اضافت کے بغیر شعر بحر سے خارج ہو جائے گا۔گوہرِ پاک بباید کہ شود قابلِ فیض
ورنہ ہر سنگ و گِلے لؤلؤ و مرجان نشود
(حافظ شیرازی)
قاضی سجاد حسین نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
فیض کے قابل ہونے کے لئے پاک جوہر چاہیے ورنہ ہر پتھر اور مٹی، موتی اور مونگا نہیں ہوتا۔
ایک افغان دوست نے اس بارے میں کہا کہ یہاں گوہرِ پاک میں مرکبِ توصیفی اور اضافت مستعمل نہیں ہے، بلکہ یہ اصل میں گوہر پاک بباید ہے، یعنے گوہر کو پاک ہونا چاہیے۔ آپ حضرات سے اس بارے میں راہ نمائی چاہوں گا۔
میرے خیال میں یہاں دست خط، معروف موجودہ اردو معنوں یعنی Signature میں نہیں بلکہ اصل معنوں یعنی ہاتھ کی تحریر ہے یعنی چاہے خط میں دشنام ہی ہیں لیکن تحریر تو اُسی کے ہاتھ کی ہے۔فرقے نمے کند چہ برایم نوشتہ دوست
دشنام دادہ است، ولے دستخطِ اوست
(فاضل نظری)
کچھ فرق نہیں پڑتا کہ دوست نے میرے لئے کیا لکھا ہے۔اس نے دشنام دی ہے لیکن (اِس پر) اُس کا دستخط ہے۔
بہت شکریہ وارث بھائی۔ ویسے تحریری فارسی میں میں نے "دستخط" کے لئے "امضاء کردن" پڑھا ہے۔ شاید فارسی میں دستخط کے لئے یہی ترکیب استعمال ہوتی ہو۔میرے خیال میں یہاں دست خط، معروف موجودہ اردو معنوں یعنی Signature میں نہیں بلکہ اصل معنوں یعنی ہاتھ کی تحریر ہے یعنی چاہے خط میں دشنام ہی ہیں لیکن تحریر تو اُسی کے ہاتھ کی ہے۔
آپ لغت نامہ دھخدا بھی دیکھیے اسی سلسلے میں: دست نوشت، چیزے کہ بدست نوشتہ باشند، آنچہ کسی بات دستِ خود نویسد۔ یقینا امضا بھی ایک مطلب ہے، لیکن شعر کہ سیاق میں مجھے پہلے والا معنی بہتر لگےبہت شکریہ وارث بھائی۔ ویسے تحریری فارسی میں میں نے "دستخط" کے لئے "امضاء کردن" پڑھا ہے۔ شاید فارسی میں دستخط کے لئے یہی ترکیب استعمال ہوتی ہو۔
(اے) صنم کہ مجھے اپنے دین و دل پر اعتماد نہیں ہےصنم کہ بر دل و دین خود اعتمادم نیست
بہ نیم غمزدہ ہم این را ربائے وہم آں را
میرزا کے اس شعر کے معانی درکار ہیں
شکریہ