جنات کے تصور کا تصوف کی دنیا میں رنگ کچھ اور ہی ہے ۔ اور تصوف کی دنیا بھی کچھ اور ہی ہے ۔میں نے اس پر بھی لکھا ہے ۔جہاں طلسماتی طور پر کسی چیز کو پیش کیا جائے وہ باعث ِ دلچسپی بنتی ہے ۔ اب وہ چاہے مارننگ شوز میں عاملوں کی صورت میں ظاہر ہو یا پھر تصوف کی دنیا میں نسمہ کی صورت میں وقوع پذیر ہو ۔ باعث ِ تنقید ہی بننے گی ۔ جبکہ قرآن میں جنات کو بلکل ایک الگ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے ۔ جسے ہم تمثیل کہتے ہیں ۔ ان جنات کی حقیقت آج کے عالموں کے جنات سے بہت مختلف ہے ۔
اس لڑی میں ایک یا دو حضرات ہیں جو بات میں سنجیدہ دکھے ہیں ۔ باقی مجھے شغل میلا دکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اب چونکہ مجھے آپ کی بات منطقی لگی ہیں اس لیے سوچا ہے آپ سے بات کی جائے ۔ آپ کے کہنے کے مطابق نسمہ کو قران پاک نے بصورت جن کی تمثیل کی شکل دی ہے ؟ نسمہ کیا جن کی شکل ہے ؟ اور ہماری اوزون لئیر تو پہلے ہی سورج کی مضر شعاعوں کو آنے سے روک دیتی ہے پھر نسمہ انہی مضر شعاعوں کو کیسے ری بیک کرتا ہے ۔
آپ نے اس اقتباس میں کو واقعات بیان کیئے ہیں ۔ اس کو دینی حیثیت دینے سے زیادہ نفسیاتی اورسائنسئ اصولوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسی صورتحال اگر رونما ہو رہی ہے تو ممکن ہو اس میں ایلین کا ہاتھ ہو آخر آج کی مغربی ترقی یافتہ دنیا کا ایک حصہ اس پر یقین تو رکھتا ہے ۔
مادی طور پر چیزوں کی ساخت کو پرکھنا اور سمجھنا سائنس ہے ۔ مگر اس کی ترقی بھی ارتقاء کی بنیاد پر ہوئی ۔ مگر جن چیزوں کا تعلق عقل کی اس شاخ سے ہے ، جیسے اعتقاد کہا جاتا ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے کیسے دے سکتا ہے ۔ قرآن میں آدم کے سجدے کو موضوع ِ بحث بنایا گیا ۔ اور بتایا گیا کہ آدم کی تخلیق پر کن کن مخلوقات کو تحفظات محسوس ہوئے ۔ جن کا بھی ذکر کیا گیا ۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں واحد فریق تھا ۔ پھر سورہ جن میں اس کی الگ سے وضاحت کی گئی ہے ۔ مگران کے وجود ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ پیدا کرنے کا کیا جواز ہے ۔ فرشتے بھی بلکل اسی طرح غیر مرئی ہیں ۔بات دراصل کچھ بھی نہیں ہے ۔جنات پر یقین کرنا یا نہ کرنا کونسا بڑا مسئلہ ہے ۔ کچھ مسلمان تو دین کی بہت سے باتوں پر یقین نہیں رکھتے ۔
بات وہی جب آپ نے آدم کی تخلیق کی بات کی یا فرشتوں کی توجیہات دیں ۔۔۔۔۔ہم نے کب کسی کو روکا ہے ان پر یقین نہ کریں یا یقین کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہی کسی کے یقین کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے ۔ہم تو کبھی اس کے رد عمل میں یقین دلاتے یا انانیت کے مارے دلائل پر نہیں اترتے کہ ہمیں اپنی ہی بات ہر صورت منوانی ہے ۔۔۔ آپ کے اس انداز نے میری دل میں آپ کی قدر بڑھا دی ہے ۔۔۔۔۔اسی طرح بتاتے رہیے گا۔۔۔۔۔
اور اس حاضر علم کو ہم اول و آخر مان کرہر ایسی چیز کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس کی مادی طور پر توجہہ بیان کرنا ممکن نہ ہو ۔ ہم اس سطح تک جاتے ہی نہیں کہ اس کی حقیقت اگلے علم تک کیا ہوگی ۔ کیا آج کے علم کو لیکر ہم 18 صدی میں جاکر لوگوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہزاروں میل دور بیھٹے ہوئےلوگوں ہم بلکل اسی طرف دیکھ سکتے ہیں جیسے ان کو دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے ہاتھوں اور پھر ہاتھوں کی پوروں سے کیا کیا کرشمات ہورہے ہیں ۔ اس پر شاید 70 یا 80 سال پہلے والے لوگ بھی یقین نہ کریں ۔
آپ کا حاضر علم کا واقعی ہی مادی دنیا سے واسطہ نہیں ہے ۔۔۔۔ آپ کا اس علم پر کس حد تک یقین ہے ۔ کوئی ایسا واقعہ جو آپ بیان کرسکیں تو کریں
سورہ فاتحہ تو شروع ہی " الحمداللہ رب العالمین " سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ یعنی ایک نہیں بلکہ کئی عالمین کا رب ۔
واہہہہہہہہ ۔۔۔۔۔ لاجواب انداز ہے بتانے کا۔۔۔۔۔۔ کاش کہ اس طرح قران پاک میں بھی پڑھوں