جناب پہلے تو یہ بتائیں کہ میں نے کب کہا ہے کہ توفی کا مطلب وفات کے علاوہ کچھ اور ہوتا ہی نہیں۔ میری وہ پوسٹ دوبارہ پڑھ لیں جس میں میں نے توفی کے چیلنج کا ذکر کیا تھا۔ آپ کو بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا بہت شوق ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جس کا ثبوت میں لغات سے دے چکا ہوں کہ توفی جب خدا کی طرف سے انسان کے لئے استعمال ہو تو وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے کہ کوئی لفظی قرینہ موجود ہو۔
جناب آپ کے خیال میں دالاشاعت کے مترجم نے جب توفاہ اللہ کا ترجمہ وفات کردیا تو یوم القیامہ کے ترجمہ کی ضروت ہی نہیں سمجھی۔ چلیں آپ سر تسلیم خم لیکن اس سے تو پھر وہی بات ثابت ہوئی جو کہ میں پہلے ہی لغات سے دکھا چکا ہوں کہ توفاہ اللہ جب بھی انسان کے لئے آئے گا تو ترجمہ وفات ہی ہوگا۔ ان مترجم مولانا صاحب نے اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جو لغات میں لکھا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں وفات کی بجائے وہی ترجمہ نہیں لے رہے جو آپ لے رہے ہیں۔ یوم القیامہ کا لفظ اگر ان سے رہ بھی گیا تھا تو اسکے بغیر بھی وہ یہ ترجمہ کرسکتے تھے کہ "یہاں تک کہ اللہ اسے پورا پورا اجر دے دیتے ہیں" لیکن انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ یہی تو چیلنج لغات عرب سے پیش کیا گیا تھا کہ جب بھی توفی کا فعل اللہ کی طرف سے انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ایسے مواقع پر وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ بہت اچھا ہوا کہ ان سے یوم القیامہ کا لفظ رہ گیا یہ بھی اللہ کی حکمت ہی تھی کہ اسطرح اللہ نے آپ کو اور اس مترجم مولانا کو عملاً یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ لفظی قرائن کے بغیر توفاہ اللہ کا کوئی دوسرا ترجمہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ لیکن آپ مصر ہیں کہ بےشک آج تک کبھی ایسا نہ ہوا ہو لیکن قرآن میں حضرت عیسی کے لئے ضرور کریں گے
جب انسان کج بحثی اور ضد پر اڑ جائے تب اس کے سامنے سورج بھی رکھ دیا جائے پھربھی وہ یہی کہے گا کہ ابھی تو رات ہے۔
رانا صاحب اگر آپ یہ پوسٹ نہ کرتےتو اچھا ہوتا اس طرح کم از کم آپ کا کچھ تو بھرم رہ جاتا، یہ پوسٹ کر کہ تو آپ نے اپنا امیج اور بھی زیادہ خراب کر لیا ہے۔
توفاہ اللہ یوم القیامہ کی عبارت اصل عربی کی ہے اور یہ ایک حدیث کا حصہ ہے اگر کوئی شخص کسی اصل عبارت کا ترجمہ غلط کر دے تو اس اصل عبارت پر کیا کوئی اثر پڑ سکتا ہے؟؟یہاں نبی آخر زمان کی ایک حدیث سے یہ بات صاف ہو گئی کہ توفاہ اللہ کا لفظ موت کے علاوہ بھی استعمال ہو سکتا ہے، یہی آپ کا چیلنج تھا اب اگر آپ عربی سے بالکل نابلد ہیں تو میرا اور اس فورم کے دیگر ممبران کا اس میں کوئی قصور نہیں ہےآپ کیوں ہم سب کا وقت خراب کر رہے ہیں؟ یہ ایک اوپن فورم ہے اسپر پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں اگر آپ کی سمجھ شریف میں عربی نہیں آتی تو کسی اور سے مدد لے لیجئے اور پھر آگے بات کیجئے اصل عبارت آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔آپ کے چیلنج کا جواب ایک دفعہ نہیں دو دفعہ دو مثالوں سے دیا جا چکا ہے، اگر ڈھٹائی کے علاوہ کوئی گن آ پ میں موجود ہے تو اس کو استعمال میں لائیے۔
