الف نظامی

لائبریرین
عشقت نہ سرسری ست کہ از سر بدَر شَوَد
مہرت نہ عارضی ست کہ جائے دگر شود

(تیرا عشق سرسری نہیں ہے کہ ہمارے سر سے نکل جائے گا، تیری محبت عارضی نہیں ہے کہ کسی دوسری جگہ چلی جائے گی)

دردیست دردِ عشق کہ اندر علاجِ او
ہر چند سعی بیش نمائی بَتَر شود

دردِ عشق ایسا درد ہے کہ اسکے علاج میں تو جس قدر زیادہ کوشش کرے گا (حال) بدتر ہو جائے گا۔

حافظ سر از لحد بدر آرد بپائے بوس
گر خاکِ او بپائے شما پے سپر شود

(حافظ پاؤں چومنے کیلیئے اپنا سر قبر سے باہر نکال لے گا، اگر اسکی خاک کبھی آپ کے پاؤں سے پامال ہوگئی)

(حافظ شیرازی)


ارے واہ وا، واہ وا۔ بہت خوب!!!
کششی کہ عشق دارد ، نگذاردت بدین سان
بہ جنازہ گر نیابی ، بہ مزار خواہی آمد
 

محمد وارث

لائبریرین
مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے اپنی شاہکار "کوثر سیریز" کی آخری کتاب "موجِ کوثر" میں سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل کے پانچ اشعار دیے ہیں سو وہ ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

شیخ صاحب نے یہ اشعار سر سید کا مذہبی جوش و ولولہ دکھانے کیلیئے دیئے ہیں اور کیا سچ بات کہی ہے شیخ صاحب نے لیکن شاعرانہ نکتہ نظر سے بھی ان اشعار میں سر سید کا زورِ بیان اور صنعتوں کا کمال دیکھیئے، زور بیانِ میں تو یہ اشعار بڑے بڑے کلاسیکی فارسی اساتذہ کے کلام سے لگا کھاتے ہیں۔


فلاطوں طفلکے باشد بہ یُونانے کہ من دارَم
مسیحا رشک می آرد ز درمانے کہ من دارم


(افلاطون تو ایک بچہ ہے اس یونان کا جو میرا ہے، مسیحا خود رشک کرتا ہے اس درمان پر کہ جو میں رکھتا ہوں)


خُدا دارم دِلے بریاں ز عشقِ مُصطفٰی دارم
ندارَد ھیچ کافر ساز و سامانے کہ من دارم


(میں خدا رکھتا ہوں کہ جلے ہوے دل میں عشقِ مصطفٰی (ص) رکھتا ہوں، کوئی کافر بھی ایسا کچھ ساز و سامان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے)


ز جبریلِ امیں قُرآں بہ پیغامے نمی خواھم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ من دارم


(جبریلِ امین سے پیغام کے ذریعے قرآن کی خواہش نہیں ہے، وہ تو سراسر محبوب (ص) کی گفتار ہے جو قرآن کہ میں رکھتا ہوں)


فلَک یک مطلعِ خورشید دارَد با ہمہ شوکت
ھزاراں ایں چنیں دارد گریبانے کہ من دارم


آسمان اس تمام شان و شوکت کے ساتھ فقط سورج کا ایک مطلع رکھتا ہے جب کہ اس (مطلع خورشید) جیسے ہزاروں میرے گریبان میں ہیں۔


ز بُرہاں تا بہ ایماں سنگ ھا دارَد رہِ واعظ
ندارد ھیچ واعظ ہمچو برہانے کہ من دارم


واعظ کی دلیل و عقل سے ایمان تک کی راہ پتھروں سے بھری پڑی ہے لیکن کوئی واعظ اس جیسی برہان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے۔

(سر سید احمد خان)
 

محمد وارث

لائبریرین
خنجر بمیاں، تیغ بکف، چیں بہ جبیں باش
خوں ریز و جفا پیشہ کن و بر سرِ کِیں باش


(آتشی قندھاری)

خنجر میان میں، تلوار ہاتھ میں، اور پیشانی پر تیوریاں ڈال، خون بہانے والا اور جفا کار بن (اور ان سب تیاریوں کے بعد) کِیں (بغض، کینہ، عداوت) سے بر سرِ پیکار ہو جا (جنگ کر)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خفتگانِ خاک یکسر کشتۂ تیغِ تو اند
ہیچ دخلی نیست شمشیرِ اجل را درمیاں


