیں۔
جماعت سے باقاعدہ تعلق تو نہیں ہے۔ البتہ جماعت کے لٹریچر سے واقفیت کی بنا پر جانتا ہوں کہ جماعت کے پہلے اجلاس کی کاروائی روداد جماعت اسلامی حصہ اول یا دوم میں بیان کی گئی ہے۔ روداد جماعت اسلامی کے پہلے تینوں حصے آن لائن دستیات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
حصہ اول
حصہ دوم
حصہ سوم
 

الف نظامی

لائبریرین
1100299823-1.jpg

1100299823-2.gif
 

خرم

محفلین
کافی کچھ معلوم ہوا ہے ان حصوں کے سرسری مطالعہ سے۔ سب سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی ہے کہ جماعت کے ابتدائی ایام میں تاریخ ہند میں مسلمان اور ہندو بادشاہوں اور راجاؤں کی باہمی کشمکش کو اسلام اور کفر کے مابین کشمکش سے تعبیر کرنے کی مذمت کی گئی تھی اور یہ تجویز کی گئی تھی کہ تاریخ کے اس طرح کے بیان کو بدلا جائے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ گاندھی مانی بھون سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ گاندھی جی نے 26 اپریل 1947 کو جماعت کے اجلاس منعقدہ پٹنہ میں شرکت کی تھی۔ یقیناً یہ جماعت کا پہلا سالانہ اجتماع نہیں تھا کہ وہ 1945 میں منعقد ہوا تھا۔ اگر کسی اور ذریعہ سے یہ تصدیق نہیں ہوتی کہ گاندھی جی 1945 کے اجلاس میں موجود و شریک تھے تو مولانا بشیر احمد اخگر مرحوم کی بات منسوخ قرار پائے گی اور میں اس بات کے کرنے پر تمام ہمدردانِ جماعت سے معافی چاہوں گا۔
 

خاور بلال

محفلین
اگر کسی اور ذریعہ سے یہ تصدیق نہیں ہوتی کہ گاندھی جی 1945 کے اجلاس میں موجود و شریک تھے تو مولانا بشیر احمد اخگر مرحوم کی بات منسوخ قرار پائے گی اور میں اس بات کے کرنے پر تمام ہمدردانِ جماعت سے معافی چاہوں گا۔

السلام علیکم!
خرم صاحب، سب سے پہلے تو تصیح کرلیجئے۔ "اجلاس میں شرکت" اور "اجلاس کی صدارت" دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمیں آپ سے معافی منگوانے کا ہرگز کوئ شوق نہیں اور نہ ہی بال کی کھال اتارنے کا۔ اس سے پہلے بھی کچھ دھاگوں میں آپ سید مودودی رحمتہ اللہ سے متعلق بے بنیاد باتیں کہہ چکے ہیں۔ جماعتِ اسلامی اور سید مودودی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اختلاف کرنے کے لیے "خیالی" سرخیاں ایجاد کرنا اچھی بات نہیں۔ آپ احتیاط سے گفتگو کریں تو مجھے بار بار آپ کی گفتگو میں دخیل ہونے سے کوئ دلچسپی نہیں۔ آج ہمارا جو بھی عصری اور تاریخی شعور ہے اور اپنی مذہبی روایت پر ہمارا جو بھی یقین ہے اس کا بڑا حصہ "اقبال اور سید مودودی" کا رہینِ منت ہے۔ اقبال اپنی فارسی شاعری اور اردو و فارسی شاعری کے ترجمے کے ذریعے ایران، وسطی ایشیا اور مغرب میں بھی معروف ہوگئے اور سید مودودی کی تصانیف 70 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوکر ایک بہت ہی بڑا دائرہ بناتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بڑے لوگوں اور حقیقی دانشوروں پر تنقید نہیں کی جاسکتی؟ کیوں نہیں۔۔۔لیکن ہمیں اختلاف اور تنقید بھی ان بزرگوں سے سیکھنی چاہیے۔سید مودودی نے کس کس سے اختلاف نہیں کیا؟ "تجدید احیائے دین" پڑھ لیجیے سب معلوم ہوجائے گا، مگر ان کی تنقید اور اختلاف کے تین اصول ہیں۔ اخلاص، علم اور ناکافیت۔ یعنی ان شخصیات نے جہاں اختلاف کیا ہے اخلاص اور علم کے ساتھ کیا ہے۔ ناکافیت کا مطلب یہ ہے کہ مجھے کسی کی 90 فیصد باتوں سے اتفاق ہے اور دس فیصد سے اختلاف، تو پہلے میں 90 فیصد کو جذب کروں اور اس کا اثبات کروں اور پھر اس دس فیصد پر بات کروں جو موجود نہیں اور جس کا ہونا ضروری ہے۔