اورپیر مہر علی شاہ کا بھی حوالہ عجیب پیش کیا ہے کہ ہم نے اس آیت میں مسیح کی توفی جسم سمیت ثابت کردی ہے۔ جناب چیلنج تو یہی تھا کہ اس آیت میں توفی کا وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا اس کے ثبوت میں تمام عرب کی تاریخ اور تمام لٹریچر اور تمام لغات اور تمام قرآن اور تمام احادیث پیش کی گئی ہیں لیکن آپ کہیں بھی یہ ثبوت نہیں دکھا سکے کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ توفاہ اللہ کا ترجمہ وفات کے علاوہ کوئی اور ہوا ہو۔ الٹا تفاسیر سے یہ دکھا کر کہ جناب فلاں فلاں نے بھی اس کا ترجمہ اٹھانا کیا ہے۔ عجیب بات ہے۔ جناب اس ترجمہ کے حق میں کوئی ثبوت تو پیش کریں کہ یہ ترجمہ درست ہے جیسا ہم نے قرآن و حدیث اور لغات العرب کو پیش کردیا ہے۔ لیکن آپ کو کچھ نہیں مل رہا تو اسی زیربحث کا آیت کا ترجمہ ہی ثبوت کے طور پر پیش کئے چلے جارہے ہیں کہ فلاں نے بھی کیا ہے اور فلاں نے بھی کیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس آیت کے تراجم کو ہی بطور ثبوت بھی پیش کیا جارہا ہے۔
رانا صاحب آپ علمیت میں ہی نہیں لگتا ہے عقلیت میں بھی پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے صرف تفاسیر ہی نہیں بلکہ توفی کے لفظ پر لغات سے بھی بحث کی ہے، توفی کے لغوی و اصطلاحی و تفسیری معنی بھی واضح کیئے ہیں۔ اس پیرا کو غور سے پڑھئے مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کی اوقات سے کافی بڑی چیز ہے لیکن جب انسان کے پلے کچھ نہ ہو تو اس کو اس طرح کے آن لائن فورم میں آکر یوں چیلنج دینا نہیں چاہیے۔
پیر صاحب نے بڑی وضاحت سے جو کچھ کہا اس کو پھر سے دیکھتے ہیں
۱ ۔ پیر صاحب کا چیلنج کہ حضرت عیسیٰٰ کی توفی قبل نزول میں توفی سے مراد موت نہیں ہے اگر موت ہے تو (ا) حادیث (ب) تفاسیر (ج) قول صحابی (د) لغات عرب۔ ان میں سے کوئی ایک قول پیش کیا جائے کہ یہاں توفی سے مراد موت ہے۔
اصل عبارت
آپ ہی توفی اللہ عیسیٰ کو جو حکایت ہے عیسیٰ کی توفیٰ قبل النزول سے، کسی حدیث یا تفسیر یا قول صحابی یا لغات معتبرہ عرب سے نکال دیویں کہ فقرہ مذکورہ میں توفیٰ بمعنی موت کے ہے۔ ہم نے توفی اللہ عیسیٰ قبل النزول کے معنی حسب تصریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اجماع صحابہ وغیرہ کے قبض جسمی کاثابت کر دیا (یہ عاجز بھی اس سے پہلے ایسے ہی دلائل شریعہ سے یہ بات پیش کر چکا ہے)
