زبردست شعر ہے ۔۔دوا اگرچہ موافق بود بطبعِ مریض
موافقت نہ کند گر طبیب مشفق نیست
طالب آملی
اگرچہ دوا مریض کی طبیعت کے موافق ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر طبیب مُشفِق و مہربان و خیر خواہ نہیں ہے تو وہ دوا مریض کے لیے موافق اور سود مند نہیں ہے۔
یہی ایک اچھے شاعر کا اعجاز ہے کہ ہم اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس کو داد دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ہر درخت جو کرتا ہے درست کرتا ہے۔ جیسا کہ زکات وغیرہ بھی اپنے عزیز رشتہ داروں میں پہلے دینے کا حکم ہے، وہ اہل نہ ہوں تو پڑوسیوں پھر اہل شہر پھر ملک وغیرہ وغیرہ،اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن شعر میں دل چھو لینے والی خوبی موجود ہے، وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ کر رہے ہیں، اس لیے لطف آیا،
وارث بھائی اختلاف کا مطلب ڈنڈا لےکر سرپھوڑنا تھوڑا ہی ہوتا ہے، اسی لئے شریعت میں درست اجتہاد کرنے والے کو دگنا اور غلط اجتہاد کرنے پر ایک ثواب ملتا ہے، جیسے شعر میں شاعر اپنی محبوبہ کی تعریف کرتا ہے اور سب داد دیتے ہیں سب کواس کی محبوبہ سے کیا لینا دینا، اور وہ سامنے بھی آجائے تو ہم یہی کہیں گے سلام بھابھی بچے خیریت سے ہیں،یہی ایک اچھے شاعر کا اعجاز ہے کہ ہم اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس کو داد دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
اک روز میری آنکھ نے دلبر پہ کی نظرروزی به دلبری نظری کرد چشمِ من
زان یک نظر مرا دو جهان از نظر فتاد
(سعدی شیرازی)
ایک روز میری آنکھ نے ایک دلبر پر ایک نظر کی۔۔۔ اُس ایک نظر سے دو جہاں میری نظر سے گر گئے۔
زبردست ۔۔هیچ کس نیست زباندانِ خیالم بیدل
نغمهٔ پردهٔ دل از همه آهنگ جداست
(بیدل دهلوی)
اے بیدل، کوئی شخص بھی میرے خیال و تخیل کا زبان داں نہیں ہے۔۔۔ (میرے) دل کے پردے کا نغمہ تمام آہنگوں سے جدا ہے۔
چہ خوب! ہمیشہ کی طرح عالی انتخاب!تمعتیِ نبرند اغنیا ز نعمتِ خویش
کہ باغباں نشناسد کہ سیرِ گلشن چیست
ابوطالب کلیم کاشانی
غنی لوگ اپنی ملی ہوئی نعمتوں سے (فقط خود ہی) فائدہ نہیں اٹھاتے (بلکہ دوسروں کو بھی عطا کرتے ہیں) جیسے کہ باغبان (روزانہ باغ میں جانے کے باوجود) یہ نہیں جانتا کہ گلشن کی سیر کیا چیز ہے (بلکہ وہ پھل پھولوں کی دیکھ بھال کرتا ہے)۔
خوب ہے خان صاحب، اور شکریہ تمعتی کی طرف توجہ دلانے کے لیے۔ اس شعر کے بارے میں میں یہی سوچتا رہا تھا کہ "ملی ہوئی نعمتوں سے خود کوئی بھی حظ نہ اٹھانا" کچھ خلافِ واقع لگ رہا تھا گو دوسرے مصرعے میں دلیل قوی ہے، اس لیے بہت زیادہ قوسین کا استعمال کرنا پڑا تھا، خیر، آپ نے خوب لکھاچہ خوب! ہمیشہ کی طرح عالی انتخاب!
وارث بھائی، مصرعِ اول کا پہلا لفظ 'تمتّعی' (با یائےنکرہ) ہے۔ اس کتابت کے سہو کو درست کر لیجیے۔
علاوہ بریں، اگر شعر کے ترجمے کو ذرا سا تبدیل کر کے یوں کر دیا جائے تو شاید بہتر ہو گا کیونکہ مجھے یہاں دوسروں کو بھی عطا کرنے کے مفہوم کا احساس نہیں ہو رہا:
غنی لوگ اپنی ملی ہوئی نعمتوں سے کوئی حظ نہیں اٹھاتے جیسے کہ باغبان (روزانہ باغ میں جانے کے باوجود) یہ نہیں جانتا کہ گلشن کی سیر کیا چیز ہے (کیونکہ وہ پھل پھولوں کی دیکھ بھال ہی میں لگا رہتا ہے)۔
لاجواب۔ عرفی کی یہ غزل اس خاکسار کی بھی پسندیدہ ہے اور میں ہی کیا ایک عالم اس کا قتیل ہے، ۔۔۔۔۔۔۔بوئے یاسمن باقیستگمان مبر که تو چون بگذری جهان بگذشت
هزار شمع بکشتند و انجمن باقیست
(عرفی شیرازی)
یہ گمان مت رکھو کہ جب تم (اِس دنیا سے) گذر جاؤ گے تو دنیا بھی گذر جائے گی کیونکہ ہزاروں شمعیں بجھا دی گئیں لیکن انجمن باقی ہے۔
میں دو دن پہلے اِس دھاگے کے پرانے مراسلے دیکھ رہا تھا۔ ایک مراسلے میں محمد یعقوب آسی صاحب نے اِس غزل کی درخواست کی تھی، جس کے جواب میں آپ نے یہ غزل پیش کی تھی۔ آپ کا وہی مراسلہ اِس شعر کا ترجمہ کرنے کا محرّک بنا ہے۔لاجواب۔ عرفی کی یہ غزل اس خاکسار کی بھی پسندیدہ ہے اور میں ہی کیا ایک عالم اس کا قتیل ہے، ۔۔۔۔۔۔۔بوئے یاسمن باقیست