میرے سوال کا جواب تو نہیں دیا الٹا مجھ سے سوال شروع کر دیے۔۔۔۔۔۔۔ چلیے ایک لمحے کے لیئے مان لیتے ہیں قران میں نماز کی تعداد یا وقت کا تعین نہیں لیکن کم از کم نماز کا ذکر تو ہے نا ۔۔۔۔۔۔ آپ مہدی کا ہونا قران سے تو ثابت کیجیے یعنی ذکر تو ثابت کر دیجیے یا یہی ثابت کر دیجیے کہ ایک شخص آنئے گا یا کوئی جالوت آنے والا ہے اور اسے کوئی مخصوص شخص قتل کرے گا ۔۔۔۔۔ کہ وہ ایک اور مخصوص شخص ہے جسے قیامت سے چالیس برس پہلے آنا ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ تو بتائیں۔۔۔۔۔۔۔ پوسٹس شاید آپ بھی غور سے نہیں پڑھتے میں نے یہی عرض کیا کہ مجھے دکھایئے تاکہ میں بھی صراط مستقیم کا مسافر بن سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر نہیں سمجھے تو ایک بار پھر بتا دوں کے میں یہ سمجھتا ہوں کہ قران نے ہر معاملے کا انفرادی یا اجتماعی ذکر ضرور کیا ہے۔۔۔۔۔ وہ اجتماعی یا انفرادی ذکر آپ سے دریافت کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ ایسے بہت سے سوال تو میرے پاس بھی ہیں کہ جن کو سن کر نہ صرف آپ کا خون کھولے گا بلکہ آپ بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے اور جیسا کہ میں ایک اور جگہ عرض کر چکا ہوں کہ مہدی مسیح جالوت ان سب معاملات کا تعلق روز قیامت سے ہے اور یہ تمام معاملات یہ ثابت کرتے ہیں کہ قیامت سے کچھ عرصہ پہلے حضرت انسان کو پتا چل جائے گا کہ اتنے دنوں یا سالوں کے بعد قیامت واقع ہو جائے گی جبکہ قران نے صاف صاف کہہ دیا کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں یہ اچانک آئے گی۔۔۔۔۔ذرا غور کیجیے گا کہ میں کہنا کیا چاہ رہا ہوں اس سے زیادہ آسان الفاظ میری لغت میں نہیں ہیں۔۔۔ میرا بات کرنے کا مقصد یہاں اپنے علم میں اضافہ ہے نہ کہ علمیت جھاڑنا۔۔۔۔۔۔ یہ کام میں نے پھر کبھی کے لیئے اٹھا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
اوکی بھائی جان بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ آپ کچھ گول ول باتین کر رہے ہیں
خیر میں آپ کو ثبوت دیتا ہوں قرآن سے اور مجھے پتا ہے کہ اس ثبوت کے بعد اپ کیا جواب دینگے لیکن
پھر بھی میں ثبوت دیتا ہوں قرآن سے
خیر تو سنیئں اپنے مفسرین قرآن کی آراء
قرانی آیات مہدویت
۱۔ ابن ابی الحدید معتزلی جو کہ اہل سنت کے مقتدر اور بزرگ علماءمیں سے ایک ہیں ، اپنی کتاب ” شرح نہج البلاغہ “ میں سورہ مبارکہ قصص کی چوتھی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :” علماءاہل سنت کہتے ہیں یہ آیت [ ونرید ان نّمنّ علی الذین استضعفوا ونجعلہم الوارثین] اشارہ ہے اس امام کی طرف جس کا تمام روی زمین اور حکومتوں پر غلبہ ہوگا۔( شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید معتزلی، ج۴، ص ۳۳۶۔)
۲۔ شیخ جمال الدین یوسف بن علی بن عبدالعزیر مقدسی شافعی جو قرن ہفتم کے بزرگ علماءمیں سے ایک ہیں ” عقدالدرفی اخبار المنتظر“ میں تفسیر ثعلبی سے نقل کرتے ہوئے ” حٓمٓعٓسٓقٓ “کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
(حٓ)سے مراد ایک جنگ ہے جو قریش اور موالید کے درمیان پیش آئے گی اور قریش کو فتح حاصل ہوگی ۔
(مٓ) سے مراد سلطنت بنی امیہ ہے (عٓ) سے مراد برتری بنی عباس ہے
(سٓ)سے مراد نور اوررفعت وبلندی حضرت امام مہدی(ع) ہے
(قٓ) سے مراد نزول عیسیٰ ہے ۔ البتہ یہ ان کی اورصاحب ثعلبی کی تفسیر ہے !
