آپ کا موگلی ٹھیک چل رہا ہے،
تاہم مجھے رڈیارڈ کپلنگ کی کہانی میں ایک خاص مقصدیت دکھائی دیتی ہے جو بہت اچھی نہیں ہے۔
یہ ضرور دھیان میں رکھئے گا کہ ذہن سازی کا وہی خاص مقصد جو رڈیارڈ کے پیشِ نظر تھا، آپ بھی اسی کے مبلغ تو نہیں بن رہے؟
خلیل بھائی آسی بھائی کا مطلب ہے کہ" ربودم دانہ و دامش گسستم " کا خیال رکھیں ۔

آداب عرض ہے استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔

سید عاطف علی بھائی پہلے اس فارسی محاورے (؟) کا ترجمہ بھی پیش کیجیے۔

ویسے تو ہمارے خیال میں انگریز قوم دنیا کی چالاک اور عقلمند ترین قوموں میں سے ایک ہے۔ ایک انگریز مصنف پورے ایک امریکن تھنک ٹینک گروہ پر بھاری ہوسکتا ہے۔ دیکھیے کہ کس خوبصورتی اور سادگی کے ساتھ اینیمل فارم میں جارج آرول نے روسیوں کو سور، بندر گھوڑے اور دیگر جانور بنا دیا۔ اسی طرح اس کہانی میں بھی یقیناً پیچھے ایک دوسری کہانی ہوگی، لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال میں ہمارے ہاں بچوں کا کیا ادب تخلیق کیا گیا اور کون سے کردار اتنے مشہور ہوئے؟ ہم نے بچوں کے ادب کو گویا یکسر بھلا دیا اور ادب میں مشکل پسندی کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ مولوی ممتاز علی نے بچوں کا رسالہ پھول نکالا تو لکھنے والوں کو یہ ہدایات دیں۔

’’پس اے مصنفو اور زبان کی درستی چاہنے والو! نہ فارسی عربی لفظ بولنے کا شوق کرو ، نہ ہندی کی چندی نکالنے کی عادت ڈالو ۔ تم ہمیشہ وہ زبان بولو اور لکھو جو سب سے آسان ہو ۔ جسے بچہ بچہ سیکھ سکتا ہے۔‘‘

ہم یقیناً انگریزوں کی کسی ذہن سازی کے مقصد سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے لیکن ایک سادہ سی کہانی کے طور پر یہ کہانی آج کی مشہور ترین کہانی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خلیل بھائی ۔ یہ تو ایک خیال آیا تھا مجھے اس پس منظر کا تفصیلی علم ابھی بھی نہیں ہے جس کی طرف آسی بھائی نے اشارہ کیا ہے۔ اس انتہائی محدود تناظر مجھے میرا پیش کردہ مصرع مجھے اس اشارے یا "ممکنہ" اندیشے سے موافق محسوس ہواتو عرض کر دیا ۔
یہ مصرع ارمغان حجار کے اشعار میں سے ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے فرنگی مصاحبت کے دور کے بارے میں ایک لطیف مگر عمیق اجمالی تجزیہ پیش کیا ہے۔
طلسم ِ عصر ِ حاضر را شکستم
ربودم دانہ و دامش گسستم
ترجمہ۔۔۔
میں نے عصر حاضر کا سحر توڑ دیا
میں نے دانہ (بھی) اٹھا لیا اور اسکا جال بھی توڑ دیا
 
آداب عرض ہے استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔

سید عاطف علی بھائی پہلے اس فارسی محاورے (؟) کا ترجمہ بھی پیش کیجیے۔

ویسے تو ہمارے خیال میں انگریز قوم دنیا کی چالاک اور عقلمند ترین قوموں میں سے ایک ہے۔ ایک انگریز مصنف پورے ایک امریکن تھنک ٹینک گروہ پر بھاری ہوسکتا ہے۔ دیکھیے کہ کس خوبصورتی اور سادگی کے ساتھ اینیمل فارم میں جارج آرول نے روسیوں کو سور، بندر گھوڑے اور دیگر جانور بنا دیا۔ اسی طرح اس کہانی میں بھی یقیناً پیچھے ایک دوسری کہانی ہوگی، لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال میں ہمارے ہاں بچوں کا کیا ادب تخلیق کیا گیا اور کون سے کردار اتنے مشہور ہوئے؟ ہم نے بچوں کے ادب کو گویا یکسر بھلا دیا اور ادب میں مشکل پسندی کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ مولوی ممتاز علی نے بچوں کا رسالہ پھول نکالا تو لکھنے والوں کو یہ ہدایات دیں۔

