پیاری ماورہ ،
میٹھی میٹھی دعائیں ‘
چالیس سال تک اگر کسی لڑکی کی شادی نہ ہو تو صرف دعاؤں کا ہی آسرا رہ جاتا ہے
ایسے ہی جیسے اپنے ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ اب تک دعاؤں سے ہی حل ہوسکتا ہے ۔
یار ‘ مجھے حیرت ہوتی ہے تیری نا اہلی پر کہ ۔ ۔ ۔پڑھ لکھ کر وہ بھی ناروے سے
پہننے اوڑھنے میں پٹاخا رہی تب بھی کسی کو اپنا نہ بنا سکی
آجکل تو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں عشق کرنے میں پرفیکٹ ہوتی ہیں اور ایک تم ہو
یونہی نامراد رہی ۔
تم اتنی بے وقوف ہوگی ‘ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی
اپنے گزشتہ خطوں میں بھی تم نے یہی رونا رویا ہے کہ تمھارا عاشق بھی کچا رہا کہ محبوب جھوٹا لپاڑیا نکلا
واہ ماورہ ، حیرت ہورہی تمھارے بھولے پن پر ،
منافقت کے اس دور میں بھی محبت اور یقین کی سچائیاں تلاش کرتی رہی ۔
اری ‘ آج کے تو زہر میں بھی ملاوٹ ہے تو محبت اور وفا کیسے خالص ہوسکتی ہے ۔
اپنی دوسرے فورم والی ف‘ کو دیکھ
ہاں وہی توتلی فرخ کی چھوٹی بہن ، کالج میں داخلہ لیتے ہی اپنی خود ساختہ اداؤں کے طفیل‘ ان ؛ ہوگئی اور جب مجھے پتا چلا کہ موصوفہ ایک ساتھ تین تین لڑکوں سے عشق کا کھیل رچا رہی تو میں نے غصے میںآکر اسے خوب ڈانٹا اس پر وہ محترمہ کیا فرمانے لگیں کہ ‘ یہی کہ اب عشق اور وفا ۔ ۔۔خالص کہاں رہی ہے؟ اگر ایک بھاگا‘ تو دوسرا روٹھا تو کم از کم ایک تو مستقبل کی ضمانت بن سکے گا
کالج میں ایڈمیشن لینے کا بھلا فائدہ کہ میں اپنے مستقبل کے لئے سائبان تک نہ خرید سکوں ۔
اگر تم برا نا مانو تو ایک مشورہ دوں ۔ تم اپنی ہی چاچی مامی کے بیٹے کا رشتہ قبول کر لو
یہ مت سوچو کہ چاچی مامی بڑی کٹر قسم کی ہونگیں،
اور اگر چاچی ، مامی کے بیٹے اکھڑ مزاج کے ہوئے و تو بھی فکر ناٹ کہ یہ اکھڑ مزاج‘ تند خو طبیعت رکھنے والے مرد بہت عمدہ ثابت ہوتے ہیں کہ کسی کی ہمت نہیں ہوتی ایسے لوگوں کی بیوی سے کوئی بدتمیزی کر سکے
میری دعائیں بھی تمھارے ساتھ ہیں کہ سرثاج تمھیں اپنے سر بٹھا کر رکھے بلکہ جہاں جہاں جائے تمھیں اپنے کاندھے پر بٹھا کر لے جائے بھلے پاکستان ہی سہی
امید ہے اس خط کا جواب بہت جلد دو گی۔
تمھارے خط کی منتظر
تمھاری اپنی سہیلی
میں