جنات انسان پر قابض ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟

فرخ

محفلین
شکر ہے اللہ کا
میری شادی نہیں ہوئی
میں ماموں, چچا، تایا بھی بن گیا
شکر ہے ابھی تک کسی نے انکل نہیں کہا :D:ROFLMAO:
وہ جن کے آپ ماموں، چچا، تایا بنے ہیں، انہیں اتنا بڑا ہو لینے دیں کہ بولنا شروع کر دیں۔۔ پھر آپ کو انکل بننے سے بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ اور آپ انہیں صرف اتنا ہی کہہ سکیں گے۔۔ "بڑا شیطان ہے یہ"۔۔
ویسے یاد آیا، شیطان بھی جنوں میں سے ہی ہے۔۔۔
 

باباجی

محفلین
وہ جن کے آپ ماموں، چچا، تایا بنے ہیں، انہیں اتنا بڑا ہو لینے دیں کہ بولنا شروع کر دیں۔۔ پھر آپ کو انکل بننے سے بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ اور آپ انہیں صرف اتنا ہی کہہ سکیں گے۔۔ "بڑا شیطان ہے یہ"۔۔
ویسے یاد آیا، شیطان بھی جنوں میں سے ہی ہے۔۔۔
بھائی جی مجھے یاد آیا کہ میں دادا بھی بن چکا ہوں
میری ایک بھانجی شادی شدہ ہے اس نے زبردستی اپنی 3 سالہ بیٹی کو سکھایا کہ مجھے چھوٹے دادا کہا کرے
یعنی شیطانوں کی ایک پلٹن ہے اب تو جن کا میں ماموں چچا تایا اور دادا ہوں
:confused:
 

فرخ

محفلین
بھائی جی مجھے یاد آیا کہ میں دادا بھی بن چکا ہوں
میری ایک بھانجی شادی شدہ ہے اس نے زبردستی اپنی 3 سالہ بیٹی کو سکھایا کہ مجھے چھوٹے دادا کہا کرے
یعنی شیطانوں کی ایک پلٹن ہے اب تو جن کا میں ماموں چچا تایا اور دادا ہوں
:confused:
میرا خیال ہے ان سب بچوں کو انگریزی نہیں آتی۔۔
 
بھائی جی مجھے یاد آیا کہ میں دادا بھی بن چکا ہوں
میری ایک بھانجی شادی شدہ ہے اس نے زبردستی اپنی 3 سالہ بیٹی کو سکھایا کہ مجھے چھوٹے دادا کہا کرے
یعنی شیطانوں کی ایک پلٹن ہے اب تو جن کا میں ماموں چچا تایا اور دادا ہوں
:confused:
فراز بھائی انسانوں نے تو آپ کا رشتہ لینے اور آپ کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا ہے کیا اب دوسری مخلوقات میں تلاش کیا جائے؟
 

باباجی

محفلین
فراز بھائی انسانوں نے تو آپ کا رشتہ لینے اور آپ کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا ہے کیا اب دوسری مخلوقات میں تلاش کیا جائے؟
ہاہاہاہاہاہاہاہا
انکار میری طرف سے ہوا ہے ہمیشہ
اور دوسری مخلوق مجھ سے ڈراتی ہے اپنے بچوں کو کہ
اوئے چپ کرجاؤ ورنہ فراز آجائے گا
 

ظفری

لائبریرین
سچ بتا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ۔۔۔۔ان آوازوں سے کئی دفعہ پورے گھر والے بھی اٹھ گئے تھے ۔۔۔۔۔ایک دفعہ ایسا لگا کہ اوپر زلزلہ آگیا ہے اور بہت بھاری سامان اوپر سے نیچے پھینکا جارہا ہو ۔۔۔۔۔۔۔مگر ہوتا کچھ نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور یوں جیسے بہت سے تانگے حرکت کرتے شور پیدا کرتے ہیں مگر ان کا وجود نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔اوپر ظفری صاحب انہوں نے کہا کہ یہ نسمہ ہوتا ہے ہو سکتا ہے نسمہ وضو کرتا ہو :p:p

