جی تو سب تیار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ پیشِ خدمت ہے جیہ صاحبہ کی بارات کا آنکھوں دیکھا، نہ کانوں سنا حال۔۔۔۔۔
جیہ کی بارات
مورخہ 24 فروری کو عزیزی جویریہ مسعود کی شادی خانہ آبادی طے کی گئی تھی۔۔۔یہ خوش قسمت دن بھی آپہنچا تھا۔۔۔جویریہ جو ہم سب کی جیہ ہیں۔۔جنھیں کچھ ہی گھنٹوں بعد جویریہ مسعود سے جویریہ مشتاق بن جانا تھا۔
مہندی کا احوال آپ ماوراء کی ذبانی سن چکے ہیں۔۔۔ماوراء کے کیمرے کی شاہکار فوٹو گرافی بھی دیکھ چکے ہیں۔۔۔: )
مہندی کا فکنشن چونکہ رات بہت دیر تک چلا تھا۔۔ ماوراء، محب، حجاب، ظفری، بوچھی باجو، سارہ، شمشاد چاء، قیصرانی بھائی، ثناءاللہ صاحب، راہبر، فہیم، پاکستانی، وارث صاحب، اعجاز چاء، نیناں آپو، ضبط سب نے مل کر خوب گلے پھاڑ پھاڑ کر گانے گائے تھے۔۔بلکہ کچھ لوگوں نے تو ڈھول کی تھاپ پر باقاعدہ بھنگڑا بھی ڈالا تھا۔۔۔جس کے بعد اب کچھ تو گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ کچھ سرسوں کے تیل سے اپنا گلا مالش کررہے تھے۔۔۔کچھ آیوڈیکس لگائے بیٹھے تھے۔ یہ تقریب تو شاید صبح ہی ختم ہوتی ۔۔وہ تو بھلا ہو منتظمین کا۔۔نبیل صاحب اور زکریا صاحب آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔۔۔نبیل نے تو آتے ساتھ ہی گرج دار آواز کے ساتھ سب کو خاموش کروا دیا۔ پھر باقی کی کسر زکریا کی گھورتی آنکھوں نے پوری کردی۔۔یوں یہ محفل برخاست ہوئی۔
بارات کے آنے کا وقت دوپہر بارہ بجے تھا لیکن شادی چونکہ پاکستان میں ہورہی تھی۔۔۔اس لیے سب نے اپنی گھڑیوں میں شام پانچ بجے کا الارم لگا رکھا تھا۔۔پانچ بجے ایک بار پھر ہلچل مچ گئی۔ لڑکوں کی اکثریت نے بیوٹی سیلون کا رخ کیا۔۔۔جبکہ لڑکیاں وبائی بیماری کی طرح گھر کے ہر شیشے کو چپک گئیں اور میک اپ کے نام پر دنیا جہان کی الا بالا اپنے سامنے رکھ لی۔ ( میں اور ماوراء چونکہ کاغذ قلم سنبھالے بیٹھی تھیں۔۔اس لیے ہماری تیاری زیادہ خاص نہیں ہوسکی تھی)
جیہ کو چونکہ شمع محفل بننا تھا اس لیے انہیں کسی قسم کا رسک لیے بغیر بیوٹی پارلر روانہ کیا گیا۔
شادی کا انتظام “تاج محل“ میں تھا۔۔۔آہستہ آہستہ مہمان آنا شروع ہوگئے۔۔۔مرد حضرات کو بڑی مشکل سے بیوٹی سیلونز سے واپس منگوایا گیا۔ اور لڑکیوں کو شیشوں سے ہٹانے کے لیے باقاعدہ آنسو گیس کا استمعال کیا گیا۔۔۔۔یوں تقریبا رات دس بج کے بیس منٹ پر لڑکی والوں کا قافلہ تاج محل پہنچا۔
لڑکیوں کے ہاتھ میں لڑکے والوں کےاستقبال کے لیے پھولوں کی پتیوں سے بھری پلیٹیں تھیں ۔۔جبکہ مرد حضرات نے ڈھیروں ڈھیر نقشی،دبکے والے ہار، نوٹوں والے ہار تھام رکھے تھے۔ لیکن سب کی آنکھیں اس وقت حیرت کے مارے کھل گئیں۔۔جب دیکھا کہ لڑکے والے ان سےپہلے آکر ہال میں نشستیں سنبھال چکے ہیں۔اب کیا ہوسکتا تھا۔۔۔پھولوں کی پلیٹیں اور نقشی ہار
آئندہ کسی اور رکن کی شادی کے لیے سنبھال لیے گئے جبکہ نوٹوں والے ہار چھینا جھپٹی میں چار سے چار سو ہوگئے۔
