جنرل اسد درانی کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے

جناح کا پاکِستان باجوہ اینڈ کمپنی کی گرفت میں ہے، اور ان سے پہلے ایوب، یحییٰ، ضیاء، مُشرف وغیرہ کے 'تصرف' میں تھا، بقیہ اِکا دُکا سیاست دان جو آئے، وُہ اُن کے ہی لائے ہوئے یا بنائے ہوئے تھے، اب ہمیں چاہیے کِہ عاصم سی پیکوی کے پیزے کھائیں، اِتفاق سریا اِستعمال کریں اور اے ٹی ایم مشینوں اور فارن فنڈنگ کے کرشمات دیکھیں اور سر دُھنیں۔
یہ تو آپ نے پاکستان کی پوری تاریخ بیان کردی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا نہیں ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس پاپولر ووٹ ہے۔ 90 ء کے الیکشن میں ضرور دھاندلی کرکے نون کو جتوایا گیا لیکن یہ کوئی ایسا نہیں تھا کہ ایک شخص جسے سیاست کی الف بے بھی نہ آتی ہو اسے باقاعدہ پلان بناکر لایا گیا۔ حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار کے اشارے یہی کہتے تھے۔
۱۹۹۷ کے الیکشن میں ن لیگ کے پاس دو تہائی سیٹیں کہاں سے آگئی اور پیپلز پارٹی جیسی پاپولر جماعت محض ۱۸ سیٹوں تک کیسے محدود ہو گئی؟
954972-A1-A335-47-C6-9283-6-D7-F6-CEB2-B8-A.jpg

پی پی کے پاس ۱۹۹۷ کے الیکشن میں ن لیگ سے قریبا آدھا ووٹ تھا لیکن سیٹیں صرف ۱۸ ملیں۔ جبکہ دوگنا ووٹ والی جماعت ن لیگ ۱۳۷ سیٹیں لے اڑی!
اس لئے خدارا چہرے نہیں نظام کو بدلیں۔ برطانوی اسٹائل فرسٹ پاس ووٹنگ کی بجائے proportional representation لے کر آئیں جو دنیا کی بہترین جمہوریتوں میں رائج ہے۔ یوں ہر ووٹ کا سیٹوں کی الاٹمنٹ پر اثر پڑے گا اور الیکشن ہارنے والی جماعت کی سیٹیں اس طرح بے تحاشا کم نہیں ہوں گی جیسا کہ ۱۹۹۷ والے الیکشن میں ہوا۔
Our archaic first-past-the-post system is alarmingly unfit for a multi-party age | Proportional representation | The Guardian
The main features of the Norwegian electoral system
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان فارم 45, کمپیوٹر کو ڈاؤن کرکے اور کاؤنٹنگ میں فوجیوں کو بٹھاکر اور پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال کر دھاندلی کے باوجود جب اکثریت نہیں حاصل کرپائے تو لوٹوں سے کام چلایا گیا۔
فوج کو پولنگ بوتھس کے اندر اور باہر عمران خان نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشنر نے تعینات کیا۔ الیکشن کمیشنر عمران خان نے نہیں بلکہ ن لیگ اور پی پی کی باہم مشاورت سے لگایا گیا تھا۔
تمام حلقوں کے فارم ۴۵ آج بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
 
فوج کو پولنگ بوتھس کے اندر اور باہر عمران خان نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشنر نے تعینات کیا۔ الیکشن کمیشنر عمران خان نے نہیں بلکہ ن لیگ اور پی پی کی باہم مشاورت سے لگایا گیا تھا۔
تمام حلقوں کے فارم ۴۵ آج بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
پولنگ کو مانیٹر عمران نہیں محکمۂ زراعت کررہا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر عمران خان ووٹوں سے آئے ہوتے تو خود شو چلانے کی سعی کرتے سب کچھ جنرل صاحب پر نہ ڈال دیتے۔ بھٹو، نواز اور بے نظیر کے گناہ یہی تھے کہ انہوں نے اقتدار میں آکر کبھی فوج کی بالادستی کو قبول نہیں کیا اسی لیے انہیں چلتا کیا گیا۔
خود سعی کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا نواز شریف کی طرح تمام اہم وزارتیں اپنے پاس رکھ لیتے؟ نواز شریف نے تو پچھلے دور حکومت میں کئی سال وزیر خارجہ رکھا ہی نہیں۔ بلکہ خود ہی وزیر خارجہ بن کر سارا سال پوری دنیا کی سیریں کرتے رہتے۔ پیچھے نظام حکومت چلانے کیلیے اپنے سمدھی اسحاق ڈالر اور بیٹی مریم نواز کو چھوڑ جاتے۔ جو وزیر اعظم کی مسلسل غیر موجودگی میں کابینہ کی میٹنگز تک چیئر کر رہی ہوتی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پولنگ کو مانیٹر عمران نہیں محکمۂ زراعت کررہا تھا۔
الیکشن کمیشن پچھلی حکومت اور اس کی اپوزیشن جماعت پی پی نے باہم مشاورت سے طے کیا تھا۔ الیکشن سے قبل عبوری حکومت بھی ان دونوں بڑی جماعتوں نے اپنی مرضی سے مل کر بنائی۔ نیب چیئرمین بھی انہی دونوں جماعتوں کا لگایا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی سارے فساد کی جڑ عمران خان اور محکمہ زراعت ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بڑی جلدی لَوڈ کر دِیے ڈار صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آر ٹی ایس سسٹم بھی عمران خان نے نہیں بنایا۔ پچھلی حکومت کو بڑے پیمانہ پر ایک تجرباتی الیکشن کروا کر اس سسٹم کو اچھی طرح چیک کرنا چاہیے تھا کہ اوور لوڈ ہونے پر یہ کریش تو نہیں ہوگا۔ الیکشن نتائج ہر پولنگ بوتھ سے موبائل فون پر بھیجے جانے تھے اور بہت سے مقامات پر موبائل سگنل ہی بند یا دستیاب نہیں تھے تو آر ٹی ایس نے کیا خاک کام کرنا تھا۔ آئیندہ انتخابات میں اس سے بہتر الیکشن نظام لے کر آئیں۔
 
