جانِ من!
یہ کیا کہ اتنی ناراضگی، تم کسی طور نہ آنکھیں ملاتی ہو نہ گلی میں نظر آتی ہو نہ چھت پر، نہ کوئی شعر سناتی ہو اور نہ ہاتھ پکڑواتی ہو۔ مانا کہ تمھاری طبیعت ناساز ہے لیکن یہ کہاں کی محبت ہے کہ ہلکے سے نزلے زکام سے آشناؤں سے بالکل ہی نظریں پھیر لی جائیں۔
کہاں تو یہ منظر تھا کہ تمھارے جوبن کے پیچھے بچے، جوان، بزرگ سبھی تمھاری گلی کے چکر دن رات کاٹتے تھے اور کہاں یہ کہ جس کو دیکھو شاقی ہے، اور پانچ سو پانچ سو کی گردان کر رہا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے یہ کسی بد نظر کی نظر لگ گئی ہے تمھیں وگرنہ اتنے حاذق حکیموں اور ماہر ڈاکٹروں کی موجودگی میں کہ تمھیں چھینک بھی آ جائے تو انکی نیند حرام ہو جاتی ہے، تم کسی طرح ٹھیک ہی نہیں ہو رہیں۔
اور ہاں میری جان اسے کوئی گلہ مت سمجھنا، تم جانتی ہو کہ اس برقی گلی میں بہت سے لوگ رہتے ہیں لیکن تم سا حسین کہاں اور ہمارا دل تو تمھیں پر آیا ہوا ہے سو یہ سوچنا بھی مت کہ تمھیں چھوڑ کر میں کہیں اور جاؤنگا، یہ تو بس تھوڑا سا دل جلا تو سوچا تمھیں بھی اس کا دھواں پہنچایا جائے۔
چلو میری جان محفل اب زیادہ نخرے مت کرو اور جلدی جلدی ٹھیک ہو جاؤ، میں بہت اداس ہو گیا ہوں۔
تمھارا اپنا
جانِ من!
یہ کیا کہ اتنی ناراضگی، تم کسی طور نہ آنکھیں ملاتی ہو نہ گلی میں نظر آتی ہو نہ چھت پر، نہ کوئی شعر سناتی ہو اور نہ ہاتھ پکڑواتی ہو۔ مانا کہ تمھاری طبیعت ناساز ہے لیکن یہ کہاں کی محبت ہے کہ ہلکے سے نزلے زکام سے آشناؤں سے بالکل ہی نظریں پھیر لی جائیں۔
کہاں تو یہ منظر تھا کہ تمھارے جوبن کے پیچھے بچے، جوان، بزرگ سبھی تمھاری گلی کے چکر دن رات کاٹتے تھے اور کہاں یہ کہ جس کو دیکھو شاقی ہے، اور پانچ سو پانچ سو کی گردان کر رہا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے یہ کسی بد نظر کی نظر لگ گئی ہے تمھیں وگرنہ اتنے حاذق حکیموں اور ماہر ڈاکٹروں کی موجودگی میں کہ تمھیں چھینک بھی آ جائے تو انکی نیند حرام ہو جاتی ہے، تم کسی طرح ٹھیک ہی نہیں ہو رہیں۔
اور ہاں میری جان اسے کوئی گلہ مت سمجھنا، تم جانتی ہو کہ اس برقی گلی میں بہت سے لوگ رہتے ہیں لیکن تم سا حسین کہاں اور ہمارا دل تو تمھیں پر آیا ہوا ہے سو یہ سوچنا بھی مت کہ تمھیں چھوڑ کر میں کہیں اور جاؤنگا، یہ تو بس تھوڑا سا دل جلا تو سوچا تمھیں بھی اس کا دھواں پہنچایا جائے۔
چلو میری جان محفل اب زیادہ نخرے مت کرو اور جلدی جلدی ٹھیک ہو جاؤ، میں بہت اداس ہو گیا ہوں۔
تمھارا اپنا
آجمورخہ 26 مارچ 2007 بروز پیر
بمقام: چندی والا چوک، نزد چھاچھی چائے والا کے ساتھ گلی میں مکان نمبر 4 کی دوسری منزل
مکرمی و محترمی عزیزم نبیل برادرم !
