مجھ کو معلوم ہے تو خط نہیں لکھتا پہ گماں دیکھ مرےتو ننویسی بکس مکتوب لیک از بدگمانی ہا
چو برخیزد کبوتر از سرِ بامت، برد ہوشم
نورالعین واقف لاہوری (بٹالوی)
(میں جانتا ہوں کہ) تُو کسی کو بھی خط نہیں لکھتا لیکن میری بدگمانیاں تو دیکھ کہ جب بھی تیرے بام سے کبوتر اُڑتا ہے تو ساتھ میں میرے ہوش بھی اُڑ جاتے ہیں۔
کاش یہ چاندار نظم منظوم مل سکھےبوستانِ سعدی کے ابتدائی سات اشعار:
به نامِ خدایی که جان آفرید
سخن گفتن اندر زبان آفرید
خداوندِ بخشندهٔ دستگیر
کریمِ خطابخشِ پوزشپذیر
عزیزی که هر کز درش سر بتافت
به هر در که شد هیچ عزت نیافت
سرِ پادشاهانِ گردنفراز
به درگاهِ او بر زمینِ نیاز
نه گردنکَشان را بگیرد به فور
نه عُذرآوران را براند به جور
وگر خشم گیرد به کردارِ زشت
چو بازآمدی ماجَریٰ درنوشت
دو کونش یکی قطره در بحرِ علم
گنه بیند و پرده پوشد به حلم
(سعدی شیرازی)
ترجمہ:
اُس خدا کے نام سے جس نے جان خلق کی
زبان کے اندر بولنے کی قوت خلق کی
عطا کرنے والے اور دست گیری کرنے والا خداوند
کریم، خطا بخشنے والا اور معذرت قبول کرنے والا
وہ بزرگوار و قوی کہ جس نے بھی اُس کے در سے سر موڑا
وہ جس در پر بھی گیا، کوئی عزت نہ پائی
گردن فراز بادشاہوں کے سر
اُس کی درگاہ میں زمینِ نیاز پر ہیں
نہ وہ گردن کشوں کو فوراً پکڑتا ہے
نہ عذر لانے والوں کو بہ ستم دور بھگاتا ہے
اور اگر وہ بدنما کردار پر خشمگین ہوتا ہے
جب تم پلٹ جاؤ تو گذرا ہوا ماجرا تہہ کر دیتا ہے (یعنی عفو کر دیتا ہے)
کونین اُس کے بحرِ علم کا ایک قطرہ ہیں
وہ گناہ دیکھتا ہے اور حلم کے ساتھ پردہ پوشی کرتا ہے
گزارش ہے کہ علامہ شبلی نعمانی کے نئے شعر بھی اس پیج پر ضرور ہونے چاہیے۔
ثمر کند
اس شہر کے نام کا درست املا 'سمرقند' ہے۔
شکریہ جناب کبھی 20 سال پہلے دیوان حافظ پڑھا تھا یہ شعر یاد رہ گیا، کل جب آپ کا یہ دھاگا کھولا تو یونہی یاد پر یہ شعر لکھ دیا، اصلاح کا شکریہ، اور ویسے بھی اردو میں میرا املا کافی کمزور ہے، ایسا کوئی سوفٹ وئر ہونا چاہئے جو املا صحیح کر سکھے، کتابت کی یا ٹئپنگ کی غلطیاں بھی درست ہاجائیں گی،اس شہر کے نام کا درست املا 'سمرقند' ہے۔
واہ کیا خوب شعر ہے بس ذرا طبیعت پھڑکی اور منظوم کر دیا مگر پتا نہیں ترجمہ کا حق ادا ہوا کہ نہیں۔افتادہ ام بَکُنجِِ غم و جز فغان و آہ
نے یارِ غمگسارے و نے ہمزباں مرا
(حافظ شیرازی)
میں غم کے گوشہ میں پڑا ہوں اور سوائے فریاد و آہ کے نہ میرا کوئی غمگسار ہے نہ ہم زباں
عاطف بھائی، یہ شعر مولوی کا ہے۔دردی است غیر مردن آں را دوا نباشد
پس من چگونہ گویم کایں درد را دوا کن
(جب ) موت کے درد کے سوا کسی درد کی دوا ہی نہیں ، تو میں کیوں کر کہوں کہ میرے درد کی دوا کرو۔
نامعلوم۔(فیس بک )
واہ۔ اورعاطف بھائی، یہ شعر مولوی کا ہے۔
میری رائے میں پہلے مصرعے کا بہتر ترجمہ یہ ہے:
(مجھے) ایک درد ہے جس کی دوا موت کے سوا نہیں
اے جے آربیری نے اس شعر کا انگریزی ترجمہ یوں کیا تھا:
This is a pain of which no cure exists but to die, so how shall I say, “Cure this pain?”