محمد وارث بھائیاز کوئے تو چوں باد برآشُفتم و رَفتم
گردے ز دلِ مدعیاں رُفتم و رَفتم
بابا فغانی شیرازی
تیرے کوچے سے میں ہوا کی طرح مضطرب و پریشان اُٹھا اور چلا گیا اور تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے گرد اُڑا کر اُن کو صاف کیا اور چلا گیا۔
واہ!! بہت خوب!!میخلی روز و شب اندر دلِ آزردهٔ من
به چه مشغول شوم کز تو فراموش کنم؟
(امیر خسرو دهلوی)
تم روز و شب میرے دلِ آزردہ میں چبھتے ہو۔۔۔۔ میں کس چیز میں مشغول ہوؤں کہ تمہیں فراموش کر دوں؟
فارسی شعر کا لفظاً لفظاً معنی لکھنا وقت طلب کام ہے، اور یہاں ہر شعر کا ایسا ترجمہ کرنا شاید کسی کے لیے ممکن نہ ہو۔محمد وارث بھائی
اس میں ساتھ ساتھ لفظاً معنی بھی لکھ دیا کریں جیسے ایک اور لڑی میں ہے تو زیادو فائدہ مند رہے گا ہمارے لئے۔۔
واہ ۔ کیا بات ہے ۔مقصودِ ما ز دیر و حرم جز حبیب نیست
ہر جا کنیم سجدہ بدان آستان رسد
ہمارا مقصود دیر و حرم سے حبیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم جہاں بھی سجدہ کریں اسی آستاں پر پہنچتا ہے۔
مرزا غالب
کیا بات ہے بہت خوب تشبیہات تو کمال ہیں۔۔چنان وصلِ تو میخواهم، که پیری نوجوانی را
چنانت آرزومندم، که هر کس بختِ کامل را
(لایق شیرعلی)
میں تمہارا وصل اِس طرح چاہتا ہوں جس طرح کوئی پیر نوجوانی چاہتا ہے؛ میں تمہارا اِس طرح آرزومند ہوں جس طرح ہر شخص بختِ کامل کا آرزومند ہوتا ہے۔
× پِیر = بوڑھا
گوشہ نشینی چھوڑ ۔۔۔چراغ شب تاریک بننے کی بات کیجئے۔۔جائیکہ کند جلوہ گری زاغ چو طاؤس
اہلی تو چو سیمرغ برو گوشہ نشیں باش
اہلی شیرازی
اُس جگہ کہ جہاں کوے موروں کی طرح جلوہ گری کرتے ہیں، اہلی تو سیمرغ کی طرح وہاں سے چلا جا اور گوشہ نشیں ہو جا۔
بہت خوب ۔۔۔تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے ۔۔۔۔کمال ۔۔۔از کوئے تو چوں باد برآشُفتم و رَفتم
گردے ز دلِ مدعیاں رُفتم و رَفتم
بابا فغانی شیرازی
تیرے کوچے سے میں ہوا کی طرح مضطرب و پریشان اُٹھا اور چلا گیا اور تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے گرد اُڑا کر اُن کو صاف کیا اور چلا گیا۔
تاکہ تم اپنی چشم سے اپنے دیدار کو دور رکھتےصائب تبریزی کے اس شعر کے آخری مصرعے کا ترجمہ کیسے ہوگا؟
کاش مے دیدی بہ چشمِ عاشقان رخسارِ خویش
تا دریغ از چشمِ خود مے داشتی دیدارِ خویش