توفی کے چیلنج پرپیش کی گئ حدیث:
حضرت مرزا صاحب کے توفی کے چیلنج جواب میں ابن حسن نے دو باتیں پیش کی ہیں۔ ایک تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی براہین احمدیہ میں درج توفی کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ اور دوسرا کنزالعمال سے ایک حدیث پیش کی گئی ہے۔ براہین احمدیہ والی عبارت کا جواب تو میں اگلی پوسٹ میں دونگا کیونکہ اس میں بیان کردہ حضرت مرزا صاحب کے حیات مسیح کے عقیدہ پر بار بار زور دیا جارہا ہے۔ اس لئے کچھ تفصیلی وضاحت ضروری ہے۔
کنزالعمال میں درج حدیث کے انڈرلائن کئے ہوئے حصے کا ترجمہ جو ابن حسن نے کیا ہے وہ یہ ہے:
جب کوئی رمی جمار کرلے تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا (اجر) ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو پورا پورا (اجر) دے۔
اور کہا ہے کہ یہاں کوئی احمق بھی موت کا ترجمہ نہیں کرسکتا۔ کنزالعمال کا اردو ترجمہ "دارلاشاعت" نے کراچی سے شائع کیا ہے۔ اور سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ "دارالاشاعت" دیوبندی مکتبہ فکرکا ادارہ ہے۔ اس میں اس حدیث کا جو ترجمہ لکھا گیا ہے اس میں سے وہی حصہ یہاں پیش کرتا ہوں جس کا ترجمہ ابن حسن نے کیا ہے:
"جب رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارتا ہے) کرتا ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کتنی نیکیاں ہیں حتی کہ اللہ تعالی اسے
وفات دے دیتے ہیں اور جب آخری طواف کرتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو گناہوں سے پاک جنم دیا تھا" (اردو ترجمہ کنزالعمال، شائع کردہ دالاشاعت کراچی)
اس ترجمہ کی نظرثانی مولانا مفتی احسان اللہ شائق صاحب نے کی ہے۔ اب ابن حسن صاحب پہلے ان تمام مفتی صاحبان پر حماقت کا فتوی جاری کریں کہ اللہ کے بندو تم نے یہ کیا حماقت کردی میری ساری عزت خاک میں ملادی۔ ان مفتی صاحبان کو چاہئے تھا کہ ترجمہ کرنے کے بعد ابن حسن سے بھی نظر ثانی کرالیتے۔
لیکن اب ذرا ابن حسن کے ترجمے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ جناب نے اس چیلنج کے جواب میں یہ حدیث پیش کرکے اپنی علمیت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ جناب کیا آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ چیلنج عربی زبان کے حوالے سے ہے اورمخاطب وہی علماء ہیں جو عربی زبان پر عبوررکھتے ہیںِ۔ توفی کے متعلق یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ اگر خدا کے طرف سے یہ لفظ انسان یا کسی ذی روح کے لئے استعمال ہو تو اسکے پہلے معنی جو ذہن میں آتے ہیں وہ موت ہی کے ہوتےہیں۔ اگر کوئی دوسرے معنی کرنے ہوں تو لفظی قرائن کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو توفی کا پہلا اصول ہے۔ اگر آپ کو مرزا صاحب کا چیلنج قبول کرنا ہی تھا تو پہلے عربی کے قوائد ملاحظہ فرما لیتے۔ آپ نے تو ایسی ہی بات کی ہے جیسے ایک باکسرسب کو چیلنج دے کہ کوئی مجھے شکست نہیں دے سکتا۔ اور کوئی دیہاتی جاٹ جاکر اسے اٹھاکر زمین پر پٹخ دے اور کہے کہ لیں جناب شکست دے دی۔ ظاہر ہے ہر شخص اسے پاگل ہی کہے گا۔ چیلنج میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کھیل کے قوائد کو فالو کرنا ضروری ہے۔ آپ نے یہی حرکت کی کہ عربی کے قوائد کو تہس نہس کرکے اس حدیث کو پیش کردیا۔ کیا جناب کو یہاں یوم القیامۃ کا قرینہ نظر نہیں آرہا۔ قیامت کے دن وفات دینے کے کیا معنی ہیں۔ آپ ذرا یوم القیامہ کے الفاظ ہٹا کر کوئی اورمعنی کرکے تو دکھائیں۔ یہ تو میں نے آپ کے ترجمے کو درست مانتے ہوئے وضاحت کی تھی لیکن آپ اسی ترجمہ پرنظرڈالیں جو میں اوپر پیش کرچکا ہوں۔ یہ علمی باتیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ ایک بار پھر درج کردیتا ہوں۔
"جب رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارتا ہے) کرتا ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کتنی نیکیاں ہیں حتی کہ اللہ تعالی اسے
وفات دے دیتے ہیں اور جب آخری طواف کرتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو گناہوں سے پاک جنم دیا تھا" (اردو ترجمہ کنزالعمال، شائع کردہ دالاشاعت کراچی)
پہلے علماء سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے!!