(غزالی مشہدی)

خاک میں سوئے ہوئے، سراسر تیری ہی تلوار کے مارے ہوئے ہیں (تیرے ناز کے مارے ہوئے ہیں)، اس میں موت کی شمشیر کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شوریست عَجَب در سَرَم از جامِ محبّت
سرمستم و جز نعرۂ مستانہ ندارَم


میرے سر میں جامِ محبت سے عجب خمار ہے کہ (ہر وقت) سر مست ہوں اور مستانہ نعرے کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتا (کرتا)۔

فیضی ز غم و شادیِ عالم خَبَرے نیست
شادَم کہ بَدِل جز غمِ جانانہ ندارَم

فیضی، مجھے دنیا کے غم و خوشی کی کوئی خبر نہیں ہے، میں (اسی میں) خوش ہوں کہ دل میں غمِ جاناں کے سوا اور کچھ نہیں رکھتا۔

(ملک الشعراء ابوالفیض فیضی)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اُمیدِ وصلِ تو نگذاشت تا دہَم جاں را
وگرنہ روزِ فراقِ تو مُردن آساں بُود


(امیر قاضی اسیری)

تیرے وصل کی امید (دل سے) نہ گئی کہ میں جان دے دیتا، وگرنہ تیری جدائی والے دن مرنا تو بہت آسان تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقتِ ما کافری ست رنجیدن


ہم وفا کرتے ہیں، ملامت سہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں کہ ہماری طریقت میں رنجیدہ ہونا کفر ہے۔


بہ پیرِ میکدہ گفتم کہ چیست راہِ نجات
بخواست جامِ مے و گفت بادہ نوشیدن


میں نے پیرِ میکدہ سے پوچھا کہ راہ نجات کیا ہے، اس نے جامِ مے منگوایا اور کہا مے پینا۔


مَبوس جُز لبِ معشوق و جامِ مے حافظ
کہ دستِ زہد فروشاں خطاست بوسیدن


اے حافظ محبوب کے لب اور مے کے جام کے سوا کسی کا بوسہ نہ لے کہ پارسائی بیچنے والے زاہدوں کا ہاتھ چومنا خطا ہے۔

(حافظ شیرازی)
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

در دل ہوسِ گناہ و بر لَب توبہ
در صحّت مے خوری و در تَپ توبہ
ہر روز شکستن است، ہر شب توبہ
زیں توبۂ نا درست، یا رب توبہ


دل میں تو ہوسِ گناہ ہے اور لب پر توبہ ہے، تندرستی میں تو مے خوری کرتا ہوں اور بیماری میں توبہ، ہر روز توبہ توڑتا ہوں اور ہر رات توبہ کرتا ہوں، ایسی نا درست توبہ سے یا رب میری توبہ۔

(شاعر: نا معلوم)

یہ رباعی دورِ اکبری کے مؤرخ، ملا عبدالقادر بدایونی کی کتاب 'نجات الرشید' سے حاصل کی ہے جنہوں نے شاعر کا نام نہیں لکھا۔ میں نے تخریج کی کوشش ضرور کی لیکن شاعر کا علم نہیں ہو سکا۔ خیام کی ایک رباعی اسی زمین میں ضرور ملی لیکن بہرحال وہ اس رباعی سے مختلف ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سنگِ میزانِ پشیمانی اگر نیست سَبُک
جرم ھر چند گراں است خدا می بخشَد


(محتشم کاشی)

اگر پشیمانی کے ترازو کا (تولنے والا) پتھر ہلکا نہیں ہے ( اگر پشیمانی کا پلڑا بھاری ہے) تو جرم (گناہ) کتنا ہی بھاری (بڑا) کیوں نہ ہو، خدا بخش دیتا ہے (بخشنے والا ھے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وعلیکم السلام فرحت

جی ضرور پیش کیجیئے اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی۔

جہاں تک ترجمے کی بات ہے تو مجھے فارسی بالکل بھی نہیں آتی کہ ترجمہ کر سکوں :) لیکن بہرحال مقدرو بھر کوشش ضرور کرونگا۔