مجھے امید کامل ہے کہ یہ خط آپ کو جان و مال کی سلامتی کی حالت میں ملے گا۔ عرصہ گزرا آپ سے ملاقات ہوئے اور دل نے چاہا کہ آپ کے موجودہ احوال کے بارے میںچنداں آگاہی حاصل کروں اس نیت سے آج قلم اٹھایا اور صفحہ قرطاس پر چند حروف پریشاں لکھ ڈالے تاکہ آپ تک یہ نامہ پہنچے اور آپ کو اپنے دوست کی حالت زار بارے آگاہی ہو اور اگر جوابی سندیسہ ملے جو بلادِ مغرب سے آنا ہی اہالیانِ دیہہ کے لئے ایک اچنبھا ہوتا ہے، تو کچھ آپ سے نصف ملاقات کا بھی تکملہ ہو۔
ازیں بس۔۔۔۔چند روز ہوئے اپنے عزیزم چوھدری شاہد سلطان، جسے ہم پیار سے اسکول میں شیدو گوٹی والا کہتے تھے ، نے گاؤں کا چکر لگایا ، ڈیرے پر بیٹھے ، کچھ گپ شپ ہوئی کچھ پرانے قرنوں کی باتیں ہوئیں۔ باتوں میں کچھ زمانہ طالبعلمی کی یادیں بھی چھڑ گئیں۔ جب سے ڈاکخانہ سے ریٹائر ہوئے بس اپنا تو یہی شغل چلتا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ باتوں باتوں میں آپ کا تذکرہ بھی چل پڑا۔ دل کو یک گونہ خوشی ہوئی کہ آپ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعدعازمِ ولایت ہوئے ہیں۔ بخدا اس بات کی خوشی نہیں کہ جب آپ ولایت سے لوٹیں گے تو اپنے دوست کے لئے ولائتی سگار اور پارکر کا قلم لائیں گے، یہ تو وہ خوشی ہے کہ جب مدتوں بعد کسی دیرینہ دوست کو کہیں دیکھ کر یکلخت دل کی شریانوں میں خون کا بہاؤ تیز ہو جاتا ہے۔
اگر آپ کو بھی ولائتی روشنیوں کی چمک دھمک اور دھلی ہوئی سڑکوں اور اجلے اجلے لوگوں کے درمیان کبھی اپنے گاؤں کی دھول اڑاتی گلیوں، تھکے ہوئے گھوڑے بندھے تانگوں اور حقہ پیتے اور کھانستے بڈھوں کی یاد نے ستایا ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اپنے علامہ صاحب نے یہ شعر آپ کے لئے قطعا نہیں لکھا کہ “ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت“ کیونکہ میرے سننے میں آیا ہے کہ آپ دن رات ان موئی مشینوں جو خودبخود چلتی اور کام کرتی ہیں کیا کہتے ہیں ان کو کمبیوتر ، ان کے آگے ہی بیٹھے رہتے ہیں۔
خیر آپ کو یاد تو ہوگا جب ہم دونوں اور ہمارا دوست شیدو گوٹی والا اور بندو ٹلی اسکول کے پچھواڑے جاکر جامن توڑتے تھے اور آپ جامن کھانے کی بجائے صابر حلوائی کی بیٹی جو کسی پہلوان سے کم ہرگز نہیں تھی کو دے دیتے تھے۔ ہمارے شورشرابے پر آپ کی وضاحتیں کہ عشق وشق کا چکر نہیں میں تو مٹھائی کے پیسوں کی ادائیگی جامنوں کی صورت کرتا ہوں۔ یہ الگ بات کہ وہ ایماں دشمن موٹی اور سانولی حسینہ کسی اور کو جامنوں کے بدلے مٹھائی نہیں بیچتی تھی۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آپ کو یاد تو ہوگا گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں وہ آلوبخاروں کے باغ میں اونگھتے ہوئے چوکیدار کے پاس سے دبے پاؤں گزر کر آلوبخارے توڑنا اور پھر نازنینوں میں کھٹے آلوبخارے ایک شانِ خسروانہ سے بانٹنا۔ اور کیا آپ کو بھولا ہوگا مائی مستقیماں کی مرغی کے انڈے چرا کر مٹھو کی ہٹی پر بیچ کر برف کے گولے کھانا۔
اب تو زندگی کی مشین اتنی تیز ہوگئی ہے کہ وہ گزرے زمانے بھی بہت زور لگا کر یاد کرنے پڑتے ہیں۔ اب دیکھو ناں وہ اپنا چوھدری شاہد سلطان آپ کا پتہ نہ دیتا تو آپ سے اتنی باتیں کیسے ہوتیں اور ہم اپنے پوتے کو پاس ہونے پر پارکر کا پین دینے کا کیسے وعدہ کرتے۔ آپ اس سے یہ مطلب ہرگز نہ لیں کہ ہم نے یہ خط آپ کو پارکر کاپین اور ولائتی سگار بھیجنے کے لئے لکھا ہے بلکہ یہ تو آپ سے پرانے تعلق کو تازہ کرنے کا ایک بہانہ ہے۔۔ہاں اس کے ساتھ اگر آپ کچھ تحفہ بھیج دیں تو کوئی مضائقہ نہیں آخر دوستوں مین تحائف کا لین دین تو چلتا ہے ناں۔
خیر سے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور جوابی خط میں لکھئے گا۔ یہاں سرسوں کا ساگ، شلغم اور چارہ بڑی وافر مقدار میں دستیاب ہوتا ہے خود بھی کھائیں اور اپنے ولائیتی دوستوں کو بھی کھلائیں مجھے امید ہے وہ پاکستان کی سوغات کو بہت پسند کریں گے جس میں ہمارے خلوص کی بھی وافر مقدار شامل ہو گی۔
والسلام
آپ کا دوست
چوھدری منظور گجر عرف منجو
ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر
حال مقیم چک لودھراں
کیسے کیسے ہونہار جمع ہیں اس دھاگے پر ، اگر کسی کو اپنا ہنر دکھانا ہو تو یہ دھاگہ آپ ہی کے لیے ہے ۔ ۔ ۔ ضرور اپنی تخلیقات بلکہ جذبات پیش کریں ، اس کی بھی ہم ای بک بنائیں گے
آج مورخہ 26 مارچ 2007 بروز پیر
بمقام: اردو ویب، نزد اداس محفل، محلہ بدتمیزاں۔
مکرمی و محترمی عزیزم رکنِ محفل !
