زیک نے کل
عارف کے شروع کردہ دھاگوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھا تھا کہ سو دو سو مراسلے ہو جاتے ہیں
سو آج اہل محفل نے زیک کی یہ حسرت پوری کر دی۔
جب کسی دھاگے میں مذہب کی آمیزش شامل ہو جائے تو وہ عموماً اسی طرح طول پکڑ لیتے ہیں۔
لیکن اگر عقلی طور پر بھی دیکھا جائے اسلام کی رو سے ..تو کافر نجس ہے ...اس کے نزدیک حرام اور حلال کچھ نہیں تو پھر یہیں واضح ہوجاتا ہے کھانے پینے کے احکام کا
اگر عقلی طور پر ہی دیکھنا ہے تو منطق اور استدلال کا استعمال کریں۔ اسلام کو کیوں درمیان میں شامل کر رہے ہیں؟
ویسے یہ کھانے کا مسئلہ صرف ہندووں کے ساتھ ہے یا عیسائی اور یہودی کے ساتھ بھی ؟
تمام کافرین کیساتھ یہی مسئلہ ہے۔ صرف مسلمان اس مسئلے سے پاک ہیں۔
اہل کتاب کا جائز ہے ...اگر کوئی حرام چیز نہیں ہے تو ...
جاناتو مسلم پیٹ میں ہی ہے، حرام ہو یا حلال ہو۔
نادانستہ ہی سہی، لیکن میرے اس مراسلے نے آج عارف کریم صاحب کی ٹرولنگ کو بھی مات کر دیا
عارف کریم اگر اس قسم کے مراسلے اپنے شروع کردہ دھاگوں میں کرے تو ٹرولنگ کی زد میں آکر وہ دھاگہ اچانک مقفل یا حذف ہو جاتا ہے۔البتہ یہی حرکات دیگر اراکین کریں تو قہقہوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
یہاں ہانگ کانگ میں نیپالی شیفس کے ہاتھ کا بنا ہو کھانا کھایا۔ ہندو کولیگز کے ساتھ بھی کھانا کھایا، حتیٰ کہ کل ایک ہندو کولیگ کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا۔
یہاں میں جواب نہیں دینا چاہ رہا، بس پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ سورہ توبہ کی آیت 28 کو پڑھیں جس میں مشرکین کو نجس قرار دیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَ۔ذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاء إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (9:28 )
1۔ کیا اس کا اطلاق ہندوؤں پر ہوتا ہے ؟
2۔ اگر ہاں تو نجس ہونے کا حکم صرف مسجد حرام تک محدود ہے یا کھانے پینے پر بھی لاگو ہوتا ہے ؟
اگر آیت کو سیاق و سباق کیساتھ پڑھیں گے تو اسے سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی۔
اچھا اچھا یعنی عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے ساتھ کھانا حلال ہے اور ہندوؤں کے ساتھ کھانا حرام۔ چلیے تو آپ ہندوؤں کے ساتھ کھانے کو حرام قرار دینے والی آیات و احادیث ہی لکھ دیجیے۔
نارویجن ملحدوں کے بارہ میں کیا حکم قرآنی ہے جو مجھے روز دہریت زدہ کھانا پیش کرتے ہیں؟
تفصیل کسی قریبی دستیاب مولوی سے پوچھیں .... میرا علم محدود ہے ...مگر ناقص نہیں ہے ...
یعنی تفصیل کیلئے بھی اسے معالج سے رابطہ کریں جس نے یہ سارا تفریق کا کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔ ماشاءاللہ۔
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ
یہاں بتایا گیا کہ مشرکین نجس ہیں اور اس سے اگلے حصے میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ نجاست کی یہ کون سی قسم ہے اور اس نجاست پر کیا حکم لاگو ہوتا ہے:
فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ (9:28 )
پس وہ قریب بھی نہ جائیں مسجد حرام کے اس سال کے بعد۔
اگر کھانا پینا یا انہیں چھو لینا یا جہاں وہ بیٹھ کر اٹھے ہوں اس جگہ وغیرہ وغیرہ کو بھی نجس اور حرام قرار دینا ہوتا تو اللہ اس آیت میں لکھ دیتا۔
اپنی جانب سے اضافے کرنا درست نہیں۔
اگر غیرمسلمین کا مکہ وحرمین میں شریف میں داخلہ اس آیت کی وجہ سے ممنوع ہے تو پھر اسکی تشریح کرنے والے علماء کو تاریخ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ویسے ان سب کے بیچ حقے کا قضیہ کہیں دب کر رہ گیا ہے۔
میری ناقص رائے یہ ہے کہ یہ جو ہندوؤں کے ساتھ یا کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ کھانا نا کھانے والا معاملہ ہے وہ بھی اسی خطے کی پیداوار ہے۔ جب پیدا کرنے والے نے کوئی تفریق نہیں رکھی تو ہم تم کون ہوتے ہیں تفریق پیدا کرنے والے۔ دین اسلام اگر سکھاتا ہے تو وہ حلال و حرام اور پاک و ناپاک کے درمیان تفریق کرنے کا سکھاتا ہے نہ کہ انسانوں کے درمیان تفریق کرنا۔ یہ تفریق دراصل ہندو مذہب ہی کی دین ہے جو کہ کافی عرصہ انگریزوں کی غلامی میں ہندوؤں کے ساتھ رہنے سے ہمارے معاشرے میں بھی سرائیت کر گئی ہے۔
اسلام نے ہی سب سے پہلے کافر اور مسلم کی تفریق پیدا کی تھی۔ اسکے بعد جیسے جیسے اسنے ترقی کی وہ کھلی کتاب ہے۔
دوسرا ہندو گائے کے پیشاب کو تبرک مانتے ہیں ۔
اب اللہ جانتا ہے وہ اس ناپاک تبرک کو کیسے اور کس کس انداز میں استعمال کرتے ہیں ۔سو مجھے تو یہ سوچ کر ہی ان کے کھانوں سے گھن اآتی ہے
بعض مسلمان تو اونٹ کے پیشاب کو بھی تبرک مانتے ہیں۔ انکا کیا جائے؟
ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے جو اونٹ کے پیشاب کو تبرک مانتا ہو ۔
اگر ایسا کوئی مسلمان آپ نے دیکھا ہے تو اسے مسلمان مت سمجھیں ۔
ابھی پچھلے ہی ماہ سعودی حکام نے اونٹ کے پیشاب کی بوتلیں ایک دوکان سے اسلئے سیل کی کیونکہ مالک اونٹ کی بجائے اپنا پیشاب بھر بھر کے ان میں بیچ رہا تھا:
خبر کا ربط
اب سمجھ سے باہر ہے کہ ان سعودیوں کو اسلام سے کس طرح خارج کیا جائے۔