مجھے اُ مید نہیں تھی کہ دس سال بعد پھر اس محفل پر جنات وارد ہوجائیں گے ۔ :LOL:
یہ تحریر جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے تقریباًِ دس سال پرانی ہے ۔ اب میں بڑا ہوگیا ہوں ۔ اور دانہ پانی بھی اچھی طرح کھانے لگ گیا ہوں ۔ :D
یہ ان دنوں کی بات ہے ۔ جب مجھ پر غیر ماورائی مخلوقات کے بارے میں جاننےکا دورہ پڑا ہوا تھا ۔ ایک دو تجربات کیساتھ میں نے تصوف کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ۔اور پھر کچھ سائنسی رسالوں میں اس کا تعلق بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ اور ان ساری کوششوں کے دوران جو کچھ سامنے آیا میں نے اس کو سب کے سامنے پیش کردیا ۔
مگر جب میں اصل دین یعنی قرآن کی طرف متوجہ ہوا تو پھر مجھے یہ ساری باتیں بے معنی لگنے لگیں ۔ ان چیزوں کی حقیقت یا ضروررت شاید وہاں ہو ۔ جہاں لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھ کر خوشی یا روحانی آسودگی محسوس کرتےہوں تو الگ بات ہے ۔مگر مجھے دنیا کے ایک عام آ دمی میں اس کی طرف کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی ۔اس کی اپنی ضروریات ہیں ۔ اور وہ دین کو بھی اپنے زاویئے سے دیکھتا ہے ۔ اس کے لیئے دین اس حد تک ہے کہ وہ ایمان کی آسودگی کیساتھ اپنی آخرت کی فکر کرلے ۔ اور دنیا کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ اس پر جو زمہ داریاں ہیں ۔ ان کو احسن طریقے سے اپنائے اور خود بھی جیئے اور دوسروں کو بھی جینےدے ۔
اب رہی جنات کی بات تو جنات کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں ۔ ابھی تک ایک مسٹری کی حیثیت رکھتیں ہیں ۔ اس جدید دنیا میں ایلین کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے ۔ ملین ڈالرز کی صرف مویویز ان پر بنائی جاتیں ہیں ۔ ان پر بھی بہت سے ابہام ہیں ۔ مگر چونکہ اس کا کوئی مستند ثبوت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ جدید دنیا کی کسی سرکاری محکمے سے تصدیق شدہ ہے :D ۔اس کی حیثیت صرف قصے کہانیوں تک ہی محدود ہے ۔مگر چونکہ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیئے لوگ آسانی سے اس کو ہضم کرجاتے ہیں ۔ خواہ وہ اس پر یقین کریں یا نہ کریں ۔ مگر جنات کا ذکر قرآن میں ملتا ہے ۔یوں تو اللہ نے بہت سی مخلوقات تخلیق کیں ۔ اور بہت سی دنیائیں بھی مرتب کر رکھیں ہیں ۔ سورہ فاتحہ تو شروع ہی " الحمداللہ رب العالمین " سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ یعنی ایک نہیں بلکہ کئی عالمین کا رب ۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں اور کیسے وجود پذیر ہیں ۔بلکل اسی طرح فرشتے ہیں ۔ انہیں بھی کسی نے نہیں دیکھا ۔ مگر ان پر الہامی مہذاہب کا گہرا اعتقاد ہے ۔ شاید اسی لیئے وہ جنوں کی طرح وجہ ِ تنقید نہیں بنتے ۔ ایسی بہت سے چیزیں ہیں ۔ جو بہت سے مذاہب میں پائی جاتیں ہیں ۔ جن کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی ایسی چیز پر تنقید کررہے ہوتے ہیں ۔ جو حواس کی گرفت میں نہیں آتی۔ تو وہ تنقید یا تحقیق ہمارے حاضر علم کی بدولت ہوتی ہے ۔ اور اس حاضر علم کو ہم اول و آخر مان کرہر ایسی چیز کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس کی مادی طور پر توجہہ بیان کرنا ممکن نہ ہو ۔ ہم اس سطح تک جاتے ہی نہیں کہ اس کی حقیقت اگلے علم تک کیا ہوگی ۔ کیا آج کے علم کو لیکر ہم 18 صدی میں جاکر لوگوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہزاروں میل دور بیھٹے ہوئےلوگوں ہم بلکل اسی طرف دیکھ سکتے ہیں جیسے ان کو دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے ہاتھوں اور پھر ہاتھوں کی پوروں سے کیا کیا کرشمات ہورہے ہیں ۔ اس پر شاید 70 یا 80 سال پہلے والے لوگ بھی یقین نہ کریں ۔
مادی طور پر چیزوں کی ساخت کو پرکھنا اور سمجھنا سائنس ہے ۔ مگر اس کی ترقی بھی ارتقاء کی بنیاد پر ہوئی ۔ مگر جن چیزوں کا تعلق عقل کی اس شاخ سے ہے ، جیسے اعتقاد کہا جاتا ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے کیسے دے سکتا ہے ۔ قرآن میں آدم کے سجدے کو موضوع ِ بحث بنایا گیا ۔ اور بتایا گیا کہ آدم کی تخلیق پر کن کن مخلوقات کو تحفظات محسوس ہوئے ۔ جن کا بھی ذکر کیا گیا ۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں واحد فریق تھا ۔ پھر سورہ جن میں اس کی الگ سے وضاحت کی گئی ہے ۔ مگران کے وجود ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ پیدا کرنے کا کیا جواز ہے ۔ فرشتے بھی بلکل اسی طرح غیر مرئی ہیں ۔بات دراصل کچھ بھی نہیں ہے ۔جنات پر یقین کرنا یا نہ کرنا کونسا بڑا مسئلہ ہے ۔ کچھ مسلمان تو دین کی بہت سے باتوں پر یقین نہیں رکھتے ۔
جنات کے تصور کا تصوف کی دنیا میں رنگ کچھ اور ہی ہے ۔ اور تصوف کی دنیا بھی کچھ اور ہی ہے ۔میں نے اس پر بھی لکھا ہے ۔جہاں طلسماتی طور پر کسی چیز کو پیش کیا جائے وہ باعث ِ دلچسپی بنتی ہے ۔ اب وہ چاہے مارننگ شوز میں عاملوں کی صورت میں ظاہر ہو یا پھر تصوف کی دنیا میں نسمہ کی صورت میں وقوع پذیر ہو ۔ باعث ِ تنقید ہی بننے گی ۔ جبکہ قرآن میں جنات کو بلکل ایک الگ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے ۔ جسے ہم تمثیل کہتے ہیں ۔ ان جنات کی حقیقت آج کے عالموں کے جنات سے بہت مختلف ہے ۔
آپ نے اس اقتباس میں کو واقعات بیان کیئے ہیں ۔ اس کو دینی حیثیت دینے سے زیادہ نفسیاتی اورسائنسئ اصولوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسی صورتحال اگر رونما ہو رہی ہے تو ممکن ہو اس میں ایلین کا ہاتھ ہو آخر آج کی مغربی ترقی یافتہ دنیا کا ایک حصہ اس پر یقین تو رکھتا ہے ۔ :D
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
پیڈو کوئی بھی ہو سکتا ہے، حتیٰ کہ یو ایس کے کانگریس مین بھی۔عامل ہونا اور پیڈو ہونا، میوچلی ایکسکلوزو پراپرٹیز ہیں۔
یہ’پیڈو‘ انگریزی والے ہیں یا پنجابی والے؟ :p

