محمد وارث

لائبریرین
برائے خاطرِ بیگانگاں خطا کردی
کہ ترکِ صحبتِ یارانِ آشنا کردی


تُو نے بیگانوں کی خاطر (خاطرِ طبع) کیلیئے خطا کی کہ یارانِ آشنا کی صحبت ترک کر دی۔


خُوشَم کہ ذوقِ شکارَم نرَفت از دلِ تو
ہزار بار مرا بستی و رہا کردی


میں خوش ہوں کہ میرے شکار کا ذوق تیرے دل سے نہیں گیا کہ ہزار بار تو نے مجھے قید کیا اور ہزار بار رہا۔

(عاشق اصفہانی)
 

محمد وارث

لائبریرین
اے چرخ چہ فردا و چہ دیروز کہ از ہجر
در خانۂ ما گردشِ شام و سحرے نیست


اے آسمان کیا آنے والا کل اور کیا گزرا ہوا کل (کیا مستقبل اور کیا ماضی) کہ ہجر (کی وجہ) سے، ہمارے گھر میں شام و سحر کی گردش ہی نہیں ہے۔ (ہجر میں وقت تھم گیا ہے)


از گریہ چہ حالِ تو زبوں است تبسّم
اے کاش بدانی کہ فغاں را اثرے نیست


تبسم، گریہ سے تُو نے اپنا کیا برا حال بنا رکھا ہے، کاش کہ تو جانتا کہ (آہ و) فغاں میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔

(صوفی غلام مصطفٰی تبسّم)

بحوالہ 'فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ' از ڈاکٹر محمد ریاض و ڈاکٹر صدیق شبلی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل است
صراحیٔ مےِ ناب و سفینۂ غزل است


(حافظ شیرازی)

اس زمانے میں اگر کوئی ساتھی خلل کے بغیر ہے (نقصان دہ نہیں ہے) تو وہ خالص شراب کی صراحی اور غزلوں کی کتاب ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گرفتَم سہل سوزِ عشق را اوّل، نَدانَستَم
کہ صد دریاے آتش از شرارے می ‌شوَد پیدا


میں نے اوّل اوّل سوزِ عشق کو آسان جانا لیکن یہ نہ جانا کہ (اس ایک) شرارے (چنگاری) سے آگ کے سو سو دریا جنم لیتے ہیں۔


من آں وحشی غزَالَم دامنِ صحراے امکاں را
کہ می‌ لرزَم ز ہر جانب غبارے می ‌شوَد پیدا


میں وہ وحشی (رم خوردہ) ہرن ہوں کہ صحرائے امکان میں کسی بھی جانب غبار پیدا ہو (نظر آئے) تو لرز لرز جاتا ہوں۔

(صائب تبریزی)
 

الف نظامی

لائبریرین
دل صید عشق است محکوم کس نیست
الحکم للہ و الملک للہ
(مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی)
دل عشق کا شکار ہے کسی کا محکوم نہیں
اللہ کی زمین پر اللہ کا حکم
 

محمد وارث

لائبریرین
نگارا اوّلیں گامے کہ بر دارم بہ ہر راہم
ترا گویم، ترا پویم، ترا جویم، ترا خواہم


(محمد رضا عشقی)

اے میرے محبوب، میں کسی بھی راہ پر جب بھی پہلا قدم اٹھاتا ہوں، تو تیری گفتگو کرتے ہوئے، تری تلاش کرتے ہوئے، تری جستجو کرتے ہوئے، تری چاہت میں ہی اٹھاتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قصّۂ عاشقی مگو اے دل
بگذار ایں خصوص را بعموم


(اے دل عاشقی کا قصہ مت کہہ، اس خاص ترین بات کو عمومی طور پر (سرسری) گزار دے۔

فیضی اسرارِ عشق را ھر گز
نتواں یافتن بکسبِ علوم


فیضی، عشق کے اسرار ہر گز (فقط) علوم میں مہارت سے نہیں ملتے (کھلتے)