مجھے امید ہے کہ آپ اپنی بےحس طبیعت کے باعث بخیروعافیت ہوں گے۔ بہت معذرت کے ساتھ کہ بیمار تو ہم جیسے حساس دل ہوتے ہیں جنھیں ذرا سی لاپرواہی سے عرضہ دل لاحق ہوجاتا ہے۔ عرصہ گزر گیا اور ہم دل کی بات دل میں رکھے بیٹھے رہے۔آج برادرم سیفی کا کھلا خط پڑھا تو خونِ چنگیزی نے جوش مارا اور سوچا کہ جب وہ سرعام ایک محبت نامہ اپنے منتظم اعلی کو لکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ایک شکایت نامہ لکھ سکتے؟
ازیں بس۔۔۔۔چند روز ہوئے دل ناداں کو جانے کیا شکوک لاحق ہوگئے ہیں۔۔ایسا لگتا ہے جیسے کہ تم مجھ سے ناراض ہوگئے ہو۔لاکھ سمجھایا کہ مجھ بے وقوف سے اگر کچھ غلط سرزد ہوگیاہے تو ایسا نادانستگی میں ہوا ہوگا۔۔ہم تو اپنوں کو ناراض کرنے کا اور تنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔سوچ سمجھ کے تو ہم صرف دشمنوں کو تنگ کرتے ہیں اور انھیں ایذا پہنچانے کے نت نئےحربے تیار کرتے رہتےہیں جن میں سرفہرست اپنے خوبصورت ناخنوں کی دیکھ بھال ہے جو کہ ہمارے ان زندہ دشمنوں کے لیے ہے جو چوبیس گھنٹے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور اپنے مشینی دشمنوں کے لیے تو ہم چن چن کے ایسی پوسٹس پڑھتے اور یاد رکھتے ہیں جن میں معرکہ آرائی بہت دور تک کی گئی ہو اور ہم بھی ایسی تلخ باتوں کو سیکھ کر کسی اور میدانِ جنگ میں دوبدو ان بہادر سپاہیوں کی طرح اپنے زبان کے جوہر دکھلا سکیں۔یہ تو تھی ہماری حکمت عملی دشمنوں کے واسطے۔ ذرا گھڑی بھر کو سوچو کہ جو دوستوں سے دشمنی کے گُر دیکھ دیکھ کر سیکھ رہی ہے وہ پھر کس طرح تم سے تمھارے جیسی بےحسی نہیں سیکھے گی؟
مجھے پتہ ہے کہ تم سوچو گے نہیں، تمھیں تو ہر وقت یہ ہول پڑا رہتا ہے کہ یہ چھٹانک بھر سی لڑکی سے بات کرنا کہیں تمھارے لیے شرمندگی کا باعث نہ بن جائے۔اسی لیے تم ہر جگہ بہت سکون سے مجھے نظر انداز کردیتے ہو۔ خیر ہمارا کیا ہے کہ ایک تمھی پر تو دنیا ختم نہیں ہونے والی۔میں اب بھی کہہ رہی ہوں کہ اپنی اس روش سے باز آجاؤ۔ ابھی تم میرے دو حربوں کو تو جان ہی چکے ہو اگر وہ کارگر نہ ہوسکےتو ایسا نہ ہو کہ کسی دن بہت غصے میں آکر میں یہاں سے اپنا نام ونشاں ہی مٹا دوں اور تم بس پھر ہاتھ ملتے رہ جاؤ۔
اپنی جوابی حالت کے بارے میں کچھ مت لکھنا۔ میں جانتی ہوں کہ تم میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ اعلی ظرفی سے اپنی غلطی تسلیم کرو۔ ہاں مگر خود کو سدھارنے کی کوشش ضرور کرنا۔
والسلام
تمھاری ایک ساتھی رکن
بہار نگر،نزد خوشی اسٹریٹ کے ساتھ والی دکھی گلی،
خزاں ٹاؤن۔