۲۔ حضرت پیر صاحب کا یہ کہنا کہ توفی کے معنی قبض کے ہیں اور یہ معنی لغت میں موجود ہیں نیز قید جسمی کی خصوصیت اس خاص مقام سے متعلق ہے اس کی ہی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام رازی انی متوفیک کے تحت لکھتے ہیں کہ توفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا ہے جیسا کہ اس قول میں (حضرت عیسیٰ کو) آسمان کی طرف اٹھا لینا ہے ان کے جسم و روح کے ساتھ نیز امام رازی اسی آیت (انی متوفیک) کے تحت لکھتے ہیں کہ توفی بمنزلہ جنس کے ہے اور اس کے تحت بہت سے انواع ہیں مثلا موت اور اصعاد الی السماء۔ نیز ابن جریر نے توفہ کے معنی رفعہ کے بیان کیے ہیں
اصل عبارت
توفیٰ بمعنی قبض کی تصریح لغت میں موجود ہے اور خصوصیت قید جسمی کی خصوص مقام سے مستفاد ہے۔اور اسی معنی کی طرف اما م فخرالدین رازی نے صحت کی نسبت کی ہے۔ انی منوفیک التوفی اخذ الشئی وافیا الیٰ قولہ رفع بتمامہ الی السماء بروحہ و بجسدہ۔ پھر اس کے بعد لکھا ہے وھو جنس تحتہ انواع بعضھابالموت وبعضھا بالاصعاد الی السماء(تفسیر کبیر) و قال ابن جریر توفیہ ہو رفعہ (ابن کثیر)
۳ اس تفسیری شہادت کے بعد پیر صاحب عربی کی سب سے بڑی لغت تاج العروس سے ایک عبارت پیش کرتے ہیں ۔
و من المجاز ادرکتہ الوفات ای الموت و المنیۃ و توفی فلان اذا مات و توفاہ اللہ عز و جل اذا قبض نفسہ و فی الصحاح روحہ
جس کا مفہوم یہ ہے کہ مجاز میں توفاہ کے معنی موت یا نیند کے ہیں توفی فلان کے معنی مجازا موت اور توفاہ اللہ کے معنی مجازا قبض نفس یا صحاح کے مطابق قبض روح کے ہیں
اب تاج العروس کی یہ تصریح غور سے پڑھیئے کہ توفاہ کی اصل کچھ اور ہے اور توفاہ کے معنی مفرد طور پر بھی موت و نیند کے مجازا ہیں اور مرکب صورت مثلا توفی فلان اور توفاہ اللہ کی صورت میں بھی قبض نفس و روح کے مجازا ہیں ۔ یہ تاج العروس کی تصریح ہے اور یہاں میں نے کہا تھا کہ توفاہ اللہ کے معنی قبض نفس کے مجازا جب ثابت ہو گئے تو ایک بار پھر آپ کا مزعومہ قاعدہ چکنا چور ہو گیا۔ اب کچھ عقل شریف میں آپ کی آیا کہ نہیں؟
نیز رانا آپ کا یہ کہنا کہ اس ترجمہ کے حق میں کو ئی ثبوت پیش کرو کہ یہ ٹھیک ہے کہ نہیں جیسا کہ آُپ نے قرآن و حدیث و لغات عرب کو پیش کیا ہے تو جناب آُپ نے جو بامشکل تمام ایک آدھ حوالے پیش کی تھے ان کے جواب تو میں کب کا دے چکا ہوں آپ کو ذرا بھی حیا نہیں آتی ایک اوپن فورم پر ایسی ڈھٹائی استغفر للہ ۔
اب یہاں میں لغت کے بعد دیگر تفاسیر کے حوالے دے رہا ہوں جس سے حضرت عیسیٰ کی توفی پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
۱۔ البیضاوی: فلما توفیتنی ۔ بالرفع الی السما لقولہ انی متوفیک و رافعک الی والتوفی۔اخذ الشی وافیا والموت نوع منہ۔ص ۱۹۴ ج ۱
۲، المظہری و کنت علیھم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی۔ یعنی قبضتنی و رفتعنی الیک ۔ والتوفی اخذا لیشی وا فیا والموت نوع منہ۔
۳۔ القرطبی۔ انما المعنی رفتنی الی السما قال الحسن الوفاہ فی کتاب اللہ علی ثلاثہ لوجہ۔ وفاہ الموت و ذ ذالک قولہ اللہ یتوفی الانفس حین۔ موتھا۔ یعنی وقت انقضا اجلہا ۔ و وفاہ النوم قال وھو الذی یتوفاکم باللیل ینیمکم وو فاۃ الرفع قال یا عیسیٰ انی متوفی۔ ص ۳۷۷ ج ۶