آخر میں ایک درخواست ہے کہ محض اپنی بات کا ثبوت حاصل کرنے کیلیے "رودادِ جماعتِ اسلامی" پر وقت ضائع مت کیجیے، اس لنک پر سید مودودی رح کی کچھ تصانیف موجود ہیں اس کا مطالعہ کیجیے۔ ان کی فکر کے سامنے ان کی شخصیت کو آپ بھول جائیں گے۔ اور اخلاص و صداقت ہر چیز پر غالب نظر آئیں گی۔

والسلام
خاور
 

الف نظامی

لائبریرین
السلام علیکم!
خرم صاحب، سب سے پہلے تو تصیح کرلیجئے۔ "اجلاس میں شرکت" اور "اجلاس کی صدارت" دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمیں آپ سے معافی منگوانے کا ہرگز کوئ شوق نہیں اور نہ ہی بال کی کھال اتارنے کا۔ اس سے پہلے بھی کچھ دھاگوں میں آپ سید مودودی رحمتہ اللہ سے متعلق بے بنیاد باتیں کہہ چکے ہیں۔ جماعتِ اسلامی اور سید مودودی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اختلاف کرنے کے لیے "خیالی" سرخیاں ایجاد کرنا اچھی بات نہیں۔ آپ احتیاط سے گفتگو کریں تو مجھے بار بار آپ کی گفتگو میں دخیل ہونے سے کوئ دلچسپی نہیں۔ آج ہمارا جو بھی عصری اور تاریخی شعور ہے۔۔۔۔۔۔
تھریڈ سے متعلقہ کچھ کہہ سکیں تو زیادہ بہتر ہے۔
 

خرم

محفلین
محترم خاور صاحب،
میرا معذرت طلب کرنا آپ کو یا کسی اور شخص کو راضی کرنے کے لئے نہیں‌تھا۔ یہ تو میرے اللہ کا حکم ہے اور مجھے تو صرف اسے بجا لانا ہے۔ جب مجھے ایک بات کے صحیح‌نہ ہونے کا ثبوت مل گیا تو یہ میرا اپنے آپ پر حق ہے کہ میں گزشتہ بات سے تائب ہو جاؤں اور اپنی غلطی کا اقرار کروں۔ باقی آپ نے مودودی صاحب کی بات کی، ان کے متعلق میرے کیا خیالات ہیں ان پر تو بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ اورہاں علامہ کو مودودی صاحب کے ساتھ پتہ نہیں‌کیوں‌ملا دیا آپ نے؟ علامہ ایک بالکل مختلف مکتبہ فکر کی پیروی و اتباع کرتے تھے اور جہاں‌تک بات ہے مودودی صاحب کی تو وہ تواپنےسوا کسی کی پیروی کے قائل ہی نہ تھے۔
 

غازی عثمان

محفلین
خرم بھائی آپ نے کہا ..
" اورہاں علامہ کو مودودی صاحب کے ساتھ پتہ نہیں‌کیوں‌ملا دیا آپ نے؟ علامہ ایک بالکل مختلف مکتبہ فکر کی پیروی و اتباع کرتے تھے "
اور وہ مکتبہ فکر کیا تھا ؟؟؟ ہمیں تو یہ ایک ہی معلوم ہوتا ہے، آپ مولانا کی کتابیں پڑھیں تو آپ کو کچھ اندازہ ہو ... جماعت اسلامی کا پہلا مرکز دارالسلام پٹھان کوٹ دراصل علامہ اقبال کی ملکیت تھا جو انہوں نے مولانا مودودی کو اسلامی مقاصد میں استعمال کرنے کے لئے دیا تھا..
مزید لکھا ..
"جہاں‌تک بات ہے مودودی صاحب کی تو وہ تواپنےسوا کسی کی پیروی کے قائل ہی نہ تھے"
یہ سراسر بہتان ہے ( اگر آپ نے مودودی صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو نہیں تو آپ کی غلط فہمی ہے ( کیو نکہ مولانہ نے اپنی پیروی کرنے سے منع کیا ہے.
خاور بھائی کا یہ مشورہ بلکل ٹھیک ہے کہ آپ پہلے مولانا کو پڑھیں.
 

