اریب آغا ناشناس
محفلین
فارسی زبان کے تمام عاشقانِ صادق کے نام حافظ شیرازی کا یہ شعر:
پری روئے کہ رخسارش چو ماہست
ہزارش عاشقِ شیدا چو ما ہست
وہ پری رو، جس کا رخسار چاند کی طرح ہے، ہم جیسے اس کے ہزاروں عاشقِ شیدا ہیں۔
پہلے شعر میں ما ہست= ما است
دوسرے شعر میں ماہست= ماہ است
بلاشبہ ہمارے لئے زبانِ فارسی ایک مہِ تاباں کی حیثیت رکھتی ہے یا جامِ مے کی، کہ جس کے نشے سے مےخواراں مست و رقصاں رہتے ہیں اور جس کا اثرِ بے حد و نہایت اپنے پینے والے کو مدہوش و بے خود کردیتی ہے۔
ہمارا اس سلسلے کا پیرِ مغاں بلاشبہ حسان خان بھائی ہیں۔
پری روئے کہ رخسارش چو ماہست
ہزارش عاشقِ شیدا چو ما ہست
وہ پری رو، جس کا رخسار چاند کی طرح ہے، ہم جیسے اس کے ہزاروں عاشقِ شیدا ہیں۔
پہلے شعر میں ما ہست= ما است
دوسرے شعر میں ماہست= ماہ است
بلاشبہ ہمارے لئے زبانِ فارسی ایک مہِ تاباں کی حیثیت رکھتی ہے یا جامِ مے کی، کہ جس کے نشے سے مےخواراں مست و رقصاں رہتے ہیں اور جس کا اثرِ بے حد و نہایت اپنے پینے والے کو مدہوش و بے خود کردیتی ہے۔
ہمارا اس سلسلے کا پیرِ مغاں بلاشبہ حسان خان بھائی ہیں۔