لیکن پھر بھی سارے فساد کی جڑ عمران خان اور محکمہ زراعت ہے۔
عمران بیچارے پر کوئی دوش نہیں۔ یہاں تک کہ وزیراعظم بن کر ملک چلانے کا دوش بھی نہیں۔ آپ کے اپنے مراسلے موجود ہیں جن میں صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ وغیرہ کے نام سے محکمۂ زراعت کے سربراہ کی تصویر ہے۔ آپ خود مانتے ہیں کہ ملک کوئی اور چلارہا ہے۔ عمران خان کا کام صرف دشمن دار بن کر دشمنیاں نبھانا ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
ویسے دیر سے ڈاؤنلوڈ ہُوئے مگر ہیں خستہ، ان پر پکوڑے تلے ہوئے دھرے جا سکتے ہیں، ذرا دیکھنا ایک لنک اور بتانا مسٹر جاسم محمد کہ اس ربط میں پہلے فارم میں کیا کُچھ لکھا ہُوا نظر آتا ہے۔ جو اُمیدوار جیتا، اُسے صفر ووٹ اس پولنگ سٹیشن سے مِلے، خیر، یہ تو ایک ازراہِ تفنن مراسلہ ہے، اِس پر مُجھے تو تشویش ہونے لگ گئی ہے۔ این اے 59 کو بطور تبرک کھولا تھا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اب ایک پیج کے نام پر کٹھ پتلی موجود ہے۔ خارجہ پالیسی داخلہ پالیسی دفاعی پالیسی سب کچھ فوج چلارہی ہے۔
فوج نے اتنے سال ملک میں براہ راست حکومت کی ہے لیکن کبھی ملک کی بر آمداد بڑھانے پر اس طرح کام نہیں کیا جیسا کہ اس حکومت میں ہو رہا ہے۔ یہ پالیسی یقیناً جنرل باجوہ کی نہیں ہے۔
مشرف دور میں اور آج بھی بہت سے جرنیل اسرائیل سے تعلقات بنانا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی دو ٹوک اینٹی اسرائیل پالیسی ہے۔ فوج اس معاملہ میں کچھ بھی نہیں کر پائی۔
ماضی میں فوج اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساز باز کر کے ان کو کرپشن کیسز میں این آر او، ڈیل یا ڈھیل دے دیا کرتی تھی۔ فوجی قیادت سے اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقاتیں اس حکومت میں بھی ہو رہی ہیں لیکن ماضی کے برخلاف اب کوئی این آر او نہیں مل رہا کیونکہ حکومت اس کے خلاف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزراء کی ٹیم پر نظر ڈالیے تو آپ کو خود پتا چل جائے گا کہ کتنے لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ہیں اور کتنے پی ٹی آئی کے ہیں۔ یہ واقعی سیلیکٹڈ ہیں جنھیں صرف فرنٹ پر رہنا ہے۔ باقی ڈوریں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔
ہر الیکشن میں قریبا ۸۰ سیٹیں الیکٹ ایبلز کی ہوتی ہیں اور یہ الیکٹ ایبلز الیکشن سے قبل اسٹیبلشمنٹ کی ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹیاں بدل لیتے ہیں۔ جس دن عوام ان پرو اسٹیبلشمنٹ الیکٹ ایبلز کو ووٹ دینے کی بجائے سیاسی جماعتوں کے نظریاتی کارکنان کو ووٹ دے گی، اس دن یہ نظام ٹھیک ہوگا۔
۲۰۱۳ الیکشن میں عمران خان نے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ نہیں دیا۔ نتیجہ وہ الیکشن ہار گئے۔
 