(شیخ ابوالفیض فیضی)
 

محمد وارث

لائبریرین
زاہدا عرفاں بدلق و سُبحہ و مسواک نیست
عشق پیدا کن کہ اینہا داخلِ ادراک نیست


(غزالی مشہدی)

اے زاہد، عرفان، گدڑی، تسبیح اور مسواک نہیں ہے، (اس کے لیے تو) عشق پیدا کر کہ یہ (عرفان) داخلِ ادراک نہیں ہے (اس جگہ ادراک کا کوئی دخل نہیں ہے۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
نگویم بہرِ تشریفِ قدومت خانۂ دارم
غریبم، خاکسارم، گوشۂ ویرانۂ دارم


(فنائی)

میں نہیں کہتا کہ میرے پاس آپ کی تشریف آوری کیلیئے (آپ کے شایانِ شان) خانہ ہے، غریب ہوں، خاکسار ہوں، اور (فقط) ویرانے کا گوشہ ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
عرفی تومیندیش زغوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کنند، رزقِ گدارا
(عرفی)
عرفی رقیبوں کے شور و غوغا کا اندیشہ (غم) نہ کر ( کیونکہ) کتوں کی آواز (کتوں کا بھونکنا) گدا (فقیر) کے رزق میں‌ کمی نہیں کر سکتی -

یہ میرے پسندیدہ ترین اشعار میں سے تھا، مگر زندگی کی ٹھوکریں کھا کر ایک دن گہرائی سے غور کیا تو لگا کہ یہ درس صرف دل بہلانے کو ہے۔۔۔۔۔ اور زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ حاسدوں و مخالفوں کی زبانیں ایک پروپیگنڈہ ہے اور جسکا نقصان پہنچانا یقینی امر ہے۔

ہو سکتا ہے کہ مجھ سے اس شعر کا درس سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ میرے پسندیدہ ترین اشعار میں سے تھا، مگر زندگی کی ٹھوکریں کھا کر ایک دن گہرائی سے غور کیا تو لگا کہ یہ درس صرف دل بہلانے کو ہے۔۔۔۔۔ اور زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ حاسدوں و مخالفوں کی زبانیں ایک پروپیگنڈہ ہے اور جسکا نقصان پہنچانا یقینی امر ہے۔

ہو سکتا ہے کہ مجھ سے اس شعر کا درس سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔


شکریہ مہوش علی صاحبہ اس تھریڈ میں تشریف لانے کیلیئے، خوش آمدید!

آپ نے جس رخ کی بات کی ہے اسکے متعلق مرزا صائب تبریزی فرماتے ہیں:

مرا ز روزِ قیامت غمے کہ ھست، اینست
کہ روئے مردُمِ عالم دوبارہ باید دید

(روزِ قیامت کا مجھے جو غم ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے لوگوں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا پڑے گا)
 

محمد وارث

لائبریرین
چہ جرم کردہ ام اے جان و دل بحضرتِ تو
کہ طاعتِ منِ بیدل نمی شوَد مقبول


(اے جان و دل میں نے آپ کی شان میں کیا خطا کی ہے کہ مجھ بیدل کی اطاعت و بندگی بھی مقبول نہیں ہوتی۔)

کُجَا رَوَم، چہ کُنَم، حالِ دل کرا گویم
کہ گشتہ ام ز غم و جورِ روزگار، ملول


(کہاں جاؤں، کیا کروں، حالِ دل کس سے کہوں، کہ میں زمانے کے غم اور ظلم سے ملول ہو گیا ہوں)

بدردِ عشق بساز و خموش شَو حافظ
رموزِ عشق مَکُن فاش پیشِ اہلِ عقول

(اے حافظ، عشق کے درد کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر خاموش ہو جا، عشق کے اسرار و رموز، عقل والوں کے سامنے مت کھول)

(حافظ شیرازی)
 

