طالب سحر

محفلین
امشب تو را بہ خوبی نسبت بہ ماہ کردم
تو خوب تر ز ماہی، من اشتباہ کردم
(فروغ بسطامی)

امشب تجھے حسن میں ماہتاب کی طرف منسوب کیا،(بلکہ) تو ماہتاب سے خوب تر ہے،میں نے شک کیا۔
میرا خیال ہے کہ یہاں "اشتباہ" کا ترجمہ "غلطی" ہونا چاہیے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
'اشتباہ' پر گفتگو سے یہ شعر یاد آ گیا:
گذار آرد مهِ من گاه گاه از اشتباه اینجا
فدای اشتباهی کآرد او را گاہ گاہ اینجا
(محمد حسین شهریار تبریزی)

میرا چاند (یعنی میرا محبوب) غلطی سے کبھی کبھار ادھر سے گزر جاتا ہے، میں اُس کی اِس غلطی پر فدا جو اُسے کبھی کبھار ادھر لے آتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای که قصدِ هلاکِ من داری
صبر کن تا ببینمت نظری
(سعدی شیرازی)

اے تم کہ میری ہلاکت کا قصد رکھتے ہو۔۔۔ (ذرا) صبر کرو تا میں تمہیں ایک نظر دیکھ لوں۔
 
اگر عمرے گنہ کردی مشو نومید از رحمت
تو توبہ نامہ را بنویس، امضاء کردنش با من
(محمد حسن فرحبخشیان)

اگر تو نے ایک عمر تک گناہ کیے تو رحمت سے ناامید مت ہو۔تو توبہ نامہ لکھ، دستخط کرنا میرے ذمے ہے۔
 
خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی بھی فارسی شاعر تھے۔ ذیل میں ان کا ایک فارسی شعر مجھے دستیاب ہوا ہے۔
(شعر میں بیان شدہ خیال سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔میں نے یہاں صرف انہیں بطورِ فارسی شاعر پیش کرنے کے لئے یہ شعر لکھا ہے۔)

راہے کہ بمنزل نہ رساند کفر است
طاعت کہ حکومت نہ دہاند کفر است
ہر عسر کہ لیسرس نہ ہویداست خطا است
اسلام کہ غالب نہ کناند کفر است
(علامہ عنایت اللہ مشرقی)

ترجمہ: وہ راہ جو منزل تک نہ پہنچائے کفر ہے
وہ اطاعت جو حکومت نہ دلوائے کفر ہے
وہ مشکل جس کے ساتھ آسانی ظاہر نہ ہو ،وہ خطا ہے
وہ اسلام جو غلبہ نہ دلوائے وہ کفر ہے
 
آخری تدوین:
خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی بھی فارسی شاعر تھے۔ ذیل میں ان کا ایک فارسی شعر مجھے دستیاب ہوا ہے۔
(شعر میں بیان شدہ خیال سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔میں نے یہاں صرف انہیں بطورِ فارسی شاعر پیش کرنے کے لئے یہ شعر لکھا ہے۔)

راہے کہ بمنزل نہ رساند کفر است
طاعت کہ حکومت نہ دہاند کفر است
ہر عسر کہ لیسرس نہ ہویداست خطا است
اسلام کہ غالب نہ کناند کفر است
(علامہ عنایت اللہ مشرقی)

ترجمہ: وہ راہ جو منزل تک نہ پہنچائے کفر ہے
وہ اطاعت جو حکومت نہ دلوائے کفر ہے
وہ مشکل جس کے ساتھ آسانی ظاہر نہ ہو ،وہ خطا ہے
وہ اسلام جو غلبہ نہ دلوائے وہ کفر ہے
خاکساری پھر شاید اسی پر عمل پیرا تھے، اور آخر کفر است کی نظر ہی ہو گے لگتا۔ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
درستگی کا انتہائی سپاس گزار ہوں۔دراصل مجھے یہ لفظ "مشتبہ"سے متعلق لگا۔
اشتباہ کا مادہ اسی ہی سے ہے یعنی شبہ یا مشتبہ اور اردو میں بالکل انہی معنوں میں مستعمل ہے اور اردو میں شاید ہی اشتباہ غلطی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہو، لیکن جیسا کہ لغت اور اشعار سے معلوم ہوا فارسی میں یہ غلطی اور سہو کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
غالب سے منسوب ایک شعرجس کا حوالہ رشید احمد صدیقی نے مجروح سلطانپوری پر اپنے ایک مضمون میں دیا تھا:

پیمانه بر آن رند حرام است که غالب
در بے خودی اندازہء گفتار نه داند

غالب، اُس رند پر پیمانہ حرام ہے جو بے خودی میں گفتگو کا انداز نہ جانے۔

(بیدار بخت کی کتاب "لغزشِ رفتارِ خامہ" سے)
 