اگر ایسی صورتحال اگر رونما ہو رہی ہے تو ممکن ہو اس میں ایلین کا ہاتھ ہو آخر آج کی مغربی ترقی یافتہ دنیا کا ایک حصہ اس پر یقین تو رکھتا ہے ۔ :D
لگتا ہے آجکل ایکس فائلز کا اثر پورے امریکہ پر چھایا ہوا ہے۔ :ROFLMAO:
 

فرخ منظور

لائبریرین
جنوں پر کچھ گانے بھی بنائے جاتے ہیں۔
ہوئے ہم "جن" کے لیے برباد
جلتے ہیں "جن" کے لیے تیری آنکھوں کے دیے
میڈم نورجہاں نے پنجابی میں ایک گیت اپنے محبوب "جن" کے لیے گایا
"جناں" تیری مرضی نچا بیلیا
غالب نے ایک شعر میں جنوں کے بارے میں فرمایا۔
لکھتے رہے "جِنوں" کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
 

فرخ

محفلین
اچھی تحریر ہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی زمانے میں ھم جراثیموں کو نہیں دیکھ سکتے تھے، اس لئے ان پر شاذونادر ہی یقین کرتے تھے اور اس زمانے میں تو ایسی نا نظر آنے والی مخلوق کو زیادہ تر جنات ہی گنا جاتا تھا۔۔۔ ممکن ہےاس زمانے میں لوگوں کا جنات سے رابطہ ہوا ہو۔۔ حضرت سلمان علیہ السلام کے دور کے واقعات بہت مشہور ہیں۔۔ مگرپھر انسان نے اس دنیاوی اسباب سے وہ چیزیں ایجاد کر لیں جن کی مدد سے وہ مخلوقات بھی دیکھی جانے لگیں جنہیں دیکھنے کی صلاحیت انسان کی آنکھ میں قدرتی طور پر موجود نہیں تھی۔ اور یوں ان مخلوقات کے وجود کا لوگوں کو یقین آنے لگ گیا۔۔بات دراصل کچھ یوں ہے کہ
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خُدا کو کیونکر ۔۔۔ (اقبال)
آج سائنس اس بات پر قائل نظر آتی ہے کہ ہماری آنکھ 3 ڈائمنشن (یعنی لمبائی، چوڑائی اور موٹائی) کو دیکھ سکتی ہے، مگر اگر کوئی اور 4 ڈائمنشن موجود ہو تو اسے نہیں دیکھ سکتی۔۔ اور عین ممکن ہے کہ فرشتے اور جنات کا وجود ایسی ہی ڈائمنشن کا حصہ ہیں جنہیں ہماری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ اسی طرح کچھ روشنی کی طرح کی توانائی کی ایسی اشکال جنہیں دیکھنے کے لئے خاص قسم کا شیشہ چاہئیے، جیسے انفراریڈ کی روشنی ہے۔
مغربی دنیا میں بھی مذھب سے قطع نظر ایسے مشاھدات موجود ہیں جن میں کسی ایسی ہی غیر مرئی مخلوق کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ مگر چونکہ ابھی ھمارے پاس انہیں دیکھنے کا کوئی مادی طریقہ موجود نہیں لُہذا بہت سے لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے۔۔۔۔ اور جب ایسی ٹیکنالوجی بن گئی جس کے ذریعے ہر کوئی ایسی مخلوقات کا مشاھدہ کرنے لگ گیا، تو جنات کے وجود کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔۔۔

