سید شہزاد ناصر
محفلین
چھا گئے ہیں بھائی جیباب نہم
سمجھ داری کی باتیں تھیں، یہی مشکل کا اِک حل تھا
ذرا سی دیر میں اس حل کا حامی سارا جنگل تھا
طباقی نے سُناجونہی کہ ان کا فیصلہ یہ تھا
وہ سر پر پیر رکھ کر تب وہاں سے بھاگ نکلا تھا
وہاں سے بھاگ کر وہ شیر کے ہی پاس آیا تھا
اور اُس کو ماجرا اُس رات کا پھر کہہ سنایا تھا
یہ سنتے ہی اُٹھا جب شیر لے کر ایک انگڑائی
طباقی کو اسی میں خیریت اپنی نظر آئی
دبائی دُم ، ہوا پھر وہ وہاں سے بھی رفو چکر
اُسے ہڈی تو مل جاتی، مگر تھا جان کا بھی ڈر
’’چلو یہ فیصلہ تو ہوگیا ، کچھ میں بھی سوچوں گا
ابھی ہے موگلی جنگل میں اُس کو جا دبوچوں گا‘‘
یہ کہہ کر شیر گرجا زور سے اور سب ہی تھّرائے
گرج ایسی تھی اکثر کا تو سن کر دم نکل جائے
بگھیرا نے سنا تو موگلی کو ڈھونڈنے نکلا
اُسے جنگل کے اِک کونے میں اُس نے کھیلتا پایا
ابھی گو موگلی نے شیر سے ڈرنا نہ سیکھا تھا
جھجکتا تھا کسی سے ،نہ کسی سے خوف کھاتا تھا
کہا اُس سے بگھیرا نے ’’یہاں پر شیر آئے گا
مجھے ڈر ہے شکار اپنا وہ تُم کو ہی بنائے گا
یہ بہتر ہے کہ میں تُم کو یہاں سے دور لے جاؤں
اِک انسانوں کی بستی ہے، وہاں پر چھوڑ کر آؤں‘‘
کہا تب موگلی نے ’’اے مرے پیارے بگھیرا جی!
ذرا سی بات یہ میری سمجھ میں کیوں نہیں آتی
مجھے اِس شیر سے ڈرنے کی آخر کیا ضرورت ہے
چھپا پھرتا تھا کل تک وہ، یہی اُس کی حقیقت ہے
مجھے تو جھُنڈ کی اپنے حمایت بھی میسر ہے
یہی ہیں بھائی میرے اور یہی جنگل مرا گھر ہے‘‘
( یہی ہیں بھائی میرے اور یہ جنگل مرا گھر ہے)
ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ
اللہ آپ کے قلم کی روانی کو قائم رکھے آمین