حسان خان

لائبریرین
تشبیهِ روی تو نکنم من به آفتاب
کاین مدحِ آفتاب نه تعظیمِ شأنِ توست
(سعدی شیرازی)

میں تمہارے چہرے کی تشبیہ آفتاب سے نہیں کرتا کیونکہ آفتاب کی یہ مدح تمہاری شان کی تعظیم نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شکسته‌دل‌تر از آن ساغرِ بلورینم
که در میانهٔ خارا کنی ز دست رها
(خاقانی شروانی)

میں اُس بلوری ساغر سے زیادہ شکستہ دل ہوں جسے تم سخت پتھروں کے درمیان ہاتھ سے چھوڑ دو۔
× بلور = کرسٹل
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از کفِ خویش رها زلفِ نگاری کردم
می‌گَزم دست به دندان که چه کاری کردم
(استاد غلام احمد نوید)

میں نے اپنے ہاتھ سے ایک معشوقِ زیبا کی زلف چھوڑ دی۔۔۔ (اب) میں (اپنا) ہاتھ دانتوں سے کاٹتا ہوں کہ میں نے یہ کیا کر دیا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ کیا خوب شعر ہے بس ذرا طبیعت پھڑکی اور منظوم کر دیا مگر پتا نہیں ترجمہ کا حق ادا ہوا کہ نہیں۔
آہ و فغاں ہی گوشہء غم میں ہیں میرے ساتھ
کوئی غم گسار ہے نہ کوئی ہم زباں مرا
ندیم مراد صاحب ! بہت خوب اور برجستہ ترجمہ ہے !! بس دوسرا مصرع ہموزن نہیں ۔ اسے یوں کرلیجئے: ’’ نےغم گسار ہے ، نہ کوئی ہم زباں مرا ‘‘
 

محمد وارث

لائبریرین
دُور دستاں را بہ احساں یاد کردن ہمّت است
ورنہ ہر نخلے بہ پائے خود ثمر می افگند


صائب تبریزی

خود سے دُور لوگوں پر مہربانی اور احسان کرنا ہی اصل ہمت (اور سخاوت) ہے ورنہ ہر درخت اپنے پاؤں میں تو اپنا پھل گرایا ہی کرتا ہے۔

کہتے ہیں صائب نے ایران سے یہ شعر نواب جعفر خان (وزیرِ اعظم عالمگیر) کو بھیجا تو اُس نے صلے میں پانچ ہزار اشرفیاں بھیج دیں۔ (شعر العجم جلد 3، از علامہ شبلی نعمانی بحوالہ خزانۂ عامرہ)۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
تا از برم آن یارِ پسندیده برفت
آرام و قرار از دلِ شوریده برفت
خونِ دلم از دیده روان است از آنک
از دل برود هر آنچه از دیده برفت

(امیر معزی)
جیسے ہی وہ پسندیدہ یار میرے پہلو سے گیا، (میرے) دلِ شوریدہ سے آرام و قرار رخصت ہو گیا؛ میرے دل کا خون (میری) آنکھ سے (اس لیے) رواں ہے کیونکہ جو چیز بھی آنکھ سے چلی جائے وہ دل سے رخصت ہو جاتی ہے۔
(رباعی)
تا از نظر آن یارِ پسندیده برفت
خونِ دلم از دیدهٔ غم‌دیده برفت
رفت از نظر و ز دل نرفت، این غلط است
کز دل برود هر آنچه از دیده برفت
(میر دوری)

جیسے ہی وہ پسندیدہ یار میری نظر سے گیا، (میری) غم دیدہ آنکھ سے میرے دل کا خون رواں ہو گیا؛ وہ نظر سے چلا گیا اور (پھر بھی) دل سے نہ گیا، (لہٰذا) یہ (بات) غلط ہے کہ جو چیز بھی آنکھ سے چلی جائے وہ دل سے رخصت ہو جاتی ہے۔

سوخت پروانه صفت مرغِ دلِ من، ای کاش
گردِ آن شمعِ شب‌افروز نمی‌گردیدم
(میر دوری)

میرے دل کا پرندہ پروانے کی طرح جل گیا۔۔ اے کاش میں اُس شمعِ شب افروز کے گِرد نہ گھومتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مزن ای برقِ فنا شعله تو بر مأوایم
به صد امید مهیا خس و خاری کردم
(استاد غلام احمد نوید)

اے برقِ فنا، تم میرے مسکن پر آگ نہ برساؤ کہ میں نے بہ صد امید چند خس و خاشاک مہیا کیے تھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اُمیدِ جلوہ ز دیر و حرم مدار اے دل
کہ حُسنِ دوست مقیّد بجلوہ گاہے نیست


سیّد نصیر الدین نصیر

اے دل دیر و حرم سے جلوے کی اُمید مت رکھ کیونکہ دوست کا حُسن کسی بھی جلوہ گاہ میں مقید نہیں ہے (بلکہ ہر جگہ ہے)۔
 

طالب سحر

محفلین
نزاکتهاست در آغوش میناخانهٔ حیرت
مژه برهم مزن تا نشکنی رنگ تماشا را

میرزا عبدالقادر بیدل دهلوی

(جلوہ ہائے محبوب کے) میناخانۂ حیرت کی آغوش میں نزاکتیں ہی نزاکتیں ہیں، پلک بھی مت جھپکئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ رنگ تماشا ٹوٹ جائے اور سارا منظر درہم برہم ہو جائے-