بہ زیورہا بیارایند مردم خوبرویان را
تو سیمین تن چنان خوبی کہ زیورہا بیارائی

(شیخ سعدی شیرازیؒ)
لوگ خوبروؤں کو زیور سے آراستہ کرتے ہیں، لیکن تو سیمیں تن اس قدر زیبا ہے کہ تو زیور کو آراستہ کردیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
غالب سے منسوب ایک شعرجس کا حوالہ رشید احمد صدیقی نے مجروح سلطانپوری پر اپنے ایک مضمون میں دیا تھا:

پیمانه بر آن رند حرام است که غالب
در بے خودی اندازہء گفتار نه داند

غالب، اُس رند پر پیمانہ حرام ہے جو بے خودی میں گفتگو کا انداز نہ جانے۔

(بیدار بخت کی کتاب "لغزشِ رفتارِ خامہ" سے)
فارسی زبان میں 'اندازہ' مقدار، مقیاس، حد، پیمانہ، پیمائش وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
یہاں شاید غالب کہنا چاہ رہے ہیں کہ اُس رند پر پیمانہ حرام ہے جو بے خودی میں گفتار کی مناسب حد نہ جانتا ہو۔
 
بہرِ طاعت ہر کسے را ہست رو در قبلہء
قبلہء من کوشہء محرابِ ابروئے تو بس

(فضولی بغدادی)
اطاعت کے لئے ہر کسی کا چہرہ کسی قبلے کی طرف ہوتا ہے۔میرا قبلہ بس تیرے ابروؤں کا گوشہء محراب ہی ہے۔
 
گر سینہ شکافم دلِ صد پارہ نماید
چون غنچہ چرا فاش کنم حالِ دلِ خویش

اگر سینے کو شق کروں تو دلِ صد پارہ نمودار ہوگا۔میں غنچے کی طرح اپنے حالِ دل کو ظاہر کیوں کروں؟
بربود دل و دینِ من آن غمزہ، فضولی
فریاد ز بے باکیِ آن کافرِ بدکیش

(فضولی بغدادی)
میرا دل و دین وہ غمزہ لےلوٹا،فضولی! اس بےدین کافر کی بےباکی سے فریاد!
 

محمد وارث

لائبریرین
گفتی ترا چہ سوز و چہ شور است در سماع
ایں زاں سوالہاست کہ آنرا جواب نیست


امیر حسن سجزی دہلوی

تُو نے پوچھا کہ تجھے سماع (موسیقی) میں کیا سوز اور کیا وجدان و مستی ملتی ہے، (تیرا) یہ سوال بھی اُن بہت سے سوالوں میں سے ہے کہ جن کا کوئی جواب نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حُسنِ عالم‌سوز را مشّاطه‌ای درکار نیست
گرم دارد از فروغِ خود گهر بازارِ خویش
(صائب تبریزی)

حُسنِ عالم سوز کو کوئی مشّاطہ درکار نہیں ہوتی؛ گوہر اپنی تابش سے اپنا بازار گرم رکھتا ہے۔
× مَشّاطہ = آرائش گر عورت
 

طالب سحر

محفلین
فارسی زبان میں 'اندازہ' مقدار، مقیاس، حد، پیمانہ، پیمائش وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
یہاں شاید غالب کہنا چاہ رہے ہیں کہ اُس رند پر پیمانہ حرام ہے جو بے خودی میں گفتار کی مناسب حد نہ جانتا ہو۔
آپ کی بات درست ہے کیونکہ اردو میں "انداز" کے بنیادی معنی طریقہ، وضع (علمی اردو لغت) اور طرز، ڈھنگ، طَور(نور اللغات) ہیں اور "گفتگو کا انداز" سے خیال اسی طرف جاتا یے۔ تاہم دونوں لغات میں "انداز" کے جو دیگر معنی دیے گئے ہیں اُن میں یہ بھی شامل ہیں: قیاس، اندازہ، تخمینہ؛ پیمانہ؛ اعتدال۔ نوراللغات سے دو اسناد:

ملتی ہو اگر وضع کسی سے تو بتاؤں
انداز میں آتا نہیں انداز تمہارا
-- منیر

اور

رنج ہے عشق میں انداز سے باہر ناسخ
 

حسان خان

لائبریرین
بُتا، تا جدا گشتم از روی تو
کراشیده و تیره شد کارِ من
(آغاجی بخاری)

اے بت! جیسے ہی میں تمہارے چہرے سے جدا ہوا، میرے اعمال و احوال آشفتہ اور تاریک ہو گئے۔
 
آخری تدوین:
Top