ندیم مراد صاحب ! بہت خوب اور برجستہ ترجمہ ہے !! بس دوسرا مصرع ہموزن نہیں ۔ اسے یوں کرلیجئے: ’’ نےغم گسار ہے ، نہ کوئی ہم زباں مرا ‘‘واہ کیا خوب شعر ہے بس ذرا طبیعت پھڑکی اور منظوم کر دیا مگر پتا نہیں ترجمہ کا حق ادا ہوا کہ نہیں۔
آہ و فغاں ہی گوشہء غم میں ہیں میرے ساتھ
کوئی غم گسار ہے نہ کوئی ہم زباں مرا
اور کچھ ایسے
نازِ غرورِ حُسن نہ دادش اجازتے
ورنہ سوالِ بوسئہ ما را جواب بُود
(رباعی)(رباعی)
تا از برم آن یارِ پسندیده برفت
آرام و قرار از دلِ شوریده برفت
خونِ دلم از دیده روان است از آنک
از دل برود هر آنچه از دیده برفت
(امیر معزی)
جیسے ہی وہ پسندیدہ یار میرے پہلو سے گیا، (میرے) دلِ شوریدہ سے آرام و قرار رخصت ہو گیا؛ میرے دل کا خون (میری) آنکھ سے (اس لیے) رواں ہے کیونکہ جو چیز بھی آنکھ سے چلی جائے وہ دل سے رخصت ہو جاتی ہے۔
سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ہر درخت جو کرتا ہے درست کرتا ہے۔ جیسا کہ زکات وغیرہ بھی اپنے عزیز رشتہ داروں میں پہلے دینے کا حکم ہے، وہ اہل نہ ہوں تو پڑوسیوں پھر اہل شہر پھر ملک وغیرہ وغیرہ،اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن شعر میں دل چھو لینے والی خوبی موجود ہے، وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ کر رہے ہیں، اس لیے لطف آیا،صائب تبریزی
نیستم عاشق بظاہر لیک می کاہد دلم
عمر بگزشت و نمی دانم چہ می خواہد دلم
میر تقی میر
بظاہر میں عاشق تو نہیں ہوں لیکن میرا دل کسی کی تلاش ہی میں ہے، عمر گزر گئی لیکن یہ علم نہ ہوا کہ دل آخر چاہتا کیا ہے۔