بابا-جی

محفلین
ہر الیکشن میں قریبا ۸۰ سیٹیں الیکٹ ایبلز کی ہوتی ہیں اور یہ الیکٹ ایبلز الیکشن سے قبل اسٹیبلشمنٹ کی ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹیاں بدل لیتے ہیں۔ جس دن عوام ان پرو اسٹیبلشمنٹ الیکٹ ایبلز کو ووٹ دینے کی بجائے سیاسی جماعتوں کے نظریاتی کارکنان کو ووٹ دے گی، اس دن یہ نظام ٹھیک ہوگا۔
۲۰۱۳ الیکشن میں عمران خان نے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ نہیں دیا۔ نتیجہ وہ الیکشن ہار گئے۔
عوام میں شُعور بیداری کے لِیے ففتھ جنریشن کے سرخیل صبح شام ایک کِیے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ جو بقیہ سیٹیں ہیں وہ بھی فوجیوں کے ہاتھوں بانٹی جاویں گی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جنرل اسد درانی کی پینشن اور مراعات فوج نے بند کر دی تھی اس لئے ان کو ملک کی معیشت خراب ہی لگنی ہے :)
Pakistan's army strips ex-spy chief of pension over book
اس خبر کی بابت کہا تھا۔
خبر کا لنک 2019 کا ہی ہے۔ آپ پھر سے دیکھ لیجے۔
نہ کہ آپ کی پوسٹ کا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھ جیسے کم فہم تو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر چارہ جوئی کے بعد بھی اگر آج بھی فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے اور الیکشن سیاست دانوں پر چھوڑ دیں تو عمران خان آج بھی خود اپنے دم پر الیکشن جیتنے کی حالت میں نہیں ہے
سیاست دان خود بھی کبھی صاف شفاف الیکشنز کے حق میں نہیں رہے۔ ۱۹۷۷ کا الیکشن بھٹو با آسانی جیت سکتے تھے لیکن انہوں نے ۴۰ سیٹوں پر دھاندلی کی۔ ۱۹۹۰ کا الیکشن نواز شریف جیت ہی نہیں سکتے تھے اگر آئی ایس آئی مداخلت نہ کرتی۔ ۱۹۹۷ کے الیکشن میں صرف ۳۶ فی فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے ووٹ دیا اور ن لیگ کو دو تہائی اکثریت مل گئی۔ ۲۰۱۳ کے الیکشن میں آر اوز نے دھاندلی کر کے ن لیگ کو بھاری اکثریت سے جتوایا۔ جبکہ ۲۰۱۸ کے الیکشن پر الزامات ہیں کہ یہ محکمہ زراعت نے مینج کئے۔ دیکھتے ہیں اگلے الیکشن کے بعد کیا الزامات لگتے ہیں۔
 

بابا-جی

محفلین
سیاست دان خود بھی کبھی صاف شفاف الیکشنز کے حق میں نہیں رہے۔ ۱۹۷۷ کا الیکشن بھٹو با آسانی جیت سکتے تھے لیکن انہوں نے ۴۰ سیٹوں پر دھاندلی کی۔ ۱۹۹۰ کا الیکشن نواز شریف جیت ہی نہیں سکتے تھے اگر آئی ایس آئی مداخلت نہ کرتی۔ ۱۹۹۷ کے الیکشن میں صرف ۳۸ فی فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے ووٹ دیا اور ن لیگ کو دو تہائی اکثریت مل گئی۔ ۲۰۱۳ کے الیکشن میں آر اوز نے دھاندلی کر کے ن لیگ کو بھاری اکثریت سے جتوایا۔ جبکہ ۲۰۱۸ کے الیکشن پر الزامات ہیں کہ یہ محکمہ زراعت نے مینج کئے۔ دیکھتے ہیں اگلے الیکشن کے بعد کیا الزامات لگتے ہیں۔
اور یِہ دھاندلی سیاست دانوں نے فوج کی مدد کے بغیر کر کے دھاک بٹھائی، پُوری بات بتاؤ مِیاں!
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کے اپنے مراسلے موجود ہیں جن میں صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ وغیرہ کے نام سے محکمۂ زراعت کے سربراہ کی تصویر ہے۔ آپ خود مانتے ہیں کہ ملک کوئی اور چلارہا ہے۔
وہ تصویر تو ویسے ہی مزح کیلئے ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں سویلین وزیر اعظم کچھ کرنا چاہ رہا ہو اور اس کا آرمی چیف اس پالیسی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ جیسے ۱۹۹۸ میں نواز شریف بھارت سے امن معاہدہ کرنا چاہ رہے تھے کہ پیچھے سے مشرف نے کارگل حملہ کر دیا۔
پھر ۲۰۱۶ میں نواز شریف دوبارہ بھارت سے تجارتی تعلقات بنانا چاہ رہے تھے کہ اس وقت کے آرمی چیف نے ان پر ڈان لیکس کا حملہ کر دیا۔
عمران خان کی ابھی تک تو ہر پالیسی میں آرمی چیف ساتھ دے رہے ہیں۔ مستقبل کا پتا نہیں۔
 
Top