غازی عثمان

محفلین
ایک اقتباس۔۔
“ آخر میں ایک بات کی اور توضیح کردیناچاہتا ہوں۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر اختیار کیا ہے، اور پچھلے آٹھ سال کے دوران میں جو اصحاب “ ترجمان القرآن“ کا مطالعہ کرتے رہے ہیں وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی، میرے لئے یہ بات صاف کر دینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں جو کچھ آئندہ لکھوں گا یا کہوں گا اس کی حثیت امیر جماعت اسلامی کے فیصلہ کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کی ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہل علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اس کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی تحقیق اور اظہار رائے کی آزادی سلب ہوجائے۔ ارکان جماعت کو میں خداوند برترکا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی جسے میں نے اپنی تحقیق کی بنا پر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلا تحقیق محض میرا عمل ہونے کی حثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہر شخص کے لئے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں وہ اپنی تحقیق پر ، اور جو علم نہ رکھتے ہوں وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں اس کی تحقیق پر عمل کریں۔ نیز ان معاملات میں مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی سب آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے بالمقابل بحث و استدلال کرتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھے“
از مولانا ابوالاعلی مودودی۔
جماعت کے تاسیسی اجتماع میں امیر منتخب ہونے کے بعد کی تقریر
٣ شعبان سن ١٣٦٠ ہجری
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ سراسر بہتان ہے ( اگر آپ نے مودودی صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو نہیں تو آپ کی غلط فہمی ہے ( کیو نکہ مولانہ نے اپنی پیروی کرنے سے منع کیا ہے.
خاور بھائی کا یہ مشورہ بلکل ٹھیک ہے کہ آپ پہلے مولانا کو پڑھیں.
سنا ہے کہ مودودی صاحب نے خود کو مولانا کہلائے جانے سے بھی منع کیا تھا۔ اور یہ بھی کہ انہوں‌نے منع کیا تھا کہ جماعت کا کوئی بھی شخص ان کی ذات پر کئے گئے حملے کا جواب نہیں دے گا؟؟؟
 

سرفراز

محفلین
جماعت اسلامی کا مستقبل کیا ہو گا

جماعت اسلامی کا مستقبل کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعید اختر کا تجزیہ


چ پوچھئے تو جماعت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسکے موسس کی عام مسلمانوں سے مایوسی اور بیزاری کا یہ رویہ جماعتی اراکین اور رفیقوں کے مزاج اور طرزِ بودوباش میں بھی پہلے دن سے آج تک نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں مولانا نے مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کی شان میں جو گوہر افشانیاں کیں (جن سے مولانا نے پوری زندگی کبھی برأت کا اظہار نہیں کیا) انکے ریکارڈ پر ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم لیگ جماعتِ اسلامی کی نظریاتی برتری قبول کر لے۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ القمر آن لائن پر سعید اختر کا مضمون
 

خاور بلال

محفلین
خرم صاحب نے یہ سوال بہت مزے دار اٹھایا ہے کہ علامہ اقبال اور سید مودودی کے افکار میں کیا مماثلت ہے۔ ان کے اس سوال کا جواب دینا اب وقت ضائع کرنا ہے۔ میں نے بہتان تراشی کا دروازہ بند کرنے کے لیے انہیں مشورہ دیا تھا کہ سید مودودی کے افکار کا مطالعہ کرلیں۔ لیکن حسبِ توقع ان کی کشف و الہٰام کی کیفیت برقرار رہی اور انہیں سید مودودی پر جھوٹ باندھنے کے لیے ایک اور “آکاش وانی“ ہوئ۔ کالاپانی نے اس جھوٹ کے چھلکے اتارنے کی کوشش کی تو قیصرانی صاحب نے فرمایا “سید مودودی نے اپنی ذات پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات دینے سے منع کیا تھا۔“ قیصرانی صاحب نے بالکل صحیح بات لکھی ہے اور یہ سید مودودی کے کردار کی بلندی کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن میں پوچھنا چاہوں گا کہ جب خرم صاحب جھوٹ کی نہریں بہا رہے تھے تو انہیں اخلاقیات سکھانے کی کس نے کوشش کی؟ کسی کی ذات پر جھوٹ باندھنے کی سخت وعیدیں تو قرآن و حدیث میں درج ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جب خرم صاحب بہتان تراشی میں “مصروف“ تھے تو کسی کو اخلاقیات کا درس یاد نہیں آیا۔ خیر سے اخلاقیات سکھانے والوں کی بھی اخلاقیات ہوں یہ ضروری تو نہیں۔