ابن حسن صاحب چیلنج قبول کرنے سے پہلے اس بات پر ہی نظر ڈال لیتے کہ گذشتہ سو سال میں کسی بڑے سے بڑے عالم دین کو یہ چیلنج قبول کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا تو آخر کیا بات تھی؟ مرزا صاحب کے وقت میں تو آپ سے بھی زیادہ عالم فاضل علماء موجود تھے لیکن ان میں سے کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ اس حدیث کو پیش کرکے مرزا صاحب کو شکست دے دیتا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناءاللہ امرتسری اور سب سے بڑھ کراس وقت کے تمام علماء ہند کے شیخ الامت مولوی نذیرحسین دہلوی تک خاموش رہ گئے!! اور تو اورجن کی مادری زبان عربی ہے، تمام عالم عرب خاموش رہ گیا۔ کیا وہ علم میں آپ سے کم تھے؟؟ نہیں جناب انہیں معلوم تھا کہ چیلنج کیا ہے۔ لیکن آج آپ سو سال بعد آکر یہ فرما رہے ہیں کہ وہ سب تو بدھو تھے جن کی نظر اس حدیث پر نہیں گئی۔ میں ہوں آج کا شمس العلماء جس کے سامنے مولوی نذیرحسین دہلوی جیسے علماء بھی پانی بھرتے ہیںِ!!! اورتمام عالم عرب کو تو اتنی عربی آتی ہی نہیں جتنی مجھے آتی ہے!!!
اور پھر وہی گھسا پٹا عذر تراشا ہے کہ یہ قاعدہ کہاں لکھا ہوا ہے۔ جناب اوپر لغات سے ثابت کیا گیا تھا۔ اب یہاں قرآن سے ایک آیت پیش کردیتا ہوں۔
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۰۰۴۲
"اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جو مری نہیں ہوتیں (انہیں) ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرتا ہے)۔ پس جس کے لئے موت کا فیصلہ کردیتا ہے اسے روک رکھتا ہے اور دوسری کو ایک معین مدت تک کے لئے (واپس) بھیج دیتا ہے۔ یقینآ اس میں فکر کرنے والوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔" (الزمر 42)
یہاں اللہ تعالی نے واضع طور پر خود ہی وضاحت کردی ہے کہ جب اللہ کسی ذی روح کی توفی کرے گا تو موت ہی مراد ہوگی سوائے اسکے کہ نیند کا قرینہ موجود ہو۔ اوراللہ تعالی نے اس آیت میں پیش کردہ قاعدہ کو پورے قرآن میں ہر جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی اسکے خلاف مثال نہیں۔ یہاں تک کہ احادیث میں بھی اسکے خلاف مثال نہیں اور تمام عرب لٹریچر نظم و نثرمیں اسکے خلاف کوئی مثال نہیں۔
لیکن پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ نہیں کہیں اور لکھا ہوا دکھاؤ تو اوپر پہلے لغت سے بھی ثابت کرچکا ہوں اب دہرانے کا فائدہ نہیں لیکن پھربھی ایک لغت سے دکھا دیتا ہوں ورنہ ہر لغت یہی بیان کررہی ہے۔
توفاہ اللہ قبض روحہ (قاموس جلد 4 صفحہ 403)
یعنی اللہ تعالی نے اس ذی روح کی توفی کی۔ یعنی اس کی روح قبض کرلی۔
اس جگہ لفظ توفی باب تفعل سے ہے۔ اللہ فاعل مذکور ہے اور ہ کی ضمیر بھی جو ذی روح کی طرف پھرتی ہے۔ اور اسکے معنی قبض روح کے کئے گئے ہیںِ۔