محمد وارث

لائبریرین
کاھلی کُفر بُوَد در رَوَشِ اھلِ طَلَب
من چرا کارِ خود امروز بہ فردا فگنم


(سالک یزدی)

اہلِ طلب کی روش میں کاہلی کفر ہوتی ہے، ہم اپنا آج کا کام کل پر کیوں ڈالیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صائب تبریزی کی ایک غزل کے کچھ اشعار پیش کر رہا ہوں:

خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما


ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں۔


قطره، گوهر می ‌شود در دامنِ بحرِ کرم
آبروئے خویش در میخانہ می ‌ریزیم ما


قطرہ، بحرِ کرم کے دامن میں گوھر بن جاتا ہے (اسی لیئے) ہم اپنی آبرو مے خانے میں نثار کر رہے ہیں۔


در خطرگاهِ جہاں فکرِ اقامت می ‌کنیم
در گذارِ سیل، رنگِ خانہ می ‌ریزیم ما


اس خطروں والے جہان میں ہم رہنے کی فکر کرتے ہیں، سیلاب کے راستے میں رنگِ خانہ ڈالتے ہیں (گھر بناتے ہیں)۔


در دلِ ما شکوه‌ٔ خونیں نمی ‌گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می‌ ریزیم ما


ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔


انتظارِ قتل، نامردی است در آئینِ عشق
خونِ خود چوں کوهکن مردانہ می ‌ریزیم ما


عشق کے آئین میں قتل ہونے (موت) کا انتظار نامردی ہے، ہم اپنا خون فرہاد کی طرح خود ہی مردانہ وار بہا رہے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ساقی و جامِ مے و گوشۂ دیرست اینجا
للہ الحمد کہ احوال بخیرست اینجا


ساقی ہے، مے کا جام ہے اور بتخانے کا گوشہ ہے، اللہ کا شکر ہے کہ یہاں سب کچھ خیریت سے ہے۔

نکتۂ عشق مپرسید کہ ھوشم باقیست
سخن از یار مگوئید کہ غیرست اینجا


نکتۂ عشق مت پوچھو کہ ابھی ہوش باقی ہیں، ہم یار سے کلام نہیں کریں گے کہ ابھی اس جگہ غیر (ہوش) موجود ہے۔

(ملک الشعراء شیخ ابوالفیض فیضی)
 

محمد وارث

لائبریرین
عالم بہ وجودِ من و تو موجود است
گر موج و حباب نیست، دریا ھم نیست


(ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل)

یہ عالم میرے اور تیرے وجود کی وجہ سے موجود ہے، اگر موج اور بلبلے نہ ہوں تو دریا بھی نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نیک و بدِ زمانہ بیک چشم دیدہ ایم
ما را بسانِ آئنہ با کس خلاف نیست


(محسن فانی)

ہم زمانے کے نیک اور بد کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں، ہم آئینے کی طرح کسی کے بھی خلاف نہیں ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فرصت از کف مدہ و وقت غنیمت پندار
نیست گر صبحِ بہارے شبِ ماہے دریاب

(غالب دھلوی)

فرصت کو ہاتھ سے جانے نہ دے اور وقت کو غنیمت جان اگر بہار کی صبح میسر نہیں تو چاندنی رات ہی سے لطف اندوز ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حق اگر سوزے ندَارَد حکمت است
شعر میگردَد چو سوز از دل گرفت


(اقبال لاھوری)

سچائی میں اگر سوز نہیں ہے تو وہ (فقط عقل و) حکمت ہے، لیکن وہی سچائی جب دل سے سوز حاصل کر لیتی ہے تو شعر بن جاتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سبزہ نوخیز و ہوا خرم و بستان سرسبز
بلبلِ روئے سیہ ماندہ ز گلزار جدا

(امیر خسرو دھلوی)

تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ اور دل خوش کرنے والی ہوا اور سرسبز باغ ہے، اور ایسے میں سیاہ چہرے والی (بد قسمت) بلبل گلزار سے جدا ہونے کو ہے۔
 
Top