محمد وارث

لائبریرین
رباعی

اوّل بہ وفا جامِ وصالم در داد
چوں مست شدم دامِ جفا را سر داد
با آبِ دو دیدہ و پُر از آتشِ دل
خاکِ رہِ او شدم بہ بادم در داد


(حافظ شیرازی)

پہلے تو وفا سے مجھے وصال کا جام دیا، جب میں مست ہو گیا تو جفا کا جال ڈال دیا، دو روتی ہوئی آنکھوں اور آگ بھرے دل کے ساتھ، جب میں اس کی راہ کی خاک بنا تو مجھے ہوا میں اڑا دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

سر بر مفراز، خاکِ پائے ہمہ باش
دلہا مخراش، در رضائے ہمہ باش
با خلق نیامیختن از خامیِ تست
ترکِ ہمہ گیر و آشنائے ہمہ باش


(خواجہ الطاف حسین حالی)

سر مت اٹھا، ہمیشہ خاکِ پا بن، دلوں کو تکلیف مت دے، ہمیشہ رضا پر (راضی) رہ، خلق کے ساتھ نہ ملنا تری خامیوں میں سے ہے، ہر چیز کو ترک کر دے اور ہر کسی کا آشنا بن۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد


(نظیری نیشاپوری)

یہ نئی رسمیں ہمارے عہد (وعدہ) کی نا امیدی و حسرت و بد نصیبی کی وجہ سے ہیں، دنیا میں عنقا تو کسی کا نامہ بر نہ ہوا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

در کارگہہ کوزہ گراں بودم دوش
دیدم دو ہزار کوزہ گویا و خموش
ہر یک بزبانِ حال با من گفتم
کو کوزہ گر و کوزہ خر و کوزہ فروش


(عمر خیام)

کل میں کوزہ گراں کی کارگاہ میں تھا، میں نے وہاں دو ہزار (بہت سے) کوزے گویا اور خاموش دیکھے، اور ہر ایک زبانِ حال سے مجھے یہی کہہ رہا تھا کہ وہ خود ہی کوزہ گر اور کوزہ خریدنے والا اور کوزہ بیچنے والا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب نظیری کے شعر میں‌ مجھے ترجمے کی گڑبڑ لگ رہی ہے کیونکہ اس ترجمے سے شعر مہمل ہوگیا ہے - کچھ سمجھ نہیں‌آرہی کہ اس شعر کا کیا مطلب ہے - اور خیّام کی رباعی میں‌گویا کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب نہیں‌ لکھا آپ نے - کیا یہ ترجمے آپ خود کر رہے ہیں یا کہیں سے دیکھ کر لکھ رہے ہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب نظیری کے شعر میں‌ مجھے ترجمے کی گڑبڑ لگ رہی ہے کیونکہ اس ترجمے سے شعر مہمل ہوگیا ہے - کچھ سمجھ نہیں‌آرہی کہ اس شعر کا کیا مطلب ہے - اور خیّام کی رباعی میں‌گویا کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب نہیں‌ لکھا آپ نے - کیا یہ ترجمے آپ خود کر رہے ہیں یا کہیں سے دیکھ کر لکھ رہے ہیں؟

شکریہ فرخ صاحب توجہ کیلیئے۔

نظیری کا شعر

ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد


یہ شعر مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب 'غبارِ خاطر' سے لیا ہے اور ترجمہ کرنے کی جسارت خود ہی کی تھی۔ مولانا کی اس کتاب میں کل ملا کر کوئی سات سو کے قریب اشعار ہیں اور پچانوے فیصدی فارسی کے لیکن مولانا نے ترجمہ یا شاعر کا نام لکھنے کا تکلف نہیں کیا، یہ تو بھلا ہو مالک رام دہلوی کا کہ انہوں نے اپنے حواشی میں کم از کم اشعار اور مصرعوں کی تخریج کر کے شاعروں کے نام لکھ دیئے ہیں۔


اس شعر کا مطلب جو مجھے سمجھ آیا تھا وہ یہ ہے کہ تو نے ہم سے ملنے اور اسکا پیغام بھیجنے کا جو وعدہ کیا تھا (عہد کا ایک مطلب زمانہ بھی ہے لیکن وعدہ بھی ہے) اسکی بدنصیبی کچھ ایسی ہے کہ نئی رسمیں نکل پڑیں کہ ہمارا نامہ بر عنقا (جو کہ ناپید) ہوا ہے۔