۴۔ امام رازی : ان الوفی اخذ الشئی وافیا ولما علم اللہ تعالیٰ ان من الناس من یخطر بیالہ ان لاذی رفعہ اللہ ہو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علی انہ علیہ الصلوۃ والسلام رفع بتمامہ الی السما ء بروحہ و بجسدہ ویدل علیہ صحۃ ہذا التاویل قولہ تعالیٰ وما یضرونک من الشی (تفسیر کبیر ص ۴۸۱ ج ۲)
" توفی کے معنی کس شے کو پرا پورا اور بجمیع اجزا کے لے لینے کے ہیں۔ چونک حق تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ گزرے گا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی صرف روح کو اٹھایا ہے اس لیے متوفیک کا لفظ فرمایا تاکہ معلوم ہو جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام روح و جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے وما یضرونک من شی تم کو ذرہ برابر ضرر نہیں پہچا سکیں گے نہ روح کو نہ جسم کو ۔
۵۔ روح المعانی۔ توفیتنی ای قبضتنی بالرفع الی السما کما قیل توفیت المال اذا قبضہ وروی ہذا الحسن و علیلہ الجمہور۔ص ۶۹ ج ۷
۶۔ امام تیمیہ : لفظ الوفیٰ فی لغۃ العرب معناہ الاستیفا ء و القبض و ذلک ثلاثہ انواع احدھا توفی النوم ، والثانی توفی الموت و الثالث توفی الروح و البدن جمعیا ج ۲ ص ۲۸۳
(لغت عرب میں توفی کے معنی استیفا یعنی پورا پورا لینے کے ہیں اور توفی کی تین اقسام ہیں ایک توفی نوم ، دوسری توفی موت اور تیسری روح و جسم کو پورا پورا لینا۔
۷۔ ابن جریر و معالم التنزیل: قال اربیع بن یونس المراد بالتوفی فی النوم و کان عیسیٰ علیہ السلام قد نام فرفعۃ اللہ نائما الی السما معنا ہ انی منیمک ورافعک الی کما قال تعالیٰ و ھو الذای یتوفکم باللیل ای ینمیکم وا للہ اعلم
ایسے لا تعدا د اقوال ہیں جو حیات حضرت عیسیٰ کے بارے میں تمام ان بڑی تفاسیر میں بیان کیے گئے ہیں صرف چند اقوال میں نے پیش کر دیئے ہیں ۔
اب یہاں میں ایک فیصلہ کن بات کہتا ہوں اور جب تک رانا اس کا جواب نہیں دیں گئے بات ہرگز ہرگز آگے نہیں بڑھے گی اور اس پر ہی میں تمام فورم کے ممبران سے انکی رائے طلب کرتا ہوں۔
۱۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر موت نہیں آئی بلکہ اللہ پاک نے ان کو بچا کر بحفاظت بمع جسد و روح کے آسمان پر اٹھا لیا۔
اس عقیدے پر شاہد ہیں قرآن اور بے شمار احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اور یہی عقیدہ حضرات صحابہ کا ہے، تابعین و تبع تابعین کا ہے اور سارے مفسرین و علما امت محمدیہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔
۲۔ دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پر لٹکا دیا تھا ان کے کیلیں ٹھوک دی گئیں تھیں لیکن ان کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وہ بچ کر کشمیر آگئے اور یہاں ان کا انتقال ہوا۔
اب یہ عقیدہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ہے اور مرزا نے صاف لکھا ہے کہ اس عقیدہ کی اطلاع مرزا سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی یہاں تک کہ حضرات صحابہ بھی اس سے بے خبر تھے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
یا اخوان ہذا ہو الامر الذی اخفاہ اللہ من اعین القرون الاولی (خزائن ج ۵ ص ۴۲۶)
