یعنی اس آیت میں غیر ضروری سوالات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے ساتھ گائے والے معاملے میں ہوا تھا۔ سوال پر سوال نے ان کو اتنی جکڑ بندیوں میں باندھ دیا کہ انھیں ایک سادہ سا حکم پورا کرنے کے لیے اتنی مشقت اٹھانی پڑی۔جو چیزیں قرآن میں نہیںہیں ان کے بارے میں ہمارے رب عظیم کا حکم:
[ayah]5:101[/ayah] اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے
یہ نکتہ نظر کوئی جدید نکتہ نظر نہیں کہ معاملہ کو ضوء القرآن میں دیکھ لیا جائے۔ اگر قرآن میں موجود نہ ہو تو آپ کی ، آپ کی کتاب کی ، آپ کے اپنے علم کی یا آپ کے عالم کی صوابدید۔ [arabic] لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ[/arabic] دین میں کوئی جبر تو ہے نہیں۔
والسلام۔
سو بات اتنی سی ہے کہ امام مہدی رحمت اللہ علیہ کی آمد کا قرآن میں ذکر نہ آنا کوئی ایسی وجہ نہیں کہ اس پر ایمان نہ رکھا جائے، باقی ہر کسی کی ذاتی رائے ہوتی ہے۔
وسلام
مہوش صاحبہ ، آپ نے درست دیکھا کہ میں نے قسیم حیدر صاحب کا شکریہ ادا کیا تھا ان کا مضمون حضرت عیسی علیہ السلام کی واپسی کے بارے میں ہے اور تفصیل وہاں موجود ہے۔ عیسی علیہ السلام کی واپسی سے یہ فرض کرلینا کہ اس کے ساتھ ساتھ جناب مہدی (اس نام سے یا اس خاصیت ) سے کوئی صاحب آئیں گے کسی طور ثابت نہیں ہوتا۔ نبوت کا سلسلہ رسول اکرم پر ختم ہوچکا ہے یہ مسلمانون کا عقیدہ ہے۔ اب کوئی مہدی (ہدیات دینے والا ، گائیڈ کرنے والا، یعنی لیڈر ) تو ہر وقت ہی موجود ہوتا ہے۔ عیسی علیہ السلام کی واپسی پر یقین رکھنا اور مہدی علیہ السلام کا نزول ہونا دو الگ الگ باتیںہیں۔ عام ور پر یہ ماننا مشکل ہے کہ ہماری کتب روایات میں کہانیاں بھی شامل ہیں۔ لیکن جب انہی کتب میں ایک طرف عبادات اور دوسری طرف غیر اسلامی نظریات۔ جیسے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، غلاموں اور باندیوں کی تجارت، کم عمر لڑکیوں سے شادی کا معاہدہ، فرد واحد کی حکومت اور ملائیت کا قوم کے مال اور حکومت پر قبضہ کی روایات کا پایا جانا واضح طور پر ان روایات کو ضوء القران میں دیکھنے کی ضرورت کو اہم بناتا ہے۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا عیسی علیہ السلام آئیں گے یا نہیں؟ اس سلسلے میں زیادہ تر مسلمانوں کا نظریہ ہے کہ وہ واپس آئیں گے جبکہ ایک گروپ ایسا بھی ہے جو ان کے واپس نہ آنے کو قرآن سے ثابت کرتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی بھی آیت سے کسی بھی دوسرے شخص یعنی جناب مہدی کا وجود سامنے نہیں آتا۔ (میں اپنے نطریات کا اظہار قسیم حیدر کے آرٹیکل میں شکریہ کی صورت میں کرچکا ہوں)
جو لوگ حضرت عیسی کے واپس آنے کو ثابت کرتے ہیں وہ یہ آیات پیش کرتے ہیں :
[ayah]4:157[/ayah] اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسی ابن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لیے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میںَ اور نہیں ہے انہیں اس واقع کا کچھ بھی علم سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا ہے انہوں نے مسیح کو یقینا!
