طاہر القادری پر تنقید ضرور کیجئے ، لیکن منطقی انداز میں اور دلائل کے ساتھ ( بدقسمتی کے ساتھ یہ چلن اس معاشرے میں کم ہوتا جارہا ہے)۔
حکومت جس بری طرح اس سارے سلسلے میں ایکسپوز ہوئی ہے اور حکومتی مشینری اور اراکین کی بدیانتیوں اور بوکھلاہٹوں کا جو جو مظاہرہ دیکھنے میں ایا ہے، اس سے ہر ذی شعور اس بات سے اتفاق کرے گا کہ طاہر القادری ا س معاملے میں حکومت کے مقابلے مین کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔۔۔ابھی یہ چار پانچ دن کے اندر کا یہ حال ہے اور جس طرح حکومت کی ساکھ تباہ ہوکر رہ گئی ہے، تو آنے والے تین چار ماہ میں کیا ہونے جارہا ہے، اسکا ادراک کرنا کچھ اتنا مشکل نہیں۔
ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ فرقے ، مسلک اور آئیڈیالوجی کی بنیاد پر بری طرح تقسیم ہوچکے ہوئے ہیں، وہاں کسی بھی ایک فریق کا اتنی مخالفت کے ہوتے ہوئے، اپنا ایجنڈا اس طریقے سے نافذ کرنے کی کوشش کرنا، کسی پائیدار اور مستحکم معاشرے کے قیام کا ضامن نہیں ہے۔جہاں کچھ لوگ محض مسلک کی بنیاد پر اندھا دھند مخالفت کرتے ہوں، اور اس مخالفت میں ہر حد سے گذرجانا، دجل و فریب اور جھوٹ کا سہارا لینا اپنے لئے جائز سمجھتے ہوں ، وہاں انقلاب کے دو ہی راستے ہوسکتے ہیں۔۔۔ا اگر معاشرے کو ایک بیمار جسم سمجھ لیا جائے تو اسکا علاج یا تو سرجری ہے، یا پھر ہومیوپیتھی کی طرح لمبے عرصے تک دوا دارو۔۔۔۔پہلا طریقہ خانہ جنگی کے راستہ ہے جس کے نتائج کی کوئی ضمانت نہیں۔ اور دوسرا طریقہ لانگ ٹرم ہے جس میں کردار، علم، دلیل، خدمت سے لوگون کی تعلیم و تربیت کی جائے اور لوگوں کے نفوس کے اندر انقلاب برپا کیا جائے۔
لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تحریک کے پازیٹو سائیڈ افیکٹس ضرور ہونگے اور پاکستان کیلئے ان شاء اللہ بہتری ہی ہوگی۔
معاشرے کے طویل طریقہ علاج کے لئے معالج کا خود مستقل مزاج ہونا ضروری ہے۔ واضح مقصد ہو اور مستقل مزاجی کے ساتھ نیک نیتی لیکر جب معاشرے اور قوم کی بہتری کے لئے کام کیا جائے تو یقناً بہتر نتائج برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
مگر طاہرالقادری صاحب انتہائی متنازع شخصیت کے حامل ہیں۔ سیاسی اعتبار سے وہ کبھی بھی مستقل مزاج نہیں رہے۔ سیاست میں آنے کے بعد کبھی سیاست چھوڑنے کا اعلان کر دیا، پھر کچھ عرصے بعد سیاست شروع کر دی، کبھی مشرف کی حمایت کی تو کبھی مخالفت کی، پھر اسکی حمایت شروع کر دی۔ پھر اسمبلی سے استعفی دے دیا۔ کبھی سیاست سے توبہ کا اعلان کر دیا اور کبھی توبہ توڑنے کا اعلان کر دیا۔ کبھی چیف جسٹس کے حق میں نعرے لگوا دیے اور کبھی بھری عدالت میں چیف جسٹس پر ذاتی حملے شروع کر دیے۔ بے شمار مثالیں طاہرالقادری کی سیاسی قلابازیوں کی موجود ہیں۔ اور وقتاً فوقتاً ان کے خواب رہی سہی کسر بھی نکال دیتے ہیں۔ ایسے معالج سے کیسی توقع رکھی جاسکتی ہے؟
اور عملی حال یہ ہے کہ اسی فورم پر چند دن پہلے ان کے ایک کارکن تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد پر قبضہ کرکے انقلاب لانے کا طریقہ بتا رہے تھے۔ اور طاہرالقادری صاحب خود بھی باربار فوج کو پکار رہے تھے۔
مذہبی حالات یہ ہیں کہ خود یہ بریلوی کہلانا پسند نہیں کرتے اور مخالف ان کو بریلوی ہی سمجھتے ہیں۔ علماء اہلسنت کو انہوں نے اپنے جھوٹے خواب سنا کر اپنا مخالف بنا رکھا ہے۔ میں نے بہت دفعہ ان کے کارکنوں کو علماء اہلسنت کے بارے میں بے ادبی سے بات کرتے دیکھا ہے۔
اگر طاہرالقادری صاحب اپنے اندر مثبت مستقل مزاجی پیدا کریں اور اپنے پیروکاروں کو مسلسل جد جہد کے ساتھ قوم کی خدمت کا رستہ دکھائیں گے انشآاللہ ضرور رب کریم کی رحمت شامل حال ہوگی۔
اور اگر یوں ہی یہ اپنے عقیدت مندوں کو اپنی خودنمائی اور شہرت کے لئے استعمال کرتے رہیں گے تو کب تک ان کے موجودہ کارکن ان کے ساتھ رہیں گے؟ یاد رہے کہ میں بہت سے ان کے سابقہ کارکنوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو ان کی سیاسی قلابازیوں کی وجہ سے ان سے بدظن ہو چکے ہیں۔