اس شعر کا خیال تو جیسا بھی ہے، اسکا سارا حسن عنقا کو نامہ بر سے تشبیہ دینے میں ہے، اور نظیری سے پہلے اور بعد شاید ہی کسی نے عنقا کو نامہ بر کے طور پر باندھا ہوا، شاعر کو اس نادر الوجود تشبیہ کا احساس خود بھی تھا اسی لیے پہلے مصرعے میں "تازہ' کا لفظ بھی لائے، اس شعر کی یہی چیز شاید مولانا آزاد کو بھی پسند آئی تھی کہ انہوں نے کتاب میں صرف دوسرا مصرع ہی لکھا ہے، اور اس 'اسیرِ آزاد' کو بھی اس شعر کی یہی چیز پسند آئی تھی۔:)



خیام کی رباعی
خیام کی رباعیات کا ترجمہ عام ملتا ہے اور یہ دیکھ کر ہی لکھا تھا، غلطی یہ کر دی کہ ترجمے میں حسن پیدا کرنے کیلیئے (اپنی طرف سے) گویا (بمعنی بولنا، گویائی وغیرہ) کا ترجمہ چھوڑ دیا اور اس لفظ کو ایسے ہی لکھ دیا کیونکہ اگلے ہی مصرعے میں شاعر نے 'زبانِ حال سے بولنے' کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن کیا کیجیئے حضور مومن 'گویا' کو کچھ ایسا باندھ گئے ہیں اپنے معروف و مشہور بلکہ زبان زد عام شعر میں کہ 'گویا' سے دھیان گویائی کی طرف جاتا ہی نہیں :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب ابھی بھی میری تشفّی نہیں ہوئی - قبلہ شاکر القادری صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ بھی ان اشعار کا ترجمہ یا تشریح کر سکیں تو بہت مہربانی ہوگی -
 

شاکرالقادری

لائبریرین
رباعی

در کارگہہ کوزہ گراں بودم دوش
دیدم دو ہزار کوزہ گویا و خموش
ہر یک بزبانِ حال با من گفتم
کو کوزہ گر و کوزہ خر و کوزہ فروش

(عمر خیام)

کل میں کوزہ گراں کی کارگاہ میں تھا، میں نے وہاں دو ہزار (بہت سے) کوزے گویا اور خاموش دیکھے، اور ہر ایک زبانِ حال سے مجھے یہی کہہ رہا تھا کہ وہ خود ہی کوزہ گر اور کوزہ خریدنے والا اور کوزہ بیچنے والا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے خیام کی یہ رباعی کچھ اس طرح پڑھی ہے:

در کارگہ کوزہ گری رفتم دوش
دیدم دو ہزار کوزہ گویا و خموش
ناگاہ یکی کوزہ برآورد خروش
کو کوزہ گر و کوزہ خر و کوزہ فروش
////////////////////////
ترجمہ
کل میں ایک کوزہ گر ﴿کمہار﴾ کے کارخانے میں گیا
میں نے وہاں دوہزار ﴿یعنی بہت سے﴾ کوزے دیکھے ﴿جن میں سے کچھ تو ﴾خاموش تھے اور ﴿کچھ ﴾بولتے ہوئے
اچانک ایک کوزہ نے چیخ ماری﴿اور بہ آواز بلند پکارا کہ﴾ وہ کوزہ بنانے والا، کوزہ خریدنے والا اور کوزہ بیچنے والا ﴿ سب﴾ کہاں ہیں ؟
﴿یعنی سب کے سب مر کر مٹی میں مل گئے اور ان کی مٹی سے پھر کوزے بنانے والوں نے کوزے بنا دیے﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوسین میں دیے گئے الفاظ تشریحی ہیں

وارث صاحب کی نقل کردہ رباعی کے مصرع اول میں معمولی تفاوت ہے لیکن یہ تفاوت مفہوم کو متاثر نہیں کرتا البتہ تیسرا مصرع یوں ہے
ہر یک بزبانِ حال با من گفتم
جو کہ نہ صرف متفاوت ہے بلکہ برخود بھی غلط ہے کیونکہ "گفتم" گفت کے ساتھ من کی ضمیر متصل سے بنتا ہے جسکے معنی ہیں "میں نے کہا" اس لحاظ سے مصرع کا ترجمہ یہ ہوگا
"ہر ایک زبان حال سے میرے ساتھ میں نے کہا"جوکہ بالکل مہمل اور بے معنی جملہ ہے
جبکہ وارث صاحب کی جانب سے فراہم کردہ ترجمہ یوں ہے
"ہر ایک زبانِ حال سے مجھے یہی کہہ رہا تھا"
یہ ایک واضح اور با معنی ترجمہ ہے لیکن اس ترجمہ کے لیے فارسی مصرع کی ساخت میں تبدیلی کرنا ہو گی جو کہ کچھ یوں ہوگی

"ہر یک بزبانِ حال با من می گفت"
می گفت فعل ماضی استمراری ہے جس کا ترجمہ ہو گا "کہتا تھا" یا "کہا کرتا تھا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھے مصرع میں وہ کلیدی لفظ جو کہ مصرع کے اندر معانی و مفاہیم کی گونا گونی پیدا کرتا ہے وہ ہے لفظ "ک۔ُ۔۔۔۔۔و" جو کہ بذاتہ بھی ایک لفظ ہے اور دو الفاظ کے مجموعے کا مخفف بھی ہے "کو" بذاتہ ایک لفظ کے طور پر "کہاں" کے معنی دیتا ہے اور فارسی میں اکیلا "کو" اور "کو کجا" ﴿مترادفات﴾ یکجا بھی استعمال ہوتے ہیں
جس کے معنی ہیں کہاں ہے، کس جگہ ہے وغیرہ
جبکہ "کو"دو الفاظ ﴿کہ+او﴾ کے مجموعے کے مخفف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے وارث صاحب کے ترجمہ میں "کو" کی یہی حیثیت برتی گئی ہے جبکہ میں نے "کو" کی اول الذکر صورت کا ترجمہ کیا ہے دونوں تراجم درست ہیں اور دونوں سے مصرع کی جامعیت اور خیام کے فلسفہ فنا و بقا اور حیات و ممات کی مختلف جہات پر روشنی پڑتی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ شاکر صاحب لیکن نظیری کے اس شعر پر بھی ذرا روشنی ڈالیں تو مزید عنائت ہوگی -
ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد

(نظیری نیشاپوری)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہت شکریہ شاکر صاحب لیکن نظیری کے اس شعر پر بھی ذرا روشنی ڈالیں تو مزید عنائت ہوگی -
ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد
(نظیری نیشاپوری)

ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
یہ تازہ رسمیں ہمارے عہد کی حرماں نصیبی کی پیدا وار ہیں
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد
﴿ورنہ﴾ زمانے میں کسی نے عنقا کو اپنا نامہ بر نہیں بنایا تھا

یہ اس شعر کا بظاہر اور سیدھا سادا ترجمہ ہے لیکن نظیری نیشاپوری نے اس شعر میں ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل کی طرح لفظ اور اس کے معانی سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے اسے تہہ دار گنجلک اور پیچیدہ معمہ بنادیا ہے جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں در اصل اس شعر میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ
" ہمارے عہد کی حرماں نصیبیوں اور مایوسیوں کا یہ عالم ہے کہ ہمیں تازہ رسوم ﴿یعنی نئے مسائل، نئے دکھوں اور نئے انداز کے رنج الم سے﴾ واسطہ پڑ رہا ہے اور بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے اپنے محبوب تک اپنا حال دل پہنچانے کے لیے عنقا﴿ایک ایسا پرندہ جس کا وجود ہی نہیں﴾ کو نامہ بر بنا لیا ہے ﴿یعنی ہمارے دکھوں اور نئے مسائل کا حل عنقا یا مفقود ہے﴾ حالانکہ زمانے میں کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ پیغام رسانی کے لیے عنقا نامی فرضی پرندے کو استعمال کیا گیا ہو ۔ ہمیشہ اس مقصد کے لیے کبوتر یا دوسرے پیغام رساں پرندوں کو استعمال کیا جاتا تھا یا یوں کہہ لیں کہ کوئی زمانہ ایسا نہ تھا کہ مسائل کا حل موجود نہ ہو ہر دور میں ہر زمانے میں محبوب تک حال دل پہنچانے کا ذریعہ موجود تھا لیکن ہماری بد نصیبی کہ ہمارے لیے نامہ بر کا وجود بھی معدوم و مفقود﴿معدوم یا مفقود عنقا کا ترجمہ ہے﴾ ہو گیا ہے
میں نے اپنے طور پر نظیری کے شعر کی شکن در شکن زلف دوتا کو سلجھانے کی کوشش کی ہے تاہم"المعنی فی بطن شاعر" کی مصداق حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ نظیری کے پیش نظر یہی مفہوم رہا ہو گا یا کچھ اور
والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
عَلی الصباح چُو مردم بہ کاروبار رَوند
بلا کشانِ محبّت بہ کوئے یار روند


(حافظ شیرازی)

صبح صبح جیسے لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف جاتے ہیں، محبت کا دکھ اٹھانے والے (عشاق) دوست کے کوچے کی طرف جاتے ہیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عَلی الصبح چُو مردم بہ کاروبار رَوند
بلا کشانِ محبّت بہ کوئے یار روند

(حافظ شیرازی)

صبح صبح جیسے لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف جاتے ہیں، محبت کا دکھ اٹھانے والے (عشاق) دوست کے کوچے کی طرف جاتے ہیں۔
:s:
شکریہ برادرم

لیکن میرا خیال ہے کہ مصرع اول میں "علی الصباح" ہونا چاہیے
:)
 

یاز

محفلین
ایک شعر میری طرف سے بھی
بحریست بحرِ عشق کہ ہیچش کنارہ نیست
آ نجا جزانیکہ جاں بسپارند چارہ نیست
(حافظ شیرازی)

عشق کا سمندر ایسا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے
بجز اس کے کہ جان دے دیں، وہاں کوئی چارہ نہیں ہے
 

یاز

محفلین
آن دم کہ دل بہ عشق دہی خوش دمے بود
درکارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست
(حافظ شیرازی)

جب دل کو عشق میں لگا دیا، وہی اچھا وقت ہو گا
کارِ خیر میں کسی استخارہ کی ضرورت نہیں ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
:s:
شکریہ برادرم

لیکن میرا خیال ہے کہ مصرع اول میں "علی الصباح" ہونا چاہیے
:)

آپ نے بالکل صحیح کہا شاکر القادری صاحب۔

دراصل یہ شعر نامور نقاد ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کتاب "بلا کشانِ محبت" سے لیا تھا اور ڈاکٹر صاحب کی علمیت پر اعتبار کر کے بغیر تحقیق اور غور کیئے بغیر جیسا تھا ویسا ہی لکھ دیا۔ :)

دیوانِ حافظ سے افسوس یہ شعر نہیں ڈھونڈ پایا، لیکن بحر کے مطابق اسے 'علی الصباح' ہی ہونا چاہیئے، شعر صحیح کر رہا ہوں۔ ایک بار پھر شکریہ آپ کا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غلط گفتی "چرا سجّادۂ تقویٰ گِرو کردی؟"
بہ زہد آلودہ بودم، گر نمی کردم، چہ می کردم؟


(یغمائے جندقی)

تُو نے یہ غلط کہا ہے کہ "پارسائی کا سجادہ (پیر مغاں کے پاس) گروی کیوں رکھ دیا؟"۔ میں زہد سے آلودہ ہو گیا تھا اگر ایسا نہ کرتا تو کیا کرتا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
آں کیست نہاں در غم؟ ایں کیست نہاں در دل؟
دل رقص کناں در غم، غم رقص کناں در دل


(جگر مراد آبادی، شعلۂ طور)

وہ کیا ہے جو غم میں چُھپا ہے، یہ کیا ہے جو دل میں چُھپا ہے، (کہ) دل غم (و الم) میں رقص کر رہا ہے، اور غم دل میں رقص کر رہا ہے۔ :(
 

محمد وارث

لائبریرین
یا وفا یا خبرِ وصلِ تو یا مرگِ رقیب
بازیِ چرخ ازیں یک دو سہ کارے بکنَد


(حافظ شیرازی)

یا (تیری) وفا یا تیرے وصل کی خبر یا رقیب کی موت (کی خبر)، آسمانوں کی بازی ان ایک دو تین کاموں میں سے کوئی ایک (یا دو، یا تینوں) کام تو کرے۔ (ایک دو تین، چھ بنتے ہیں اور بازی کے لحاظ پانسے کو اعداد کو کیا خوب باندھا ہے)۔

دوسرا مصرع اوپر لکھے گئے مصرعے سے مختلف بھی ملتا ہے۔
 
Top