اسٹیج پر دولہا محترم پوری آن بان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ دلہا نے گولڈن رنگ کی شیروانی کے ساتھ میرون رنگ کا تلے کے کام والا کلاہ اور ہاتھ میں گلابی رومال تھام رکھا تھا جس سے وہ وقفے وقفے سے ماتھے پر آئے نادیدہ پسینہ کو پونچھ رہے تھے۔پاؤں میں سلیم شاہی کھسہ تھا۔
سب مہمانوں کے پہنچتے ساتھ ہی کھانے کا اعلان کردیاگیا کیونکہ اکثریت دوپہر بارہ بجے کھانے کے چکر میں صبح کا ناشتہ گول کیے بیٹھی تھی۔ اورسب پر نقاہت سے لرزہ طاری تھا۔۔۔کھانا کھلتے ہی ہال کا منظر پانی پت کے میدان کی یاد دلانے لگا۔ روٹی اور بوٹی چھیننے کی جنگ شروع ہوگئی۔ ۔۔۔۔کسی کے منہ کا نوالہ کسی کے منہ میں۔۔۔اپنے ہاتھ کا لقمہ سامنے والی کے شوربے کی پلیٹ میں۔۔۔ایک چمچ میں نمکین چاول اور دوسری چمچ میں کھیر کا ذائقہ ( جس دوران چمچ منہ تک گیا۔۔۔اس دوران کسی نے چاولوں والی پلیٹ پر آدھی چھوڑی ہوئی کھیر کی پلیٹ رکھ دی)
کھانے کا دورانیہ تین گھنٹے تک چلا گیا تو مجبورا منتظمین کو ویٹروں سے ساز باز کرنا پڑی۔۔جس کے نتیجے میں کھانے کی سپلائی روک دی گئی اور وہ خواتین و حضرات جو ہاتھوں میں بڑے بڑے شاپر تھامے کھڑے تھے بس کھڑے کے کھڑے ہی رہ گئے۔
کھانا کھانے کے بعد چونکہ اکثریت کو جانے کی جلدی ہوتی ہے اس لیے مزید تاخیر کیے بغیر دولہن کو اسٹیج پر لایاگیا ( کھانے کے پیسے سلامی کی صورت آخر وصول جو کرنا تھے) جیہ ہال سے ملحقہ ڈریسنگ روم میں تھیں۔۔۔جیہ جب اسٹیج پر آئیں تو بقول شاعر
وہ آئے بزم میں اتنا تو سب نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ہماری پیاری، راج دلاری جیہ ناقابل یقین حد تک پیاری لگ رہی تھیں۔
جیہ نے بھی مشتاق بھائی کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیپ میرون رنگ کا لہنگا پہن رکھا تھا۔ جو ان کی گوری رنگت پر دمک رہا تھا۔ سب سورج چاند کی جوڑی سے تشبیہ دے رہے تھے۔ نکاح پہلے سے ہوچکا تھا اب رخصتی باقی تھی۔ لیکن رخصتی سے پہلے بوچھی باجو اور ماوراء اسٹیج پر ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھامے چلی آئیں۔۔۔سب کا خیال تھا شاید جیہ نے کچھ کھایا نہیں تو یہ جیہ کو پلانا ہوگا لیکن وہ تو دودھ مشتاق بھائی کو پلانے پر مصر تھیں۔۔۔مشتاق بھائی نے بھی سوچا کہ بچیاں اتنا اصرار کررہی ہیں۔۔چلو میں دودھ پی ہی لیتا ہوں۔۔اور وہ ایک سانس میں گلاس خالی کر گئے لیکن پتہ تو ان کو تب چلا جب دودھ کے اس گلاس کی قیمت مانگی گئی۔۔۔۔جی دودھ کا ایک گلاس ان کو پچاس ہزار میں پڑھا یوں صرف جیہ کی خاطر وہ پچاس ہزار قربان کر گئے۔ ( دودھ پلائی ایک رسم ہوتی ہے)
اس کے بعد جیہ کے بابا کی اجازت سے رخصتی کا اعلان کیا گیا۔۔۔رخصتی کے لیے ڈولی منگوائی گئی۔۔۔جیہ کو سب نےڈرا کر رکھا ہوا تھا کہ خبردار ایک بھی آنسو نہ نکلنے پائے۔۔ورنہ بھوت بن جاؤگی۔۔۔جیہ نے اس نصیحت پر پورا پورا عمل کیا۔۔۔یوں وہ ہنستے مسکراتے پیا کے دیس سدھار گئیں۔
( جیہ آخر میں میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔
کچھ برا لگے تو معذرت خواہ ہوں۔۔۔کوشش تو کی ہے کہ مذاق میں بھی کسی کی دل آزاری نہ ہو۔۔پتہ نہیں اس کوشش میں کس حد تک کامیاب رہی)
اب رہا گیا دعوت ولیمہ۔۔۔۔۔جس کی رپورٹ پیش کریں گی۔۔۔ماوراء۔۔۔