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

میر تقی میر

ماخذ
 

حسان خان

لائبریرین
زان سان درونِ چشم و دل، جا کرده آن شوخِ چِگِل
کاو رو نماید متصل، خواهم چو هر جا بنگرم
(امیر علی‌شیر نوایی)

اُس ترکستانی شوخ نے اِس طرح چشم و دل کے اندر جگہ کر لی ہے کہ جس جگہ بھی جب نگاہ کرنا چاہوں، اُسی کا چہرہ مسلسل ظاہر ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه واقفند مقیمانِ بوستانِ نشاط
به دام آنچه به مرغِ شکسته‌پر گذرد
(استاد غلام احمد نوید)

جو کچھ دام میں شکستہ پر پرندے پر گذرتا ہے اُسے بوستانِ نشاط کے مقیمان کیا جانیں؟

فتاده خضر به گردابِ زندگی عمری‌ست
دعا کنید کز این ورطهٔ خطر گذرد
(استاد غلام احمد نوید)

ایک عمر سے خضر گردابِ زندگی میں پھنسا ہوا ہے؛ دعا کیجیے کہ وہ اِس ورطۂ خطر سے گذر جائے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هزار گونه ادب جان ز عشق آموزد
که آن ادب نتوان یافتن ز مکتب‌ها
(مولانا جلال‌الدین رومی)

عشق سے جان ایسے ہزاروں آداب سیکھتی ہے جنہیں مکاتب سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
از دیدہ رفت وز دِلِ پُرخوں نمی رَوَد
در دل چناں نشستہ کہ بیروں نمی رَوَد


اہلی شیرازی

وہ آنکھوں سے دُور تو چلا گیا لیکن دلِ پُرخوں سے نہیں جاتا، وہ دل میں کچھ ایسے گھُسا ہوا ہے کہ نکالے نہیں نکلتا۔
 

ندیم مراد

محفلین
سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ہر درخت جو کرتا ہے درست کرتا ہے۔ جیسا کہ زکات وغیرہ بھی اپنے عزیز رشتہ داروں میں پہلے دینے کا حکم ہے، وہ اہل نہ ہوں تو پڑوسیوں پھر اہل شہر پھر ملک وغیرہ وغیرہ،اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن شعر میں دل چھو لینے والی خوبی موجود ہے، وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ کر رہے ہیں، اس لیے لطف آیا،
 

حسان خان

لائبریرین
مر عاشقان را پندِ کس هرگز نباشد سودمند
نی آنچنان سیلی‌ست این کش کس تواند کرد بند
(مولانا جلال‌الدین رومی)

عاشقوں کو کسی کی نصیحت کا ہرگز فائدہ نہیں ہوتا۔۔۔ (کیونکہ) یہ (عشق) کوئی ایسا سیلاب نہیں ہے کہ جس پر کوئی بند باندھ سکے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوا اگرچہ موافق بود بطبعِ مریض
موافقت نہ کند گر طبیب مشفق نیست


طالب آملی

اگرچہ دوا مریض کی طبیعت کے موافق ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر طبیب مُشفِق و مہربان و خیر خواہ نہیں ہے تو وہ دوا مریض کے لیے موافق اور سود مند نہیں ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
نیستم عاشق بظاہر لیک می کاہد دلم
عمر بگزشت و نمی دانم چہ می خواہد دلم


میر تقی میر

بظاہر میں عاشق تو نہیں ہوں لیکن میرا دل کسی کی تلاش ہی میں ہے، عمر گزر گئی لیکن یہ علم نہ ہوا کہ دل آخر چاہتا کیا ہے۔

اسی مضمون سے ملتے جُھلتے اشعار-- جو کہ خیال کے اعتبار سے مختلف بھی ہیں -- محفل کی نذر:

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی

فیض احمد فیض

اے دل نشیں تلاش تری کو بہ کو نہ تھی
اپنے سے اک فرار تھا وہ جستجو نہ تھی

ضیا جالندھری
 

حسان خان

لائبریرین
ذوقِ سرِ سرمست را هرگز نداند عاقلی
حالِ دلِ بی‌هوش را هرگز نداند هوشمند
(مولانا جلال‌الدین رومی)

سرمست کے سر کے ذوق کو ہرگز کوئی عاقل نہیں جان سکتا؛ بے ہوش کے دل کے حال کو ہرگز کوئی ہوش مند نہیں جان سکتا۔

بیزار گردند از شهی شاهان اگر بویی برند
زان باده‌ها که عاشقان در مجلسِ دل می‌خورند
(مولانا جلال‌الدین رومی)

شاہانِ دنیا اپنی شاہی سے بیزار ہو جائیں اگر وہ اُن شرابوں کی ذرا سی بُو پا لیں جو عشاق مجلسِ دل میں پیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
روزی به دلبری نظری کرد چشمِ من
زان یک نظر مرا دو جهان از نظر فتاد
(سعدی شیرازی)

ایک روز میری آنکھ نے ایک دلبر پر ایک نظر کی۔۔۔ اُس ایک نظر سے دو جہاں میری نظر سے گر گئے۔
 
Top