۳۔ محدث بزرگ شیخ علی بن محمدا بن احمد ، مالکی ( ابن صباغ) ” الفصول المہمّہ فی معرفة احوال الائمہ “میں آیہ ۲۳سورہ مبارکہ توبہ کی آیت( لیُظہرہُ علی الدّین کلہ) کی تفسیر میں سعید ابن جیر سے روایت نقل کی ہے کہ وہ حضرت امام مہدی(ع) ہیں جن کے ذریعے دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا، اورحضرت مہدی ، حضرت فاطمہ الزہراءسلام اللہ علیہا کی اولاد میں سے ہیں ۔( الفصول المہمہ ، باب الثانی والتسعون ، ص۹۲۔)
۴۔ علامہ زید بن احمد بن سھیل بلخی ” البدءوالتاریخ “ میں لکھتے ہیں ، اور ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ان کی [ امام مہدی]جائے پیدائش مدینہ منورہ اور قیام فرمانے کی جگہ مکہ ہے لوگ ان سے صفا ومروہ کے درمیان بیعت کریں گے اورانہیں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وہ روی زمین سے ظلم وستم کا خاتمہ کردیں گے اور عدل انصاف قائم کریں گے ، کمزور اور طاقتوروں کے درمیان ، عدل وانصاف ہوگا اوریہ کہ زمین کے مشرق اور مغرب میں پہنچ جائے گا، قسطنطنیہ فتح ہوجائے گا اورروی زمین کے تمام علاقے یاتو اسلام میں داخل ہوچکے ہوں گے یاپھر جزیہ ادا کرنے والے ممالک ہوں گے اوریہی وہ موقع ہوگا جب اللہ تعالیٰ کایہ وعدہ ( لیُظہرہُ علی الدّین کلہ)کہ اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے پورا ہوگا۔
( البداءوالتاریخ ، ص ۱۷۸، ایضاً مشکاة المصابح عبداللہ بن خطیب عمری ذیل تفسیر آیہ ۴ سورہ شعراء” ان نشاءتنزل علیہم من السماءآیة مطلت فی اعناقہم لہا خاصعین )۔“
۵۔ بزرگ سنی مفسر امام فخررازی نے مفاتیح الغیب میں ” قرطبی “ نے جامع الاحکام القرآن الکریم مین ” سُدی“ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا غلبہ دین حضرت امام مہدی(ع) کے ظہور کے وقت ہوگا۔(تفسیر کبیر، مفاتح الغیب ، ج۱۶ ، ص ۴۲۔)
۶۔ جناب سیوطی ” درالمنثور “ میں ” انّ الساعة آتیة لاریب فیہا“ کی تفسیر میں ابی سعید خدری کے ان دو روایتوں سے ” لاتقوم السّاعة حتّی یملک رجل میں اہل بیتی ، اور ” ابشرکم بالمہدی لیظہر باختلاف والزلازل ۔“ سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت امام مہدی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اولین علامت قیامت، ظہور حضرت مہدی(ع)ہے ۔(درالمنثور، سیوطی ، ج۵، ص ۲۳۰۔)
۷۔”علامہ حسکانی “سورہ مبارکہ (نسائ) کی آیت ۶۹ ”وحسن اولٰٓئک رفیقاً “ کے ذیل میں پیغمبراکرم (ص) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد قائم آل محمد ہے ۔
( شواہد التنزیل ، ج۱،ص ۱۵۴۔)
مصنف مذکورہ سورہ (نسائ) کی آیت ۸۳ ” اطیعوا اللہ واطیعواالرّسول واولی الامرمنکم“ کے ذیل میں لکھتے ہیں ، اس سے مردا علی (ع) اور اولاد علی(ع) ہیں کہ ان میں سے آخری مہدی(ع) ہیں ( شواہد التنزیل ، ج۱،ص ۱۵۰؛ ینابیع المودة، ص ۱۱۶۔)
۸۔حافظ ابرہیم بن محمدحنفی قندوزی سورہ بقرہ کی تیسری آیت ” الذین یومنون بالغیب“ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ” غیب “ سے مراد حضرت مہدی (ع) ہیں ، اور آیہ ۱۴۸ سورہ بقرہ ” فااستبقو الخیرات“ کی ذیل میں امام جعفر بن محمدجعفر الصادق (ع) سے روایت نقل کی ہے کہ ان سے مراد حضرت امام مہدی(ع) کے اصحاب خاص تینسو تیرہ (۳۱۳)ا فراد مراد ہیں جو بادل کی طرح دنیا کے کونے کونے سے مکے میں جمع ہوں گے ،حافظ مذکور سورہ آل عمران کی آیت ۱۴۱ ” ویمحّص مافی قلوبکم “ کے ذیل میں ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا اس سے مراد میرے اوصیاءہیں ان میں علی اور میرے فرزند مہدی ہے کہ زمین کو اس طرح عدل وانصاف سے بھر دیں گے جس طرح ظلم وجور سے بھر چکی ہوگ۔
(ینابیع المودة ، الباب الثامن ، والسبعون ، ص ۵۰۶۔)
۹۔ حافظ ابن صباغ مالکی آیہ ” بقیة اللّہ خیر لکم ان کنتم مومنین۔“ کے ذیل میں لکھتے ہیں ، اس سے مراد حضرت مہدی (ع)ہیں ۔
(الفصول المہمہ ، باب الثانی الستعون ، ص ۹۲۔)
۱۰۔شیخ محمد بن احمد سفارینی اثری حنبلی لکھتے ہیں ” قال مقاتل ابن سلیمان ومن تبعہ من المفسرین فی قولہ تعالیٰ ” وانّہ لعلم للسّاعة “ انہا نزلت فی المہدی مقاتل ابن سلیمان اوران کے اتباع کرنے والے مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت” البتہ وہ قیامت کی علامت ہے “حضرت امام مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔
( زخرف ؛ آیت ۶۱ ، لوائع انوار البہیة وسواطع الاسرار الاثریہ ، ج۲ص ۲۲۔سورہ زخرف آیت ۶۱۔)
ان سب دلائل اور تفاسیر کے بعد کیا کوئی سوال باقی رہ جاتا ہے کہ امام مہدی کا ذکر قران مجید میں نہیں ہے ویسے بھہی مفرسرین قرآن نے چار سو سے بھی زیادہ آیات بتایئ ہیں جو امام مہدی پر دلات کرتی ہیں یہ کچھ نمونے تھے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کئے اب اپ جاکر اپنے علماء سے پوچھیں ۔ کہ سچ کیا ہے۔
شکریہ