’’پس اے مصنفو اور زبان کی درستی چاہنے والو! نہ فارسی عربی لفظ بولنے کا شوق کرو ، نہ ہندی کی چندی نکالنے کی عادت ڈالو ۔ تم ہمیشہ وہ زبان بولو اور لکھو جو سب سے آسان ہو ۔ جسے بچہ بچہ سیکھ سکتا ہے۔‘‘

ہم یقیناً انگریزوں کی کسی ذہن سازی کے مقصد سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے لیکن ایک سادہ سی کہانی کے طور پر یہ کہانی آج کی مشہور ترین کہانی ہے۔

میرا ذہن سازی والا اشارہ زبان کی طرف قطعاً نہیں تھا۔ اس پوری کہانی میں اور اس کی بنیاد پر بنائی گئی کارٹون موویوں میں بین السطور یہ زہر دیا جا رہا ہے کہ انسان ارزل ہے اور وحوش افضل ہیں۔ پھر اس میں آگے انسان کو طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شیر جو ہمارے روایتی ادب میں بہادری کی علامت ہے اس کو اس کہانی میں مکاری اور ظلم کی علامت دکھایا گیا ہے اور پھر اسی شیر کی کھال ادھڑوائی گئی ہے، بھیڑیا یہاں مربی بنایا گیا ہے؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

بچوں کے لئے ادب کم لکھا گیا، بجار ارشاد۔ اس کا مؤثر علاج یہ ہے کہ کہانی بھی اپنی بنائیے جو اپنی تہذیب سے جڑی ہوئی ہو۔ ایک جگہ اگر ہمارے ہاں خلا ہے تو اس کو پر کرنے کے لئے افکار بھی اپنی زمین اور اپنی تہذیب سے لئے جائیں تو کہانی مؤثر بھی ہو گی۔ اور بچوں کی فکر کو بھی درست راستے پر لے جائے گی۔ چلئے سو فی صد اپنی نہ سہی، وہ جو رڈیارڈ نے لکھا وہ بھی تو تخیلاتی دنیا ہے نا، اس میں رد و بدل بھی تو ہو سکتا ہے، کوئی چیز جمع نفی بھی کی جا سکتی ہے۔

بلکہ میں تو بچوں کے لئے شعری ادب تخلیق کرنے والے کو یہ رعایت بھی دیتا ہوں کہ وہ اصناف اور اس کے تقاضوں پر سختی سے عمل کرنے کا پابند نہیں ہے۔ زبان بھی سکھائی جائے اور خالص زبان سکھائی جائے، پیرایہ آسان ہو، فنیات کا بوجھ نہ ہو؛ وغیرہ۔
 
میں نے نصاب میں ایک انگریزی ناول "گلیورز ٹریولز" پر مبنی آسان انگریزی کے اسباق دیکھے۔ مجھے نہیں پتہ یہ تلخیص کس نے کی ہے۔ مجھے اس پر پہلا اعتراض یہ ہوا کہ گلیور کو "لمبو" (ایل اے ایم بی ڈبل او) کا نام دیا گیا (جیسے لمبے آدمی کو طنزاً یا مذاق کے طور پر کہتے ہیں) ۔ دیکھئے بچوں کو کیا سکھایا جا رہا ہے! نام بگاڑنا ہماری اقدار کے منافی ہے اور یہاں ایک نام بگاڑ کر اس سے انسیت پیدا کی جا رہی ہے۔ کوئی اور نام بھی دیا جا سکتا تھا، اور یہ قطعاً ضروری نہیں تھا کہ اس کے نام میں طویل القامت کے معانی لازماً پائے جائیں۔ جوناتھن سوئفٹ کی اس کتاب میں دئے گئے نام ہنوز ان کے اہل زبان کی سمجھ سے بالاتر ہیں، تو صاحب تلخیص نویس بھی چاہے کوئی بے معنی سا نام دے دیتے یہ تضحیک والا نام نہ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔
 
اردو میں بچوں کے گو لکھنے والے معدودے چند ہی ہیں لیکن انہوں نےلازوال کردار تخلیق کیے، جیسے امتیاز علی تاج نے چچا چھکن اور صوفی تبسم نے ٹوٹ بٹوٹ وغیرہ
 

الف عین

لائبریرین
خوب، میں نے اب تک کچھ نہیں کہا تھا اس پر۔
کبھی طاقت سے وہ اس جھنڈ کا سردار ہوتا تھا
مگر اب رفتہ رفتہ اپنی وہ قوت کو کھوتا تھا
دوسرا مصرع ایک تو رواں نہیں، اس کے علاوہ یہ انگرزی محاورے کے مطابق ہے۔ اردو میں کھونا اس طرح استعمال نہیں ہوتا۔
 
