خشتِ اول چوں نہد معمار کجحسان بھائی! ذیلی شعر کے ترجمہ سے مطلع فرمائیں تو نوازش ہو گی۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مرَود معمار کج
نہد، مصدر نہادن سے فعل حال صیغہ غائب واحد ہے۔ اور نہادن کا مطلب رکھنا وغیرہ ہے۔اردو میں بھی نام نہاد مستعمل ہے۔خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔
ویسے نہد کس فعل سے مصدر ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے معنی یہاں لگانے کے ہی ہوں گے۔
تو نے مجھ سے میری بے چینی کے جرم کی پاداش میں کنارہ کر لیا۔ اب میری خاک پر آ اور دیکھ کہ میں آرام کر رہا ہوں۔ز من بہ جرمِ تپیدن کنارہ می کردی
بیا بہ خاکِ من و آرمیدنم بنگر
مرزا نوشہ
اردو ترجمہ مطلوب ہے۔۔۔۔ شکریہ
یہ شعر تو معلوم نہیں کس کا ہے، لیکن صائب تبریزی کا یہ شعر دیکھیے:حسان بھائی! ذیلی شعر کے ترجمہ سے مطلع فرمائیں تو نوازش ہو گی۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مرَود معمار کج
'گُذاشتن' کا بھی ایک معنی 'رکھنا' ہے۔چون گذارد خشتِ اول بر زمین معمار کج
گر رساند بر فلک، باشد همان دیوار کج
(صائب تبریزی)
جب زمین پر معمار پہلی اینٹ (یعنی بنیاد) ہی کج رکھے تو پھر وہ خواہ دیوار کو آسمان تک لے جائے، وہ کج ہی رہتی ہے۔
بہت شکریہ محترمتو نے مجھ سے میری بے چینی کے جرم کی پاداش میں کنارہ کر لیا۔ اب میری خاک پر آ اور دیکھ کہ میں آرام کر رہا ہوں۔
(ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے)
سرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معمّا نہ تو خوانی و نہ من
ھست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من
(عمر خیام)
اسرارِ ازل نہ تو جانتا ہے اور نہ میں، یہ حروفِ معما نہ تو نے پڑھے ہیں اور نہ میں نے، میری اور تیری گفتگو تو بس پردے کے پیچھے سے ہے، جب پردہ گرے گا (اٹھے گا) تو نہ تو رہے گا اور نہ میں۔
جی درست فرمایا آپ نے، میں نے بھی گنجور ہی پر اسے شیخ سے منسوب دیکھا ہے ورنہ مدتوں سے تو خیام ہی کے نام سے مشہور ہے۔ اور میرا جی نے بھی خیام ہی کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ایک دوار تھا ایسا جس کی کوئی کنجی مل نہ سکی
ایک دوار تھا ایسا جس کے پار نہ آنکھوں نے دیکھا
ایک ہی پل کی بات وہاں تھی، بات چلی تیری میری
پل جب بیت گیا تو دیکھا تُو بھی نہ تھی اور میں بھی نہ تھا
ترجمہ: میرا جی
اس رباعی کو عموماً عمر خیام سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن گنجور کے مطابق یہ رباعی ابوسعید ابوالخیر کی ہے۔ [ربط]
خیام کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُس سے منسوب رباعیات میں سے صرف چودہ پندہ رباعیوں ہی کا انتساب قطعی اور مسلّم ہے۔ باقی ساری رباعیات مشکوک ہیں اور اُنہیں دیگروں سے بھی منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ایک دوار تھا ایسا جس کی کوئی کنجی مل نہ سکی
ایک دوار تھا ایسا جس کے پار نہ آنکھوں نے دیکھا
ایک ہی پل کی بات وہاں تھی، بات چلی تیری میری
پل جب بیت گیا تو دیکھا تُو بھی نہ تھی اور میں بھی نہ تھا
ترجمہ: میرا جی
اس رباعی کو عموماً عمر خیام سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن گنجور کے مطابق یہ رباعی ابوسعید ابوالخیر کی ہے۔ [ربط]