ایک تو جھوٹ ویسے ہی ایک قبیح فعل ہے اس پر ستم یہ کہ جھوٹ ایسے شخص سے منسوب کیا جائے جس نے دین کی خدمت میں دن رات گذارے ہوں، صعوبتیں جھیلی ہوں اور “حق گوئ“ کے جرم میں سزائے موت کا حق دار ٹھہرایا گیا ہو۔ 100 سے زائد کتب، جن کا ستر سے زائد زبانوں میں ترجمہ۔ ٹھیک طرح سے ان کا نام پڑھنے کے لیے بھی آدھا گھنٹہ چاہیے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جس کی ذات کو مشق ستم بنایا جائے وہ اپنے دفاع کے لیے موجود نہ ہو۔ بھائ کسی کو سید مودودی کی فکر و نظر سے اختلاف ہے تو وہ جائز اختلافات کیوں نہیں کرتا؟ جھوٹ کا سہارا کیوں لیتا ہے؟

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
 

خرم

محفلین
کسی نے اسی صفحہ پر لکھا تھا
“ آخر میں ایک بات کی اور توضیح کردیناچاہتا ہوں۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر اختیار کیا ہے، اور پچھلے آٹھ سال کے دوران میں جو اصحاب “ ترجمان القرآن“ کا مطالعہ کرتے رہے ہیں وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی، میرے لئے یہ بات صاف کر دینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں جو کچھ آئندہ لکھوں گا یا کہوں گا اس کی حثیت امیر جماعت اسلامی کے فیصلہ کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کی ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہل علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اس کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی تحقیق اور اظہار رائے کی آزادی سلب ہوجائے۔ ارکان جماعت کو میں خداوند برترکا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی جسے میں نے اپنی تحقیق کی بنا پر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلا تحقیق محض میرا عمل ہونے کی حثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہر شخص کے لئے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں وہ اپنی تحقیق پر ، اور جو علم نہ رکھتے ہوں وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں اس کی تحقیق پر عمل کریں۔ نیز ان معاملات میں مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی سب آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے بالمقابل بحث و استدلال کرتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھے“
باقی رہ گئی بات مودودی صاحب اور علامہ کی مماثلت کی تو علامہ تو مسلم لیگ کے صدر بھی رہ چکے تھے اور تادم مرگ اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو لندن سے خط لکھ لکھ کر بلانے والے بھی علامہ تھے اور یہ بھی لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کے لئے آپ کے سوا کوئی موزوں نہیں۔ مودودی صاحب نے علامہ کی اس جوہر شناسی کی کیا قدر کی وہ ہم سب جانتے ہیں۔ حضرات پیر جماعت علی شاہ و پیر مہر علی شاہ رحم اللہ علیہم سے علامہ کے جو نیازمندانہ و عقیدتمندانہ تعلقات تھے ان کی طرف نظر نہیں جاتی شاید۔ علامہ تو پیر رومی کے مرید تھے اور ان کے فیض کا اعتراف کرتے تھے مودودی صاحب نے کہاں سے فیض حاصل کیا؟
اسی تناظر میں عرض کیا تھا کہ علامہ کو مودودی صاحب کے ساتھ نہ ہی ملایا جائے تو بہتر ہے۔علامہ مودودی صاحب کے مربی تھے لیکن مودودی صاحب علامہ کے پیروکار تھے یا ان کے نقطہ نظر پر قائم تھے، یہ بات قطعاً نہیں تھی اور نہ ہی یہ کسی بھی صورت ثابت کی جاسکتی ہے۔
مودودی صاحب کے دینی کارناموں کا بہت حوالہ دیا جاتا ہے۔ عرض کی تھی کہ اس موضوع کو رہنے ہی دیں۔ آپ انہیں دین کے مبلغ مانتے ہیں مانتے رہئے۔ میں نہیں مانتا تو آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ اپنے افعال ان کی تعلیمات کے مطابق چلائیے (اور اس کا ثبوت آپ کی تحریر سے تو ملتا ہی ہے، تقریر و کردار سے بھی ملتا ہوگا) مجھے جو دین پر عمل کا بہتر نمونہ نظر آتے ہیں میں ان کی پیروی میں زندگی گزارتا ہوں۔ اس میں طعن و تشنیع کی کیا بات؟
اور برائے مہربانی اب دوبارہ مودودی صاحب کے افکار کے مطالعہ کی ہدایت مت فرمائیے گا ان کے افکار کا جتنا مطالعہ "تفہیم القرآن" میں کر لیا ہے اتنا ہی کافی ہے بات بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔ آج کچھ لوگ کنویں میں بیٹھ کر ٹرانے لگیں اور بڑی شخصیات پر غرانے لگیں تو خود کو دانشور سمجھنے لگتے ہیں۔ غلاموں اور بلوں میں گھسے ہوئے انسان نما چوہوں کے لیے ِ۔۔۔۔۔