باب ہشتم : دیس نکالا


یہی حالات تھے جن کا یہاں قصہ سناتے ہیں
یہی وہ گیت ہیں جن کو یہاں پر گنگناتے ہیں

اکیلا نے سیونی جھنڈ کا اجلاس بلوایا
بگھیرا کو بھی دعوت دی گئی ، وہ بھی وہاں آیا

ابھی بیٹھے ہی تھے سب جانور اس جھنڈ کے آکر
یکایک شیر کی آواز سے اچھلے وہ گھبرا کر

یہی وہ شیر تھا جو موگلی کا جانی دشمن تھا
شرارت سے طباقی نے اُسے بھی واں پہ بُلوایا

اسی اجلاس میں سب بھیڑیوں کا فیصلہ بدلا
یہیں پر موگلی کی زندگی کا راستہ بدلا

ابھی دس سال پہلے ہی اُسے بیٹا بنایا تھا
مگر حالات بدلے ، اب یہاں پر خوف چھایا تھا

کہا سب نے کہ اب ہم موگلی کو رکھ نہیں سکتے
مزہ انسان کی اب دوستی کا چکھ نہیں سکتے

یہی جنگل جہاں پر بھیڑیوں کی حکمرانی تھی
یہیں اب شیر تھا موجود اور بدلی کہانی تھی

ہم اِس کو شیر کے چنگل میں دے دیں گے کہا سب نے
ہم اپنی جاں بچائیں گے ارادہ کرلیا سب نے

اِدھر یہ سب اچھلتے تھے، اُدھر ماما تڑپتی تھی
اُسے بس موگلی پیارا تھا، اُس کا نام جپتی تھی

بگھیرا نے جو یہ حالات دیکھے ، وہ بھی گھبرایا
بہت سوچا تو اُس کے ذہن میں بس ایک حل آیا

کہا اُس نے سنو! اے میرے پیارے بھیڑیو یارو!
بہت مشکل ہوئی ہے صورتِ حالات اے پیارو!

اگر تُم موگلی کو شیر کے پنجوں میں دے دو گے
اِدھر جو اُس کی ماما ہے ، اُسے کیسے سنبھالو گے

ذرا میری سنو تم اور میرا مشورہ مانو
اگر تُم مجھ کو اپنے جھُنڈ کا اِک دوست ہی جانو

یہاں سے دور، جنگل سے پرے کچھ لوگ رہتے ہیں
یہ انسانوں کی بستی ہے جسے وہ گاؤں کہتے ہیں

وہاں میں موگلی کو چھوڑ آؤں گا ، یہ وعدہ ہے
یہ میرا مشورہ ہے اور یہی میرا ارادہ ہے

یہی حل ہے کہ ماما کو بھی جس سے چین آئے گا
یہاں نہ موگلی ہوگا، نہ اُس کو شیر کھائے گا

نہ کچھ پوچھے گی ماما ، اور نہ کچھ وہ کُریدے گی
وگرنہ وہ تڑپ کرہی یہاں پر جان دے دے گی

ٌٌٌ ٌٌٌ ٌٌٌٌ ٌٌٌٌ ٌٌٌٌ​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یاں تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن ’واں‘ وہ بھی بچوں کی نظموں میں؟ بہتر ہو کہ یاں واں کو یہاں وہاں ہی باندھا جائے، قوافی میں بہت گنجائش ہے، مجبوری ہو تو کوئی بات نہیں۔ جیسے
بگھیرا کو بھی دعوت دی گئی اور وہ بھی واں آیا
کو
بگھیرا کو بھی دعوت دی گئی، وہ بھی وہاں آیا
 
یاں تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن ’واں‘ وہ بھی بچوں کی نظموں میں؟ بہتر ہو کہ یاں واں کو یہاں وہاں ہی باندھا جائے، قوافی میں بہت گنجائش ہے، مجبوری ہو تو کوئی بات نہیں۔ جیسے
بگھیرا کو بھی دعوت دی گئی اور وہ بھی واں آیا
کو
بگھیرا کو بھی دعوت دی گئی، وہ بھی وہاں آیا
لیجیے ۔ آپ کی ہدایت کے مطابق تدوین کردی ہے۔
 
باب نہم

سمجھ داری کی باتیں تھیں، یہی مشکل کا اِک حل تھا
ذرا سی دیر میں اس حل کا حامی سارا جنگل تھا

