کلام حضرت لال شہباز قلندر (رحمة الله عليه):
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کرتا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کرتا ہوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم
تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم
تُو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
آجا جاناں اور دیکھ، کہ جانبازوں کی بھِیڑ میں، میں رسوائی کے سو سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔
اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم
اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔
خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم
واہ وہ رندی کہ جس کے لیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔
سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم
سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں، کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد رقص کرتا ہوں۔
مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم
اے ظاہر دیکھنے والے مدعی! مجھے طعنہ مت مار، میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار رقص کرتا ہوں۔
ز عشقِ دوست ہر ساعت درونِ نار می رقصم
گاہے بر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم
دوست کے عشق میں ہر گھڑی آگ میں رقص کرتا ہوں، کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں، کبھی کانٹے پر رقص کرتا ہوں۔
منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم
میں عثمان مروندی، شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