باب پنجم : بھالو
خموشی چھاگئی جِس دَم اکیلا سامنے آیا
وہیں جنگل کا اِک قانون اُس نے پھِر سے دُہرایا
’’اگر چاہیں کسی پلّے کو اپنے جھُنڈ میں لانا
تو پھِر لازِم ہے اُس کے حامیوں کا سامنے آنا
ذرا یہ غور سے سُن لیں جو ہیں سب حاضِر و ناظِر
ہمیں درکار ہیں دو جانور اِس کام کی خاطِر‘‘
یہ سننا تھا کہ بھالو کوُد کر یوں سامنے آیا
اور اِک بھونچال کی مانند اُس نے سب کو چونکایا
یہی بھالو تھا جو اِن سب کو مکتب میں پڑھاتا تھا
سبھی قانون جنگل کے اُنہیں پڑھ کر سُناتا تھا
اُسے حق تھا کہ اِس مجلِس میں اپنی رائے دے سکتا
یہ بھالو تھا کُچھ ایسا ہی کہ بس دِل موہ لے سب کا
کہا بھالو نے یہ بچہ ہے میرا اور میں اسِ کا ہوں
میں اِس انسان کے بچے کے حق میں رائے دیتا ہوں
’’چلویہ طے ہوا اب ایک بھالو اِس کا حامی ہے
مگر اب موگلی کے حق میں خالی اِک اسامی ہے
اگر دو جانور یک رائے ہوکر اِس کا دَم بھر لیں
تو شامل موگلی کو جھنڈ میں ہم آج ہی کرلیں‘‘
اُدھر ماما اکیلی دانت اپنے تیز کرتی تھی
وہ اپنے ناخنوں کو اپنے منہ سے بھی کُترتی تھی
کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ اُس کے خلاف آئے
تو پھر بیچارہ بچہ جان تو اپنی بچا پائے
میں اِس بچے کی خاطِر جان بھی اپنی گنوا دوں گی
جو اِس کو کھانے آئے گا، میں اُس کو بھی مِٹا دوں گی
باب چہارم : جنگل کا قانون