اب جب قرون اولیٰ کے مسلمان بھی اس عقیدے سے بے خبر تھے تو ظاہر ہے کہ بقیہ امت کے صلحا و علما بھی بدرجہ اولی بے خبر ہوئے، اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ کی حیات کا عقیدہ ہی تمام امت محمدیہ کا عقیدہ ہے۔
اب فورم کے ممبران فیصلہ کریں اور رانا سے دریافت کریں کہ قرآن و حدیث میں جو حضرت عیسیٰ کی توفی و رفع کے بارے میں آیا ہے اس کے معنی کے بارے میں ہم امت محمدیہ کے سرخیل یعنی صحابہ کے اقوال سے رجوع کریں گے یا مرزا قادیانی کے اقوال سے، اس بارے میں ہم اعتماد جلیل القدر ائمہ و مفسرین پر کریں مثلا ابن جریر طبری، ابن کثیر ، امام قرطبی، امام رازی، امام راغب اصفہانی، بیضاوی، ابن تیمیہ، وغیرہم پر کریں یا مرزا قادیانی پر ، اس سلسلے میں احادیث ہم امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، بیہقی، کی روایت کردہ سنین یا اقوال مرزا قادیانی سے مستفید ہوں۔تابعین میں ، حضرات سعید بن مسیب ، طاوس ، حسن بصری ، محمد بن سیرین ، محمد بن حنفیہ، زین العابدین ، جعفر صادق ، امام ابو حنیفہ، امام مالک، مام شافعی، امام احمد بن حنبل، ربیع بن یونس ، ضحاک، طحاوی، سرخسی و حاکم کی مانیں یا مرزا قادیانی کی؟؟؟؟(ان سارمے ائمہ کے اقوال آ پ حضرات کو تحفہ قادیانیت جلد سوم میں مل جائیں گے)
کوئی مجھے بتائے ایک وجہ بتائے کہ کیوں ہم قرآن، احادیث، تفاسیر اور امت محمدیہ کے سارے ائمہ کو چھوڑ کر اس قادیانی کی بات کو مانیں ۔کیوں ،آخر کیوں مانیں ۔
ایک بات اور سنیئے مزرا نے خزائن ص ۶۶۰ ج ۲۲ میں لکھا ہے کہ یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ نہیں مرے ایک شرک عظیم ہے۔
اب ایک طرف مرزا یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات کا عقیدہ خیرا لقرون میں بھی کسی کو نہیں پتہ اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ نہیں مرے شرک عظیم ہے۔اس بات کا کیا نتائج نکلتے ہیں؟؟
۱۔اللہ نے تیرہ صدیوں تک اس امت کو شرک عظیم میں مبتلا رکھا۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ
۲۔ حضرات صحابہ، تابعین، تبع تابعین۔ سارے مفسرین جنھوں نے حیات عیسیٰ کا عقیدہ بیان کیا ہے، سارے محدیثن جو حیات و نزول حضرت عیسیٰ کی احدیث بیان کرتے ہیں ، ساری امت محمدیہ کے اکابرین جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں، کیا نعوذ باللہ شرک عظیم میں مبتلا رہے؟؟؟ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ۔
پھر یہی نہیں اس کی زد تو خود ہمارے نبی پر بھی آتی ہے کہ آپ کی کتنی احادیث میں حضرت عیسیٰ کی حیات و نزول کا بیان موجود ہے۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ۔
اب میں کیا لکھوں باخدا کچھ اور تاب نہیں ہے سہنے کی۔خدا گواہ ہے ، اللہ کی ذات شاہد ہے میں نے بڑا خود پر جبر کرکہ مرزا کی کتابوں کو پڑھا ہے اور یہ خرافات یہاں لکھی ہیں۔ورنہ ابھی میرا حال یہی ہے اور میں جھوٹ نہیں کہتا حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ مرزا کی شکل دیکھ کر اور اس کی کتابوں کو دیکھ کر میرا جی متلانے لگتا ہے اور طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔
پھر اس پر بھی غور کیجئے کہ ۱۸۹۲ تک خود مرزا اسی شرک میں مبتلا رہا کہ نہیں؟ ۱۸۸۰ میں براہین احمدیہ لکھی ، بقول مرزا کہ خدا کہتا رہا تو ہی مسیح ہے مگر یہ حیات عیسیٰ کا عقیدہ بیان کرتا رہا اور بارہ سالوں تک ایسا کرتا رہا ، تو بقول خود اس کے یہ شرک عظیم میں مبتلا رہا یا نہیں؟؟؟
اول: بل رفعہ اللہ الیہ میں آپ نے رفع کے لفظ پر ضد کی کہ جناب اس کا ترجمہ جسم سمیت اٹھایا جانا ہی کیا جائے گا۔ آپ کو تمام قرآن و حدیث اور عرب لٹریچر کو بطور ثبوت پیش کرکے دکھایا کہ جناب آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کی طرف سے کسی انسان کے رفع کا ذکر ہو تو ترجمہ سوائے روحانی رفع کے کچھ اور ہوا ہو۔ جسم سمیت اٹھایا جانا تو کہیں ثابت ہی نہیں۔ لیکن آپ کو ضد تھی کہ بے شک کبھی نہ ہوا ہو لیکن اس مرتبہ ضرور ہوگا۔ پھر آپ کو لغت میں لکھا دکھایا کہ رفع اللہ کا نام ہے اور اللہ تعالی بندے کا رفع کسطرح کرتا ہے لیکن آپ باوجود اسکے کہ اپنے خودساختہ ترجمے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے کہ کبھی زبان عربی میں پہلے ایسا ہوا ہو صرف الفاظ کا جادو چلانے کی کوشش کی۔ ۔ پھر لفظ رفع کا اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال کی قرآن و حدیث اور لٹریچر اور لغت سے مثالیں بھی دکھادیں اور آپ کو بھی چلینج کیا گیا کہ اتنا بڑا ترجمہ کررہے ہیں جو کہیں ثابت ہی نہیں تو کم از کم اسکی کوئی مثال ہی پیش کریں کہ اللہ بندے کا رفع کرے اور مطلب جسمانی رفع ہو۔ لیکن آپ وہی ڈھاک کے تین پات کہ اسی آیت کے ترجمے ہی مختلف جگہ سے اٹھا اٹھا کر پیش کرتے رہے۔ یعنی جو بات ثابت کرنی تھی وہی بطور ثبوت پیش کرتے رہے۔
آپ کو اس بات کا پہلے جواب دیا جا چکا ہے آپ کو چیلنج ہے کھلا چیلنج ہے اور بار بار چیلنج ہے کہ جہاں کہیں قرآن میں رفع حضرت عیسیٰ کا ذکر ہے وہاں کسی معتبر تفسیر سے یہ دکھائیں کہ یہاں رفع سے مراد رفع درجات ہے جسمانی رفع نہیں۔
جملہ تفاسیر معترہ مثلا تفسیر کبیر ، جلالین، معالم ، فتح البیان ، جامع البیان ، بیضاوی، ابن کثیر ، کشاف ، مدارک، در منثور، خازن ان سب میں رافعک الی سے رفع الی السما مراد لکھا ہے۔ آپ اور آپ کے مرزا قادیانی کے اقوال ایک ردی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اگر کسی تفسیر معتبر میں آپ رفع کے معنی صرف رفع درجات کے نہ دکھا سکیں اور میرا یہ چیلنج پورا نہ کر سکیں تو پھر رفع کا نام مت لیجئے گا۔
پھر آپ کو سورہ المائدہ کی آیت 118 دکھائی گئی کہ جناب یہاں تو رفع بھی نہیں بلکہ توفی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو تمام قران میں اللہ کی طرف سے جب بھی بندے کے لئے استعمال کیا گیا ہے تو ترجمہ سوائے قبض روح کے کچھ نہیں ہوا سوائے دو جگہ کے جہاں نیند کا ترجمہ کیا گیا جو کہ قبض روح ہی کی ایک شکل ہے جس کا خود آیت میں ہی ذکر اللہ نے کردیا۔ اور جب بھی یہ لفظ انسان کے متعلق استعمال ہو تو اسکے پہلے معنی وفات ہی کے زہن میں آتے ہیں سوائے اسکے کے لفظی قرائن موجود ہوں۔ پھر تمام احادیث اور تمام عرب لٹریچر اور لغات العرب کو پھر بطور ثبوت پیش کیا گیا کہ جناب توفی کا فعل جب بھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال ہو تو سوائے موت کے کوئی ترجمہ نہیں ہوتا۔ لیکن آپ پھر اڑ گئے کہ بےشک کبھی پہلے نہ ہوا ہو لیکن اس آیت میں تو ضرور ہوگا