مجھے اُ مید نہیں تھی کہ دس سال بعد پھر اس محفل پر جنات وارد ہوجائیں گے ۔ :LOL:
یہ تحریر جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے تقریباًِ دس سال پرانی ہے ۔ اب میں بڑا ہوگیا ہوں ۔ اور دانہ پانی بھی اچھی طرح کھانے لگ گیا ہوں ۔ :D
یہ ان دنوں کی بات ہے ۔ جب مجھ پر غیر ماورائی مخلوقات کے بارے میں جاننےکا دورہ پڑا ہوا تھا ۔ ایک دو تجربات کیساتھ میں نے تصوف کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ۔اور پھر کچھ سائنسی رسالوں میں اس کا تعلق بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ اور ان ساری کوششوں کے دوران جو کچھ سامنے آیا میں نے اس کو سب کے سامنے پیش کردیا ۔
مگر جب میں اصل دین یعنی قرآن کی طرف متوجہ ہوا تو پھر مجھے یہ ساری باتیں بے معنی لگنے لگیں ۔ ان چیزوں کی حقیقت یا ضروررت شاید وہاں ہو ۔ جہاں لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھ کر خوشی یا روحانی آسودگی محسوس کرتےہوں تو الگ بات ہے ۔مگر مجھے دنیا کے ایک عام آ دمی میں اس کی طرف کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی ۔اس کی اپنی ضروریات ہیں ۔ اور وہ دین کو بھی اپنے زاویئے سے دیکھتا ہے ۔ اس کے لیئے دین اس حد تک ہے کہ وہ ایمان کی آسودگی کیساتھ اپنی آخرت کی فکر کرلے ۔ اور دنیا کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ اس پر جو زمہ داریاں ہیں ۔ ان کو احسن طریقے سے اپنائے اور خود بھی جیئے اور دوسروں کو بھی جینےدے ۔
اب رہی جنات کی بات تو جنات کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں ۔ ابھی تک ایک مسٹری کی حیثیت رکھتیں ہیں ۔ اس جدید دنیا میں ایلین کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے ۔ ملین ڈالرز کی صرف مویویز ان پر بنائی جاتیں ہیں ۔ ان پر بھی بہت سے ابہام ہیں ۔ مگر چونکہ اس کا کوئی مستند ثبوت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ جدید دنیا کی کسی سرکاری محکمے سے تصدیق شدہ ہے :D ۔اس کی حیثیت صرف قصے کہانیوں تک ہی محدود ہے ۔مگر چونکہ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیئے لوگ آسانی سے اس کو ہضم کرجاتے ہیں ۔ خواہ وہ اس پر یقین کریں یا نہ کریں ۔ مگر جنات کا ذکر قرآن میں ملتا ہے ۔یوں تو اللہ نے بہت سی مخلوقات تخلیق کیں ۔ اور بہت سی دنیائیں بھی مرتب کر رکھیں ہیں ۔ سورہ فاتحہ تو شروع ہی " الحمداللہ رب العالمین " سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ یعنی ایک نہیں بلکہ کئی عالمین کا رب ۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں اور کیسے وجود پذیر ہیں ۔بلکل اسی طرح فرشتے ہیں ۔ انہیں بھی کسی نے نہیں دیکھا ۔ مگر ان پر الہامی مہذاہب کا گہرا اعتقاد ہے ۔ شاید اسی لیئے وہ جنوں کی طرح وجہ ِ تنقید نہیں بنتے ۔ ایسی بہت سے چیزیں ہیں ۔ جو بہت سے مذاہب میں پائی جاتیں ہیں ۔ جن کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی ایسی چیز پر تنقید کررہے ہوتے ہیں ۔ جو حواس کی گرفت میں نہیں آتی۔ تو وہ تنقید یا تحقیق ہمارے حاضر علم کی بدولت ہوتی ہے ۔ اور اس حاضر علم کو ہم اول و آخر مان کرہر ایسی چیز کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس کی مادی طور پر توجہہ بیان کرنا ممکن نہ ہو ۔ ہم اس سطح تک جاتے ہی نہیں کہ اس کی حقیقت اگلے علم تک کیا ہوگی ۔ کیا آج کے علم کو لیکر ہم 18 صدی میں جاکر لوگوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہزاروں میل دور بیھٹے ہوئےلوگوں ہم بلکل اسی طرف دیکھ سکتے ہیں جیسے ان کو دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے ہاتھوں اور پھر ہاتھوں کی پوروں سے کیا کیا کرشمات ہورہے ہیں ۔ اس پر شاید 70 یا 80 سال پہلے والے لوگ بھی یقین نہ کریں ۔
مادی طور پر چیزوں کی ساخت کو پرکھنا اور سمجھنا سائنس ہے ۔ مگر اس کی ترقی بھی ارتقاء کی بنیاد پر ہوئی ۔ مگر جن چیزوں کا تعلق عقل کی اس شاخ سے ہے ، جیسے اعتقاد کہا جاتا ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے کیسے دے سکتا ہے ۔ قرآن میں آدم کے سجدے کو موضوع ِ بحث بنایا گیا ۔ اور بتایا گیا کہ آدم کی تخلیق پر کن کن مخلوقات کو تحفظات محسوس ہوئے ۔ جن کا بھی ذکر کیا گیا ۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں واحد فریق تھا ۔ پھر سورہ جن میں اس کی الگ سے وضاحت کی گئی ہے ۔ مگران کے وجود ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ پیدا کرنے کا کیا جواز ہے ۔ فرشتے بھی بلکل اسی طرح غیر مرئی ہیں ۔بات دراصل کچھ بھی نہیں ہے ۔جنات پر یقین کرنا یا نہ کرنا کونسا بڑا مسئلہ ہے ۔ کچھ مسلمان تو دین کی بہت سے باتوں پر یقین نہیں رکھتے ۔
جنات کے تصور کا تصوف کی دنیا میں رنگ کچھ اور ہی ہے ۔ اور تصوف کی دنیا بھی کچھ اور ہی ہے ۔میں نے اس پر بھی لکھا ہے ۔جہاں طلسماتی طور پر کسی چیز کو پیش کیا جائے وہ باعث ِ دلچسپی بنتی ہے ۔ اب وہ چاہے مارننگ شوز میں عاملوں کی صورت میں ظاہر ہو یا پھر تصوف کی دنیا میں نسمہ کی صورت میں وقوع پذیر ہو ۔ باعث ِ تنقید ہی بننے گی ۔ جبکہ قرآن میں جنات کو بلکل ایک الگ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے ۔ جسے ہم تمثیل کہتے ہیں ۔ ان جنات کی حقیقت آج کے عالموں کے جنات سے بہت مختلف ہے ۔
آپ نے اس اقتباس میں کو واقعات بیان کیئے ہیں ۔ اس کو دینی حیثیت دینے سے زیادہ نفسیاتی اورسائنسئ اصولوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسی صورتحال اگر رونما ہو رہی ہے تو ممکن ہو اس میں ایلین کا ہاتھ ہو آخر آج کی مغربی ترقی یافتہ دنیا کا ایک حصہ اس پر یقین تو رکھتا ہے ۔ :D
 
Top