[ayah]4:158[/ayah] [arabic]بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا[/arabic]
بلکہ اٹھا لیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف۔ اور ہے اللہ زبردست طاقت رکھنے والا، بڑی حکمت والا۔
اس آیت میں 4:58 میں عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے لئے لفظ - رفعہ - یعنی اس کو اوپر بلند کرنا ہے۔ اس آیت سے عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت نہیں ہوتی
اب اس سے اگلی آیت کو دیکھئے ، جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے
[ayah]4:159[/ayah] اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔
یعنی من حیث القوم تمام اہل کتاب حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ کیونکر ممکن ہوگا، زیادہ تر ان آیات سے حضرت عیسی کی واپسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ کہ وہ آکر وفات پائیں گے۔
اس کے برعکس قادیانیوں کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں تاکہ مرزا احمد کو مسیح موعود، نبی اور مہدی ثابت کیا جائے۔
اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے قادیانی کہتے ہیں کہ لفظ رفعہ سے مراد روح کا اللہ تعالی کی طرف بلند ہونا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی الفاظ بہت ہی احتیاط سے استعمال فرماتے ہیں، وفات کے لیے موت کے لفظ کا استعمال قرآن میں بہت عام ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان روایات کو تقویت ملتی ہے جو حضرت عیسی کے دوبارہ نزول کے بارے میں ہیں، جیسا کہ قسیم حیدر نے لکھا کہ اللہ تعالی، وفات یا بناء وفات، دوبارہ اتھانے پر قادر ہے۔ اور اسکا حوالہ بھی فراہم کیا ہے۔
کیا آپ کو ان تمام واقعات سے جناب مہدی کا نزول قرآن سےکسی طور سامنے آتا نظر آتا ہے؟ نام سے یا کسی ممکنہ اشارے سے؟ یا کسی دوسری آیات سے؟
اس سوال کے باجود، میرا نظریہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے، خوشیوں کو حاصل کرنے اور اس دینا کو پرام اور پر انصاف بنانے کے لئے استعمال کریں - نا کہ فرقہ واریت اور تفریق اور نفرتوں کو بڑھانے کے لئے۔ مہدی آئیں گے یا نہیں ، اس کا ثبوت قرآن میں ہے یا نہیں۔ اس سے مسلمان کا قرآن پرایمان کم نہیں ہوتا۔ اور اس ایمان کے لئے اس سوال کا حتمی جواب ضروری نہیں۔
از ظفری
کسی واقعے کے عقیدہِ اسلامی میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر واضح طور پر ہو۔
9:94. (اے مسلمانو!) وہ تم سے عذر خواہی کریں گے جب تم ان کی طرف (اس سفرِ تبوک سے) پلٹ کر جاؤ گے، (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے: بہانے مت بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے، ہمیں اﷲ نے تمہارے حالات سے باخبر کردیا ہے، اور اب (آئندہ) تمہارا عمل (دنیا میں بھی) اﷲ دیکھے گا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (دیکھے گا) پھر تم (آخرت میں بھی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں ان تمام (اعمال) سے خبردار فرما دے گا جو تم کیا کرتے تھے۔
9:105 . اور فرما دیجئے: تم عمل کرو، سو عنقریب تمہارے عمل کو اﷲ (بھی) دیکھ لے گا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی) اور اہلِ ایمان (بھی)، اور تم عنقریب ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے، سو وہ تمہیں ان اعمال سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہتے تھے
2:143 اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو
4:41 پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے
اگر "اس کی موت سے اگر مسیح کی موت مراد لی جائے تو یہ محض ایک دعوی ہے ۔ کڑوڑوں یہودی مر گئے جو نہ اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان لائے، نہ مسیح کی موت سے پہلے اس پر ایمان لائے۔
کسی واقعے کے عقیدہِ اسلامی میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر واضح طور پر ہو۔ ۔۔۔ کسی عالم کے لیئے ان احادیث کو قبول کرنا ناممکن ہے بلکہ ایک معقولیت پسند آدمی بھی ان متضاد ، بے بنیاد قصوں کو قبول نہیں کرے گا۔
مزید برآں حضرت مہدی کی آمد کی پیشین گوئی معتبر نہیں ہے۔ دو بڑے مسلم علماء ابن خلدون اور علامہ تمنا عمادی نے روایتۃ و درایۃ ان احادیث کی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کی ساری روایتیں بے بنیاد ہیں ۔
آج اسلام سے سے زیادہ یورپ اور امریکہ میں پھیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانتے ہیں کیسے ؟ اللہ کی آخری کتاب "الکتٰب" کے مطالعے سے
وہاں کویی طارق بن زیاد کشتیاں نہیں جلا رہا۔۔۔۔۔۔۔ کوءی تبلیغی جماعت اپنے مشن پر روادواں نہیں۔۔۔۔۔ کوءی عطاری کرامت نہیں ہو رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