توفی کی بحث اوپر ہو چکی ہے لیکن جناب شاید پوسٹ کا پیٹ بھرنے کی خاطر نہ صرف دو بار پوسٹ کرتے ہیں بلکہ باتوں کو دہراتے بھی ہیں چہ خوب۔
یہاں تک کہ آپ کو بخاری کی حدیث سے یہ آیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دکھادی گئی لیکن حد ہے گستاخی کی کہ وہاں بھی انکار کردیا کہ وہ الفاظ نہیں بلکہ ملتے جلتے الفاظ ہوں گے حالانکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کے تمام الفاظ بھی استعمال کرکے بتادیے کہ میں یہ الفاظ کہوں گا لیکن پھر گستاخی کی انتہا کرتے ہوئے ضد کی کہ نہیں قیامت کو کچھ الفاظ بدل جائیں گے۔ اب اس پر کیا کہا جائے۔ پھر آپ کے مطالبہ پر کہ یہ چیلنج کہاں مذکور ہے آپ کو لغات سے دکھادیا کہ تمام لغات نے توفاہ اللہ کو موت کے معنوں میں لیا ہے۔ لیکن آپ ایک حدیث لے آتے ہیں کہ جسکا مفصل ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ جس میں مترجم صاحب نے بھی آخر اسی چیلنج پر صاد کیا جو لغات العرب سے پیش کیا جاچکا تھا۔ پہلے رفع پر ضد کی اور وہ ترجمہ کیا جو کبھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال پر نہیں کیا گیا۔ پھر توفی پر ضد کربیٹھے اور پھر وہ ترجمہ کیا جو کبھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال پر نہیں کیا گیا۔ تمام قرآن احادیث اور لغات العرب سے آپ کو اپنے زبردستی کے تراجم پر کوئی ثبوت نہیں ملا۔۔
بخاری شریف میں جو حضرت ابن عباس کا قول آپ نے نقل کیا تھا وہ حدیث نہیں قول صحابی تھا اور اس کا مسکت جواب اسی جگہ آپ کو دے دیا گیا تھا غالبا جناب کا حافظہ بھی اپنے جھوٹے نبی جیسا ہو گیا ہے کہ ہر بات ذہن سے کھسک جاتی ہے۔ الفاظ کے گھماو پھراو اور ہر بات کو بار بار دہرا کر آپ اپنی پوسٹ لمبی کر سکتے ہیں لیکن سب لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔
سوم: پھر آپ کے سامنے سورہ ال عمران کی آیت 56 پیش کی گئی۔
اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ۰۰۵۵
یعنی اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تیرا رفع کروں گا اور تجھے پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رکھوں گا۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے رفع اور توفی دونوں ہی الفاظ ایک ساتھ حضرت عیسی کے لئے استعمال کرڈالے۔ اب تو آپ کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا تھا کہ یہاں غلط مطلب لینے کی ضد کرتے کیونکہ رفع کا ترجمہ بھی آپ جسم سمیت اٹھانے پر ضد کررہے تھے اور توفی پر بھی یہی ضد تھی کہ جسم سمیت پورا پورا اٹھا لیا۔ اب اس آیت میں آپ بری طرح پھنس گئے تھے کہ رفع اور توفی دونوں ایک ساتھ یہاں موجود ہیں۔ اب اگر وہی ترجمہ کریں تو دو مرتبہ اٹھانے کا ترجمہ کرنا پڑتا جو کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ یہاں اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کیا کہ رفع اور توفی دونوں ایک ساتھ استعمال کیے بلکہ توفی کو رفع سے پہلے رکھا۔ یعنی آپ کے لئے غلط مطلب کرنے کے تمام راستے اللہ نے بند کردئے۔ کیونکہ اگر رفع کا لفظ توفی سے پہلے ہوتا تو آپ سے قوی امید تھی کہ یہاں آپ فورا توفی کو وفات کے معنوں میں تسلیم کرلیں گے تاکہ یہ کہہ سکیں کہ جناب پہلے رفع یعنی اٹھایا جائے گا پھر زمین پر آکر وفات ہوگی۔ لیکن اللہ تعالی نے توفی کو رفع سے پہلے رکھ کر آپ کے لئے یہ چور دروازہ بھی بند کردیا کہ وفات کے بعد جسمانی اٹھایا جانا ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن آفرین ہے کہ آپ پر کہ پچھلی آیت میں تو آپ نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں لقمہ دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ الفاظ قیامت میں کچھ اور ہو جائیں گے۔ لیکن یہاں آپ نے اللہ تعالی کے منہ میں لقمہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ بس کسی طرح عیسی زندہ ہوجائیں چاہے قرانی الفاظ کو ہی کیوں نہ آگے پیچھے کرنا پڑے۔ اور آپ نے ایک انتہائی بھونڈا حربہ "تقدیم و تاخیر" کا نکالا کہ یہاں اللہ تعالی نے توفی کو رفع سے پہلے رکھ دیا ہے لیکن اصل میں رفع کے بعد توفی ہوگی۔ افسوس کہ عیسی کو زندہ کرنے کے جوش میں آپ نے قرآنی الفاظ کو بھی تختہ مشق بناڈالا۔ جس لفظ کو اللہ نے پہلے رکھا ہے کسی بندے کی کیا مجال کہ اسے کہے کہ اصل میں یہ بعد میں ہوگا۔ ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو جس کے لئے آپ کو کیا کیا حرکتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ اب یہ بتائیے کیا آپ سے اس مسئلے پر مذید بحث کی کوئی گنجائش ہے۔ جو شخص تمام لغات العرب کے بھی خلاف چلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نہ مانے اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے قرآن کے الفاظ کو بھی آگے پیچھے سمجھنے سے دریغ نہ کرے اس سے کیا بات کی جائے۔ اسطرح تو آپ سبھی کچھ ثابت کرسکتے ہیں اور ثابت کرتے رہیں لیکن ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو۔
انی متوفیک و رافعک کا ترجمہ میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھاوں گا اپنی طرف ، ہے اس میں کوئی الجھاو نہیں توفی کی بحث اوپر ہو چکی ہے اس مقام پر مفسرین حضرت عیسیٰ کے بمع جسد و روح رفع الی السما کا بیان کرتے ہیں ۔ بار بار ایک چیز کو دہرانا اور شور مچانا درحقیت وہی گوئبلز والی حرکت ہے اور کچھ نہیں۔آپ چلاتے رہیے ، پروپیگنڈہ کرتے رہیے کہ اس کا جواب نہیں دیا اس بات کا جواب نہیں دیا لیکن یہاں اس فورم پر جو بھی اس بحث کو پڑھ رہا وہ جانتا ہے کہ آُپ کی ہر دلیل و ہر بات کا جواب دیا جا چکا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