مجھے اُ مید نہیں تھی کہ دس سال بعد پھر اس محفل پر جنات وارد ہوجائیں گے ۔
یہ تحریر جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے تقریباًِ دس سال پرانی ہے ۔ اب میں بڑا ہوگیا ہوں ۔ اور دانہ پانی بھی اچھی طرح کھانے لگ گیا ہوں ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے ۔ جب مجھ پر غیر ماورائی مخلوقات کے بارے میں جاننےکا دورہ پڑا ہوا تھا ۔ ایک دو تجربات کیساتھ میں نے تصوف کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ۔اور پھر کچھ سائنسی رسالوں میں اس کا تعلق بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ اور ان ساری کوششوں کے دوران جو کچھ سامنے آیا میں نے اس کو سب کے سامنے پیش کردیا ۔
مگر جب میں اصل دین یعنی قرآن کی طرف متوجہ ہوا تو پھر مجھے یہ ساری باتیں بے معنی لگنے لگیں ۔ ان چیزوں کی حقیقت یا ضروررت شاید وہاں ہو ۔ جہاں لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھ کر خوشی یا روحانی آسودگی محسوس کرتےہوں تو الگ بات ہے ۔مگر مجھے دنیا کے ایک عام آ دمی میں اس کی طرف کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی ۔اس کی اپنی ضروریات ہیں ۔ اور وہ دین کو بھی اپنے زاویئے سے دیکھتا ہے ۔ اس کے لیئے دین اس حد تک ہے کہ وہ ایمان کی آسودگی کیساتھ اپنی آخرت کی فکر کرلے ۔ اور دنیا کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ اس پر جو زمہ داریاں ہیں ۔ ان کو احسن طریقے سے اپنائے اور خود بھی جیئے اور دوسروں کو بھی جینےدے ۔
اب رہی جنات کی بات تو جنات کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں ۔ ابھی تک ایک مسٹری کی حیثیت رکھتیں ہیں ۔ اس جدید دنیا میں ایلین کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے ۔ ملین ڈالرز کی صرف مویویز ان پر بنائی جاتیں ہیں ۔ ان پر بھی بہت سے ابہام ہیں ۔ مگر چونکہ اس کا کوئی مستند ثبوت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ جدید دنیا کی کسی سرکاری محکمے سے تصدیق شدہ ہے
۔اس کی حیثیت صرف قصے کہانیوں تک ہی محدود ہے ۔مگر چونکہ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیئے لوگ آسانی سے اس کو ہضم کرجاتے ہیں ۔ خواہ وہ اس پر یقین کریں یا نہ کریں ۔ مگر جنات کا ذکر قرآن میں ملتا ہے ۔یوں تو اللہ نے بہت سی مخلوقات تخلیق کیں ۔ اور بہت سی دنیائیں بھی مرتب کر رکھیں ہیں ۔ سورہ فاتحہ تو شروع ہی " الحمداللہ رب العالمین " سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ یعنی ایک نہیں بلکہ کئی عالمین کا رب ۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں اور کیسے وجود پذیر ہیں ۔بلکل اسی طرح فرشتے ہیں ۔ انہیں بھی کسی نے نہیں دیکھا ۔ مگر ان پر الہامی مہذاہب کا گہرا اعتقاد ہے ۔ شاید اسی لیئے وہ جنوں کی طرح وجہ ِ تنقید نہیں بنتے ۔ ایسی بہت سے چیزیں ہیں ۔ جو بہت سے مذاہب میں پائی جاتیں ہیں ۔ جن کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی ایسی چیز پر تنقید کررہے ہوتے ہیں ۔ جو حواس کی گرفت میں نہیں آتی۔ تو وہ تنقید یا تحقیق ہمارے حاضر علم کی بدولت ہوتی ہے ۔ اور اس حاضر علم کو ہم اول و آخر مان کرہر ایسی چیز کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس کی مادی طور پر توجہہ بیان کرنا ممکن نہ ہو ۔ ہم اس سطح تک جاتے ہی نہیں کہ اس کی حقیقت اگلے علم تک کیا ہوگی ۔ کیا آج کے علم کو لیکر ہم 18 صدی میں جاکر لوگوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہزاروں میل دور بیھٹے ہوئےلوگوں ہم بلکل اسی طرف دیکھ سکتے ہیں جیسے ان کو دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے ہاتھوں اور پھر ہاتھوں کی پوروں سے کیا کیا کرشمات ہورہے ہیں ۔ اس پر شاید 70 یا 80 سال پہلے والے لوگ بھی یقین نہ کریں ۔
مادی طور پر چیزوں کی ساخت کو پرکھنا اور سمجھنا سائنس ہے ۔ مگر اس کی ترقی بھی ارتقاء کی بنیاد پر ہوئی ۔ مگر جن چیزوں کا تعلق عقل کی اس شاخ سے ہے ، جیسے اعتقاد کہا جاتا ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے کیسے دے سکتا ہے ۔ قرآن میں آدم کے سجدے کو موضوع ِ بحث بنایا گیا ۔ اور بتایا گیا کہ آدم کی تخلیق پر کن کن مخلوقات کو تحفظات محسوس ہوئے ۔ جن کا بھی ذکر کیا گیا ۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں واحد فریق تھا ۔ پھر سورہ جن میں اس کی الگ سے وضاحت کی گئی ہے ۔ مگران کے وجود ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ پیدا کرنے کا کیا جواز ہے ۔ فرشتے بھی بلکل اسی طرح غیر مرئی ہیں ۔بات دراصل کچھ بھی نہیں ہے ۔جنات پر یقین کرنا یا نہ کرنا کونسا بڑا مسئلہ ہے ۔ کچھ مسلمان تو دین کی بہت سے باتوں پر یقین نہیں رکھتے ۔
جنات کے تصور کا تصوف کی دنیا میں رنگ کچھ اور ہی ہے ۔ اور تصوف کی دنیا بھی کچھ اور ہی ہے ۔میں نے اس پر بھی لکھا ہے ۔جہاں طلسماتی طور پر کسی چیز کو پیش کیا جائے وہ باعث ِ دلچسپی بنتی ہے ۔ اب وہ چاہے مارننگ شوز میں عاملوں کی صورت میں ظاہر ہو یا پھر تصوف کی دنیا میں نسمہ کی صورت میں وقوع پذیر ہو ۔ باعث ِ تنقید ہی بننے گی ۔ جبکہ قرآن میں جنات کو بلکل ایک الگ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے ۔ جسے ہم تمثیل کہتے ہیں ۔ ان جنات کی حقیقت آج کے عالموں کے جنات سے بہت مختلف ہے ۔
آپ نے اس اقتباس میں کو واقعات بیان کیئے ہیں ۔ اس کو دینی حیثیت دینے سے زیادہ نفسیاتی اورسائنسئ اصولوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسی صورتحال اگر رونما ہو رہی ہے تو ممکن ہو اس میں ایلین کا ہاتھ ہو آخر آج کی مغربی ترقی یافتہ دنیا کا ایک حصہ اس پر یقین تو رکھتا ہے ۔