طالب سحر

محفلین
سرسبز آن درخت که از تيشه ايمن است
فرخنده آن اميد که حرمان نمى شود

پروین اعتصامی


وہی درخت سرسبز رہا جو تیشہ سے محفوظ رہا۔ مبارک ہے وہ امید جو محرومی کا شکار نہیں ہوتی ۔
ترجمہ: اقبال حیدری
 
حسان بھائی! ذیلی شعر کے ترجمہ سے مطلع فرمائیں تو نوازش ہو گی۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مرَود معمار کج
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔
ویسے نہد کس فعل سے مصدر ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے معنی یہاں لگانے کے ہی ہوں گے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔
ویسے نہد کس فعل سے مصدر ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے معنی یہاں لگانے کے ہی ہوں گے۔
نہد، مصدر نہادن سے فعل حال صیغہ غائب واحد ہے۔ اور نہادن کا مطلب رکھنا وغیرہ ہے۔اردو میں بھی نام نہاد مستعمل ہے۔
 
آخری تدوین:
ز من بہ جرمِ تپیدن کنارہ می کردی
بیا بہ خاکِ من و آرمیدنم بنگر
مرزا نوشہ
اردو ترجمہ مطلوب ہے۔۔۔۔ شکریہ
تو نے مجھ سے میری بے چینی کے جرم کی پاداش میں کنارہ کر لیا۔ اب میری خاک پر آ اور دیکھ کہ میں آرام کر رہا ہوں۔
(ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے)
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی! ذیلی شعر کے ترجمہ سے مطلع فرمائیں تو نوازش ہو گی۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مرَود معمار کج
یہ شعر تو معلوم نہیں کس کا ہے، لیکن صائب تبریزی کا یہ شعر دیکھیے:
چون گذارد خشتِ اول بر زمین معمار کج
گر رساند بر فلک، باشد همان دیوار کج

(صائب تبریزی)
جب زمین پر معمار پہلی اینٹ (یعنی بنیاد) ہی کج رکھے تو پھر وہ خواہ دیوار کو آسمان تک لے جائے، وہ کج ہی رہتی ہے۔
'گُذاشتن' کا بھی ایک معنی 'رکھنا' ہے۔
 

یاز

محفلین
کے بود ہمرنگ فقر و احتشام
چوں شود ہمجنس یاقوت و زُحام
(مولانا رومی)


دولتمندی اور فقر ہمرنگ کب ہوئے ہیں؟ یاقوت اور سنگِ مرمر ہم جنس کہاں ہیں؟
 

یاز

محفلین
شرحِ شکنِ زلفِ خم اندر خمِ جاناں
کو تہ نتواں کرد کہ ایں قصہ درازست
(حافظ شیرازی)


محبوب کی پیچ پیچ زلفوں کی شکن کی شرح مختصر نہیں ہو سکتی،کیونکہ یہ طویل قصہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نیَم بہجرِ تو تنہا دو ہمنشیں دارم
دلِ شکستہ یکے، جانِ بیقرار یکے


شیخ علی حزیں لاھیجی

میں تیرے ہجر میں تنہا نہیں ہوں بلکہ میرے دو ہمنشیں بھی ہیں، ایک ٹُوٹا ہوا دل اور دوسرا بیقرار جان۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز ناتوانیِ خود این قدر خبر دارم
که از رخت نتوانم که دیده بردارم
(کلیم کاشانی)

مجھے اپنی ناتوانی کی اِتنی خبر ہے کہ میں تمہارے چہرے سے آنکھ نہیں اٹھا سکتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تواضع‌های ظالم مکرِ صیّادی بوَد بیدل
که مِیلِ آهنی را خم شدن قُلّاب می‌سازد
(بیدل دهلوی)

اے بیدل! ظالم کی عاجزیاں شکاری فریب ہوتی ہیں کہ آہنی سلاخ کو خم ہونا قُلّاب بنا دیتا ہے۔
× قُلّاب = شکاری کانٹا
 

حسان خان

لائبریرین
چنانت دوست می‌دارم که گر روزی فراق افتد
تو صبر از من توانی کرد و من صبر از تو نتوانم
(سعدی شیرازی)

میں تمہیں اِس طرح محبوب رکھتا ہوں کہ اگر کسی روز (ہمارے درمیان) جدائی واقع ہو جائے تو تم تو مجھ سے صبر کر سکو لیکن میں تم سے صبر نہ کر سکوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حسن دعائے تو گر مستجاب نیست مرنج
ترا زباں دگر و دل دگر، دعا چہ کند


خواجہ حسن سجزی دہلوی

حسن، اگر تیری دعا قبول نہیں ہوتی تو رنج نہ کر کیونکہ تیری زبان پر تو کچھ اور ہے اور دل میں کچھ اور ہے، اب ایسی صورت میں دعا کیا کرے؟
 

حسان خان

لائبریرین
دمی با دوست در خلوت به از صد سال در عشرت
من آزادی نمی‌خواهم که با یوسف به زندانم
(سعدی شیرازی)

