تاجک شاعر لائق شیرعلی کی نظم 'جوانی میرود' سے ایک اقتباس:
"جوانی سبزهای نی، تا به هر فصلِ بهار از نو
دمد از خاک و باز آرا دهد صحرای عریان را.
جوانی آفتابی نی، که بیگه رفته، صبح آید،
جوانی ماه نی، هر مه نخواهد گشت او پیدا.
دریغا، این گلِ بیصورتِ صدرنگِ عطرافشان
فقط یک بار در شاخِ نهالِ عمر میخندد."
(لایق شیرعلی)
جوانی کوئی سبزہ نہیں ہے کہ ہر فصلِ بہار میں از نو خاک سے پھوٹ پڑے اور دوبارہ صحرائے عریاں کو آرائش دے دے۔ جوانی کوئی آفتاب نہیں ہے کہ شام کے وقت جا کر صبح آ جائے۔ جوانی چاند نہیں ہے، (لہٰذا) ہر مہینے وہ ظاہر نہیں ہو گی۔
افسوس! یہ بے صورت و رنگارنگ و عطر افشاں گُل شاخِ نہالِ عمر پر فقط ایک بار (شکوفا ہوتا اور) ہنستا ہے۔