سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیاں ، ہسپتال ، اعلی عدالتوں کے بنچ ، پختہ سڑکیں اور تعمیر و ترقی سے متعلقہ دیگر لوازمات ان علاقوں تک پہنچائے جائیں تو محرومی کا احساس کم کیا جا سکتا ہے۔ نئے صوبے بنانا اس کا حل نہیں ہے۔ یہ مزید مسائل پیدا کریں گے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو مزید صوبائی تعصبات کی شکل میں ہی اٹھ کھڑا ہو گا۔پھر وسائل پہ بوجھ بڑھے گا۔ پنجاب کے موجودہ گورنر سردار ذوالفقار کھوسہ سرائیکی ہیں۔ شیر کا لقب پانے والے مصطفے کھر بھی پنجاب کے گورنر رہے لیکن ان لوگوں نے بھی اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔ اور ہمارے سرائیکی بھائی جو محبت اور مٹھاس میں اپنا جواب نہیں رکھتے بالآخر ہم سے بد ظن ہوئے۔ اور ان لوگوں کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔
لیکن موجودہ بے اصول سیاست دان، سرائیکی ہوں یا غیر سرائیکی ، یہ اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لئیے اس علاقے کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ان کی محرومیوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں اور نئے صوبے کی آڑ میں اپنی دکانداری چمکا رہے ہیں۔
تاج محمد لنگاہ نے سب سے پہلے یہ نعرہ بلند کیا لیکن وکیل ہونے کے باوجود اپنے علاقے کے عوام کے حق کے لئیے کوئی قانونی یا سیاسی کوشش نہیں کی ۔ یہی حال محمد علی درانی کا ہے۔ بڑی لمبی فہرست ہے ،پھر کبھی بات ہو گی۔
جناح پور کا معاملہ اب ختم ہو چکا اس گڑھے مردے کو اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ الطاف حسین نے اردو سپیکنگ بھائیوں کے نام پہ سیاست خوب چمکا لی ۔ جو بندہ برطانیہ کی شہریت کے لئیے مرا جا رہا تھا وہ آج کراچی اور کراچی میں بسنے والوں کے کرب کو کیا سمجھ پائے گا۔ یہ بڑھک ماری کے فن میں ماہر کبھی جی ایم سید کا مرید خاص تھا اور آج خود پیر بن گیا۔ کراچی لاوارث ہے۔ عوام خوف کی حالت میں ہیں اور یہ لیڈران عاشق و معشوق کی مانند روٹھنے منانے اور اپنا اپنا بھاؤ بڑھانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی جناح پور پہ بحث کر رہا ہے تو کوئی سرائیکی صوبے کا رونا رو رہا ہے اور حالات جس سمت بڑھ رہے ہیں وہ خدانخواستہ پاکستان کے وجود کو معدوم کرنے والے ہیں۔ پھر کہاں کا جناح پور اور کیسا سرائیکی صوبہ۔۔۔۔۔۔ اور ہم(دانشوران محفل) ہیں کہ جلتی پہ تیل ڈالنے کا کام کرتے جا رہے ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ اگر اچھی بات کہنے کو نہ ہوتو خاموشی بھی ایک نعمت ہے۔