دوست کے ساتھ خلوت میں ایک لمحہ صد سالہ عشرت سے بہتر ہے؛ میں آزادی نہیں چاہتا کہ میں یوسف کے ساتھ زندان میں ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
غزنوی دور کے فارسی شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری کے بارے میں اکثر تذکرہ نگاروں اور محققوں کا خیال ہے کہ وہ لاہور میں متولد ہوئے تھے، لیکن بعضے دیگر اُن کی زادگاہ کے طور پر ہمدان کا نام لیتے ہیں۔ رہی معیّری کی مندرجۂ ذیل رباعی اِسی پس منظر میں ہے۔
(رباعی)
مسعود که یافت عز و جاه از لاهور
تابید چو نورِ صبح‌گاه از لاهور
سالارِ سخن‌وران به تازی و دری‌ست
خواه از همدان باشد و خواه از لاهور
(رهی معیّری)

مسعود، کہ جس نے لاہور سے عزّ و جاہ پائی، وقتِ صبح کے نور کی طرح لاہور سے چمکا؛ وہ عربی و فارسی میں سخنوروں کا سالار ہے؛ خواہ وہ ہمدان سے ہو یا خواہ لاہور سے۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
روزی‌ست خوش و هوا نه گرم است و نه سرد
ابر از رخ گلزار همی‌شوید گرد
بلبل به زبان حال خود با گل زرد
فریاد همی‌کند که می باید خورد
خیام

کیا خوب ہے دن، دھوپ نہ ہے کچھ سردی
پڑتے ہی بھَرن باغ کی سب گرد دھلی
مرجھائے ہوے پھول پہ بلبل کی چہک
کس جوش سے کہتی ہے کہ مے پی مے پی
ترجمہ: آغا شاعر قزلباش
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
سرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معمّا نہ تو خوانی و نہ من
ھست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من


(عمر خیام)

اسرارِ ازل نہ تو جانتا ہے اور نہ میں، یہ حروفِ معما نہ تو نے پڑھے ہیں اور نہ میں نے، میری اور تیری گفتگو تو بس پردے کے پیچھے سے ہے، جب پردہ گرے گا (اٹھے گا) تو نہ تو رہے گا اور نہ میں۔

ایک دوار تھا ایسا جس کی کوئی کنجی مل نہ سکی
ایک دوار تھا ایسا جس کے پار نہ آنکھوں نے دیکھا
ایک ہی پل کی بات وہاں تھی، بات چلی تیری میری
پل جب بیت گیا تو دیکھا تُو بھی نہ تھی اور میں بھی نہ تھا
ترجمہ: میرا جی

اس رباعی کو عموماً عمر خیام سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن گنجور کے مطابق یہ رباعی ابوسعید ابوالخیر کی ہے۔ [ربط]
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک دوار تھا ایسا جس کی کوئی کنجی مل نہ سکی
ایک دوار تھا ایسا جس کے پار نہ آنکھوں نے دیکھا
ایک ہی پل کی بات وہاں تھی، بات چلی تیری میری
پل جب بیت گیا تو دیکھا تُو بھی نہ تھی اور میں بھی نہ تھا
ترجمہ: میرا جی

اس رباعی کو عموماً عمر خیام سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن گنجور کے مطابق یہ رباعی ابوسعید ابوالخیر کی ہے۔ [ربط]
جی درست فرمایا آپ نے، میں نے بھی گنجور ہی پر اسے شیخ سے منسوب دیکھا ہے ورنہ مدتوں سے تو خیام ہی کے نام سے مشہور ہے۔ اور میرا جی نے بھی خیام ہی کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔

میرا جی کے تراجم کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے براہِ راست فارسی کی بجائے، فارسی کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ کیا ہے لیکن بہرحال اُس انگریز نے بھی اسے خیام کی رباعی سمجھا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایک دوار تھا ایسا جس کی کوئی کنجی مل نہ سکی
ایک دوار تھا ایسا جس کے پار نہ آنکھوں نے دیکھا
ایک ہی پل کی بات وہاں تھی، بات چلی تیری میری
پل جب بیت گیا تو دیکھا تُو بھی نہ تھی اور میں بھی نہ تھا
ترجمہ: میرا جی

اس رباعی کو عموماً عمر خیام سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن گنجور کے مطابق یہ رباعی ابوسعید ابوالخیر کی ہے۔ [ربط]
خیام کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُس سے منسوب رباعیات میں سے صرف چودہ پندہ رباعیوں ہی کا انتساب قطعی اور مسلّم ہے۔ باقی ساری رباعیات مشکوک ہیں اور اُنہیں دیگروں سے بھی منسوب کیا جاتا رہا ہے۔

ابوسعید ابوالخیر کی رباعیوں میں سے بھی بعض رباعیاں دیگر شاعروں سے منسوب ملتی ہیں۔

اِسی گنجور پر صادق ہدایت کی کتاب 'ترانہ ہائے خیام' موجود ہے، اور اُس میں اِس رباعی کو عمر خیام سے منسوب کیا گیا ہے:
http://ganjoor.net/khayyam/tarane/tkh1/sh7/
 
آخری تدوین:
Top