ایک کے بعد ایک ہرلغٍت یہی قاعدہ بیان کررہی ہے، سامنے لکھا ہوا نظر آرہا ہے لیکن آپ کہتے ہیں کہ دکھاؤ کہاں لکھا ہوا ہے؟؟؟ ایسے میں بندہ کیا کہہ سکتا ہے کہ جب سامنے رکھے ہوئے حقائق سے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے کہا جائے کہ نظر ہی نہیں آرہا کہاں لکھا ہے؟؟ رفع پر بھی آپ کو لسان العرب سے قاعدہ دکھایا تھا کہ انسان کا رفع جب خدا کرے تو درجات کی بلندی مراد ہوتی ہے لیکن وہاں بھی آپ نے یہی بہانہ بنایا۔ آپ کو تو لاکھوں یہودی بھی نظر نہیں آئے اوریہی کہہ کر فارغ ہوگئے کہ کس مستند کتاب میں لکھا ہے کہ یہودیوں کا یہ مذہب ہے؟ِ؟
یہاں پر مجھے چوہدری سرظفراللہ خان کی خود نوشت سوانح عمری میں سے ایک واقعہ یاد آگیا جب وہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پرہندوستانی نمائندے کرشنا مینن سے بحث کررہے تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں:
"ان تمام عذرات کے تفصیلی جوابات پہلے کئی بار دیئے جاچکے تھے اور پھر دیئے گئے۔ اراکین مجلس (یعنی اقوام متحدہ کے ممبر رکن ممالک) خوب جانتے تھے کہ سب عذرات بے بنیاد ہیں۔ مسٹر کرشنا مینن بھی اس حقیقت سے خوب واقف تھے۔ مثال کے طور پر ان کے تیسرے عذر کے جواب میں، میں نے دس سرکاری دستاویزات سے پنڈت جواہر لال نہرو صاحب وزیراعظم ہندوستان کے بیانات پڑھ کر سنائے جس میں انہوں نے قضیہ کشمیر کے طے کرنے کا طریق استصواب رائے عامہ تسلیم کیا تھا اورکہا اور مثالیں بھی ہیں۔ لیکن امید ہے اراکین مجلس کا بلکہ میرے فاضل حریف کا بھی اطمینان ہوگیا ہوگا کہ محترم وزیراعظم ہند نے بارہا استصواب رائے عامہ کی اصطلاح کا استعمال کشمیر کے متعلق کیا ہے۔ لیکن جواب الجواب میں پھر مسٹر کرشنا مینن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وزیراعظم نے کبھی اس اصطلاح کا استعمال کشمیر کے متعلق نہیں کیا۔ مسٹر کرشنا مینن جانتے تھے کہ جو مثالیں میری طرف سے پیش کی گئی ہیں ان سے اراکین مجلس سمجھ چکے ہیں کہ مسٹر کرشنا مینن کا پہلا بیان غلط تھا لیکن انہوں نے بجائے یہ بات تسلیم کرنے کے یا اس موضوع پر خاموش رہنے کے پھر اپنے غلط بیان کا باصرار اعادہ کیا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اراکین مجلس جانتے ہیں کہ ان کی بات غلط ہے لیکن وہ سمجھتے تھے کہ غلط بات کے بار بار اعادے سے بعض لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ شائد یہ بات صحیح ہی ہو۔"
(تحدیث نعمت ۔ سر محمد ظفراللہ خان)
سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی یہ خودنوشت سوانح عمری بھی یہاں سے پی ڈی ایف میں ڈاون لوڈ کی جاسکتی ہے۔