خاور بھائی میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن آپ کے مندرجہ بالا الفاظ کسی بھی طرح ایک شُستہ آدمی کے ذوق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ برائے مہربانی انہیں حذف کر دیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
آج کچھ لوگ کنویں میں بیٹھ کر ٹرانے لگیں اور بڑی شخصیات پر غرانے لگیں تو خود کو دانشور سمجھنے لگتے ہیں۔ غلاموں اور بلوں میں گھسے ہوئے انسان نما چوہوں کے لیے احساسِ کمتری ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے، جسے دور کرنے کے لیے وہ تاریخ ساز شخصیات کی “ہجو“ ایجاد کرتے ہیں۔ ہ
اس جماعت کے ساتھ جب تک آپ جیسے "شائستہ اور مہذب"‌بندے موجود ہیں، انہیں کسی بیرونی دشمن کی کیا حاجت
 

خاور بلال

محفلین
باقی رہ گئی بات مودودی صاحب اور علامہ کی مماثلت کی تو علامہ تو مسلم لیگ کے صدر بھی رہ چکے تھے اور تادم مرگ اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو لندن سے خط لکھ لکھ کر بلانے والے بھی علامہ تھے اور یہ بھی لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کے لئے آپ کے سوا کوئی موزوں نہیں۔ مودودی صاحب نے علامہ کی اس جوہر شناسی کی کیا قدر کی وہ ہم سب جانتے ہیں۔ حضرات پیر جماعت علی شاہ و پیر مہر علی شاہ رحم اللہ علیہم سے علامہ کے جو نیازمندانہ و عقیدتمندانہ تعلقات تھے ان کی طرف نظر نہیں جاتی شاید۔ علامہ تو پیر رومی کے مرید تھے اور ان کے فیض کا اعتراف کرتے تھے مودودی صاحب نے کہاں سے فیض حاصل کیا؟
میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ اقبال اور سید مودودی ایک دوسرے کی فوٹو کاپی تھے۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ ان کے افکار و نظریات میں انتہائ مماثلت ہے۔ ایسی باتیں سمجھنے کے لیے common sense کو زحمت دینی پڑتی ہے۔ ہاں البتہ جھوٹ بولنے کے لیے کسی کامن سینس کی ضرورت نہیں۔

اسی تناظر میں عرض کیا تھا کہ علامہ کو مودودی صاحب کے ساتھ نہ ہی ملایا جائے تو بہتر ہے۔علامہ مودودی صاحب کے مربی تھے لیکن مودودی صاحب علامہ کے پیروکار تھے یا ان کے نقطہ نظر پر قائم تھے، یہ بات قطعاً نہیں تھی اور نہ ہی یہ کسی بھی صورت ثابت کی جاسکتی ہے۔
اگر آپ مزید جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کریں تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔ اور ہاں یاد رہے آپ کی جو باتیں غلط ثابت ہوں انہیں مولانا بشیر احمد اخگر مرحوم سے ہرگز منسوب نہ کیجیے گا۔ وہ بیچارے مرحوم ہوچکے ہیں انہیں بیچ میں لانا مناسب نہیں۔ آپ کا کیا بھروسہ۔ جب آپ سید مودودی پر جھوٹ باندھ سکتے ہیں تو ان سے بھی جھوٹی باتیں منسوب کی جاسکتی ہیں۔