محترم میں نے جو آیہ کوٹ کی ہے آپ نے اس کا ترجمہ نہیں لکھا۔دراز نفسی کی معذرت، آپ کا فرمایا ایک حقیقت ہے۔ قرآن پڑھ کر مسلمان ہونے والے امریکیوں کو میںذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کو قرآن میں نے دیا۔ جو ترجمہ ہم اپنے ریڈیو پروگرام سے بانٹتے ہیں وہ ناسا کے ایک انجینیئر ڈاکٹر عبدالحئ کا کیا ہوا ہے۔ یہی ترجمہ پنٹاگون بھی استعمال کرتا ہے، مسلمان فوجیوں کو دینے کے لئے۔ یہ ایک آسان انگریزی ترجمہ ہے۔ یہ آسانی کے لئے ہے۔ مزید یہ کہ http://www.openburhan.net/ پر 23 ترجمے موجود ہیں، تاکہ لوگ خود سے دیکھ سکیں۔ یہ تراجم مسلمانوں کے اور غیر مسلموں کے جدید و قدیم دونوںہیں۔ غیر مسلموں مین تقریباً 300 سال پرانا جارج سیل کا ترجمہ اور پھر جدید آربری کا ترجمہ ،
اسی طرح اردو میں تقریباً 150سال پرانا رضا شاہ بریلوی کا ترجمہ اور جدید شبیر احمد کا ترجمہ۔
انگریزی کا جدید ترجمہ ڈاکٹر شبیر احمد کا اور پھر پکتھال کا جو کہ قدیم ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر جو لوگ قرآن پڑھنے کے لئے مانگتے ہیں وہ کم از کم یونیورسٹی سے بیچلرز ڈگری رکھتے ہیں ، جو امریکی مجھ سے قرآن مانگ کر اور پڑھ کر مسلمان ہوئے وہ زیادہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ ایک امریکی وکیل جو بہت کامیاب تھے اور ریٹائرمنٹ کا وقت گزارنے کے لئے قران پڑھنا شروع کیا ، انہوںنے (اپنی زبان انگریزی) کہا کہ "مسٹر خان، جب قرآن نے دنیا کو حقوق انسانی اور مساوات سے متعارف کروایا اس وقت تو دنیا کا اندھیرا دور ہونے میں ہزار سال باقی تھے" ۔ کافی عرصہ محفلوں میں قرآن کے حوالے دے کر حیرانی کا اظہار کرتے رہے کہ جو وہ جدید ترین تعلیم سمجھتے تھے، وہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے لوگوں کو اس "اولڈ لیکچر" میں پڑھادی تھی۔ یہ صاحب باقاعدہ مسلمان تو نہیں ہوئے، لیکن رسول اکرم کو دنیا کا سب سے ایک عظیم ---- لاء گیور ----- یعنی قانون دان یا قانون دینے والا تسلیم کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا مکمل فیتھ (یقین و ایمان )ہے قرآن اور اس کے پیش کرنے والے میں کہ وہ انسانی مساوات اور حقوق کا ایک عظیم (گریٹ) اور منطقی (لاجیکل) علمبردار تھا۔ جن آیات کی طرف ان صاحب نے توجہ دلائی، ان میں سے کچھ آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں،
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=13747
ڈاکٹر عباس صاحب کا ریفرنس، مع ترجمے کے۔
[ayah]2:124[/ayah] [arabic]وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ [/arabic]
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو (اِذنِ الٰہی کے بغیر) کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ (اَمرِِ الٰہی کے خلاف) انہیں کوئی مدد دی جا سکے گی
کیا رسول اللہ کو غیب کا علم تھا؟ خود رسول اللہ کی زبان سے ، اللہ تعالی کے الفاظ سنئے، دیکھئے اور پڑھئے ۔۔۔۔
[ayah]7:188[/ayah] [arabic] قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ[/arabic]
Tahir Ul Qadri آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصب رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭
Ahmed Ali کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو اللہ چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں
Ahmed Raza Khan تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں (ف366) مگر جو اللہ چاہے (ف367) اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی (ف36 میں تو یہی ڈر (ف369) اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں،
Shabbir Ahmed کہہ دو! کہ نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا، مگر یہ کہ چاہے اللہ۔ اور اگر ہوتا مجھے علم غیب کا تو ضرور حاصل کرلیتا میں بہت فائدے اور نہ پہنچتا مجھے کبھی کوئی نقصان۔ نہیں ہوں میں مگر خبردار کرنے والا اور خوش خبری سُنانے والا اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں۔
یہ آیت ہم کو بہت صاف صاف بتاتی ہے کہ رسول اکرم کو مستقبل کہ جو غائب ہے اس کے علم کا دعوی نہیں کر رہے ہیں ماسوائے اس کے جو " ما شاء اللہ " کے باعث ان کو ملا ، اگر وہ "ما شاء اللہ " ظاہر کرنا تھا تو قرآن میں شامل ہے اور اگر اس "ما شاء اللہ " کا مقصد ظاہر کرنا نہیں تھا تو پھر اس کا علم عام آدمی کو نہیں۔
تو پھر اس بات کی کیا بنیاد ہے کہ رسول اللہ سے منسوب کیا جائے کہ انہوں نے مستقبل کے بارے میں بتایا کہ مہدی آئیں گے جو کبھی دجال کو ایک شہر میں قتل کرتے ہیں اور کبھی دوسرے شہر میں۔ کبھی مہدی کا ایک نام ہوتا ہے اور کبھی دوسرا۔ کبھی یہی مہدی بارہویں امام ہیں اور کہیں یہی مہدی -- اصل قرآن --- پیش کریں گے۔۔ لگتا ہے ہر فرقہ کا مہدی الگ الگ آئے گا۔ بھائی ان کہانیوں کے تواتر کا دعوی صرف چند سو سال پہلے کی کتب میں معدوم ہوجاتا ہے۔ بلکہ 6 یا 7 سو سال پرانی کوئی کتب روایت ملتی ہی نہیں ہے۔
سنی سنائی کہانیوں اور توہم پرستی کا نام کیا اسلام ہے؟ کیا دلائل سے قرآن کو پاژند بنانا ہی مسلمان کا شیوہ ہے؟
احکام ترے حق ہیں ، مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند