تاک را سیراب کن ای ابرِ نیسان در بهار
قطره تا مَی میتواند شد چرا گوهر شود
(میرزا محمد رضی دانش مشهدی)
"تاک انگور کی بیل کو کہتے ہیں، ابرِ نیساں کی نسبت خیال ہے کہ اس کے قطرے سیپ میں گرتے ہیں تو موتی بن جاتے ہیں، شاعر، ابرِ نیساں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تو انگور کی بیل کو سیراب رکھ، کیونکہ جب تک قطرہ شراب بن سکتا ہے تو موتی بننے کی کیا ضرورت ہے، یعنی شراب کا قطرہ، موتی سے زیادہ قیمتی ہے، اس لیے بجائے اس کے کہ ابرِ نیساں موتی طیار کرے یہ بہتر ہے کہ انگور پر برسے کہ شراب طیار ہو۔"
(ترجمہ و تشریح: شبلی نعمانی)