تازه گردید از نسیمِ صبحگاهی جانِ من
شب مگر بودش گذر بر منزلِ جانانِ من
(شیخ بهایی)
نسیمِ صبحگاہی سے میری جان تازہ ہو گئی؛ شب میں شاید اُس کا گذر میرے محبوب کی منزل پر ہوا تھا۔
بهایی خرقهٔ خود را مگر آتش زدی کامشب
جهان پر شد ز دودِ کفر و سالوسی و زرّاقی
(شیخ بهایی)
اے بہائی، تم نے اپنے خرقے کو شاید آگ لگا دی کہ اِس شب دنیا کفر و حیلہ گری و ریاکاری کے دھوئیں سے پُر ہو گئی ہے۔
اگرچه باده حرام است ظن برم که مگر
حلال گردد بر عاشقان به وقتِ بهار
(فرخی سیستانی)
اگرچہ شراب حرام ہے (لیکن) میرا ظن ہے کہ شاید عاشقوں پر بہار کے وقت حلال ہو جاتی ہو۔