طباقی نے سُناجونہی کہ ان کا فیصلہ یہ تھا
وہ سر پر پیر رکھ کر تب وہاں سے بھاگ نکلا تھا

وہاں سے بھاگ کر وہ شیر کے ہی پاس آیا تھا
اور اُس کو ماجرا اُس رات کا پھر کہہ سنایا تھا

یہ سنتے ہی اُٹھا جب شیر لے کر ایک انگڑائی
طباقی کو اسی میں خیریت اپنی نظر آئی

دبائی دُم ، ہوا پھر وہ وہاں سے بھی رفو چکر
اُسے ہڈی تو مل جاتی، مگر تھا جان کا بھی ڈر

’’چلو یہ فیصلہ تو ہوگیا ، کچھ میں بھی سوچوں گا
ابھی ہے موگلی جنگل میں اُس کو جا دبوچوں گا‘‘

یہ کہہ کر شیر گرجا زور سے اور سب ہی تھّرائے
گرج ایسی تھی اکثر کا تو سن کر دم نکل جائے

بگھیرا نے سنا تو موگلی کو ڈھونڈنے نکلا
اُسے جنگل کے اِک کونے میں اُس نے کھیلتا پایا

ابھی گو موگلی نے شیر سے ڈرنا نہ سیکھا تھا
جھجکتا تھا کسی سے ،نہ کسی سے خوف کھاتا تھا

کہا اُس سے بگھیرا نے ’’یہاں پر شیر آئے گا
مجھے ڈر ہے شکار اپنا وہ تُم کو ہی بنائے گا

یہ بہتر ہے کہ میں تُم کو یہاں سے دور لے جاؤں
اِک انسانوں کی بستی ہے، وہاں پر چھوڑ کر آؤں‘‘

کہا تب موگلی نے ’’اے مرے پیارے بگھیرا جی!
ذرا سی بات یہ میری سمجھ میں کیوں نہیں آتی

مجھے اِس شیر سے ڈرنے کی آخر کیا ضرورت ہے
چھپا پھرتا تھا کل تک وہ، یہی اُس کی حقیقت ہے

مجھے تو جھُنڈ کی اپنے حمایت بھی میسر ہے
یہی ہیں بھائی میرے اور یہی جنگل مرا گھر ہے‘‘
( یہی ہیں بھائی میرے اور یہ جنگل مرا گھر ہے)

ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ​
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
وہاں سے بھاگ کر وہ شیر کے ہی پاس آیا تھا
بہت خوب چل رہا ہے قصہ ۔ ۔۔۔معمولی تبدیلی کی ایک رائے ہے۔
اس مصرع میں "ہی"بر محل نہیں لگ رہا اسے ایڈجسٹ کردیں۔۔۔(اوراگر پرانی کہانی کے سلسلے سے مربوط ہو تو ایسے ہی رہنے دیں ۔ )
کسی سے وہ نہ ڈرتا تھا، نہ کچھ وہ خوف کھاتا تھا
ڈرنا اور خوف کھانا ۔ایک ہی ہے۔ تھوڑا سا بدل دیں تو اچھا ہو مثلاً ۔جھجکتا تھا کسی سے ،نہ کسی سے خوف کھاتا تھا۔
چھپا پھرتا تھا کل تک جو، یہی اُس کی حقیقت ہے
یہاں موصولہ "جو" کی بجائے خودضمیر "وہ" ہو تو شاید بہتر لگے گا۔چھپا پھرتا تھا کل تک وہ ، یہی اُس کی حقیقت ہے۔
 
بہت خوب چل رہا ہے قصہ ۔ ۔۔۔معمولی تبدیلی کی ایک رائے ہے۔
اس مصرع میں "ہی"بر محل نہیں لگ رہا اسے ایڈجسٹ کردیں۔۔۔(اوراگر پرانی کہانی کے سلسلے سے مربوط ہو تو ایسے ہی رہنے دیں ۔ )

ڈرنا اور خوف کھانا ۔ایک ہی ہے۔ تھوڑا سا بدل دیں تو اچھا ہو مثلاً ۔جھجکتا تھا کسی سے ،نہ کسی سے خوف کھاتا تھا۔

یہاں موصولہ "جو" کی بجائے خودضمیر "وہ" ہو تو شاید بہتر لگے گا۔چھپا پھرتا تھا کل تک وہ ، یہی اُس کی حقیقت ہے۔
جزاک اللہ الخیر۔ تدوین کردی ہے۔ پہلی تجویز بھی بہت عمدہ ہے اس کے لیے کچھ سوچتے ہیں کہ ہی کو کیسے اور کس لفظ سے بدلیں
 
Top