مودودی صاحب کے دینی کارناموں کا بہت حوالہ دیا جاتا ہے۔ عرض کی تھی کہ اس موضوع کو رہنے ہی دیں۔ آپ انہیں دین کے مبلغ مانتے ہیں مانتے رہئے۔ میں نہیں مانتا تو آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
مجھے تو کوئ فرق نہیں پڑتا البتہ وہ فرشتہ جو "جھوٹ" لکھنے پر مامور ہے اس کو اوور ٹائم لگانا پڑتا ہے۔

آپ اپنے افعال ان کی تعلیمات کے مطابق چلائیے (اور اس کا ثبوت آپ کی تحریر سے تو ملتا ہی ہے، تقریر و کردار سے بھی ملتا ہوگا) مجھے جو دین پر عمل کا بہتر نمونہ نظر آتے ہیں میں ان کی پیروی میں زندگی گزارتا ہوں۔ اس میں طعن و تشنیع کی کیا بات؟
کچھ نہ کہنے کے لیے
چلتی رہتی ہے زباں

اور برائے مہربانی اب دوبارہ مودودی صاحب کے افکار کے مطالعہ کی ہدایت مت فرمائیے گا ان کے افکار کا جتنا مطالعہ "تفہیم القرآن" میں کر لیا ہے اتنا ہی کافی ہے بات بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
خواتین و حضرات! سید مودودی علامہ اقبال کے کتنے قدر دان تھے یہ جاننے کے لیے اس دھاگے کا مطالعہ کیجیے۔ یاد رہے یہ ہدایت خرم صاحب کے لیے نہیں ہے۔کیونکہ ڈاکٹر نے انہیں سچی باتوں سے پرہیز تجویز کیا ہے۔
 

خرم

محفلین
میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ اقبال اور سید مودودی ایک دوسرے کی فوٹو کاپی تھے۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ ان کے افکار و نظریات میں انتہائ مماثلت ہے۔ ایسی باتیں سمجھنے کے لیے common sense کو زحمت دینی پڑتی ہے۔ ہاں البتہ جھوٹ بولنے کے لیے کسی کامن سینس کی ضرورت نہیں۔
مثلاً کیا مماثلت تھی یہ بھی فرما دینا تھا۔ جو فرق میں نے عرض کئے تھے ان پر تو آپ کی نظر ہی نہ جائے گی کبھی۔ :cool:
اگر آپ مزید جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کریں تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔ اور ہاں یاد رہے آپ کی جو باتیں غلط ثابت ہوں انہیں مولانا بشیر احمد اخگر مرحوم سے ہرگز منسوب نہ کیجیے گا۔ وہ بیچارے مرحوم ہوچکے ہیں انہیں بیچ میں لانا مناسب نہیں۔ آپ کا کیا بھروسہ۔ جب آپ سید مودودی پر جھوٹ باندھ سکتے ہیں تو ان سے بھی جھوٹی باتیں منسوب کی جاسکتی ہیں۔
اچھا تو پھر آپ بیان فرما دیجئے کہ خاکسار نے سید مودودی پر جھوٹ‌کب باندھا؟ اور مولانا بشیر احمد اخگر مرحوم پر جھوٹ باندھنے کی بات بھی آپ نے مولانا سے پوچھ کر ہی کی ہوگی کیونکہ آپ ان کی ہمسائیگی میں رہے ہوں گے (غالباً)۔:cool:
کچھ نہ کہنے کے لیے
چلتی رہتی ہے زباں
اب اور کیا کہوں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے :cool:
خواتین و حضرات! سید مودودی علامہ اقبال کے کتنے قدر دان تھے یہ جاننے کے لیے اس دھاگے کا مطالعہ کیجیے۔ یاد رہے یہ ہدایت خرم صاحب کے لیے نہیں ہے۔
بہت شکریہ۔ بس یہی گزارش تھی۔:)
 
Top