اس سلسلے میں شاکر القادری صاحب بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں کہ فارسی پر کامل دسترس رکھتے ہیں۔
 

گرو جی

محفلین
ویسے میرے پاس ایک فارسی کلام ہے حضرت مولانا روم کا وہ آپ سب کی پیش خدمت


تو کریمی، من کمینہ بردہ عم،
لیکں از لطف شمار پروردہ عم
زندگی آمد، برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
یاد اے او سرمایہ ایماں بو ند
ھر جگہ، از یاد او سلطاں بوند
سید و سرور محمد(صلی اللا علیہ وسلم) نور جاں
معتر او بھتر شفیع مجرمان
چوں محمد(صلی اللا علیہ وسلم) پاک شد از نار او دود
ھر کجا روح کرد وج اوللا بود
شھباز لاماکانی جان او
رحمت لل عالعمیں در شان او
معترین او بھترین انبیاہ
جز محمد(صلی اللا علیہ وسلم) نیست در ارض و سماں
آں محمد(صلی اللا علیہ وسلم) حامر او محمود شد
شکل عابد،صورت معبود شد
اولیاہ، اللا ہ اللا اولیاہ،
یعنی دید پیر، دید کبریاہ
ھرکہ پیر او زات حق راہ یک نہ دید
نے مرید او نے مرید او نے مرید
مولوی ھر گز نہ شر مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
 

گرو جی

محفلین
اس کلام میں غلطیوں‌کی گنجائش ہو گی کیوں کہ مجھے عبور نہیں‌ہے اس زبان پر لہذا پیشگی معذرت
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وعلیکم السلام فرحت

جی ضرور پیش کیجیئے اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی۔

جہاں تک ترجمے کی بات ہے تو مجھے فارسی بالکل بھی نہیں آتی کہ ترجمہ کر سکوں :) لیکن بہرحال مقدرو بھر کوشش ضرور کرونگا۔

اس سلسلے میں شاکر القادری صاحب بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں کہ فارسی پر کامل دسترس رکھتے ہیں۔

بہت شکریہ وارث۔۔۔ پڑھتے ہوئے ویسے تو اندازے سے ہی سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن مجھے خیال آیا کہ یہاں پوسٹ کر کے آپ سے مدد لی جائے۔ اور شاکرالقادری صاحب سے بھی درخواست ہے اگر وہ تھوڑا سا وقت نکال سکیں۔ میری ایک بڑی مشکل حل ہو جائے گی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
با کہ گویم سرِ ایں معنی نورِ روئے دوست
با دماغِ من گل و با چشمِ موسےٰ آتشست
(عرفی)

۔۔۔۔۔۔

مصلحت دید من آں است کہ یاراں ہمہ کار
بگزارند و خمِ طرہء یارے گیرند

۔۔۔۔۔۔


نہ ہر کہ طرف کلاہ کج نہاد و تند نشست
کلاہ داری و آئین سروری داند

۔۔۔۔۔۔


با خونِ صد شہید مقابل نہادہ اند
عمری کہ مابآتش افسانہ سوختیم

(عرفی)

۔۔۔۔۔۔


دیدہء سعدی و دل ہمراہِ تست
تا نہ پنداری کہ تنہا می روی
۔۔۔۔۔۔

خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است

۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است

یہ شعر حافظ شیرازی کا ہے،

خلل پذیر (خراب ہونے والی) ہے ہر وہ بنیاد جو کہ تو دیکھ رہا ہے مگر صرف محبت کی بنیاد کہ کے وہ خلل سے خالی ہے۔


باقی اشعار بھی میں دیکھتا ہوں انشاءاللہ۔

 

محمد وارث

لائبریرین
دیدہء سعدی و دل ہمراہِ تست
نانہ پنداری کہ تنہا می روی

میرے خیال میں دوسرے مصرعہ میں 'نانہ' کی جگہ 'تا نہ' ھے، بہرحال

سعدی کے دیدہ و دل تیرے ہمراہ ہیں، تا کہ تجھے یہ خیال نہ آئے (تو یہ نہ سوچے) کہ تُو تنہا جا رہا ہے (تنہا ہے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ ہر کہ طرف کلاہ کج نہاد و تند نشست
کلاہ داری و آئین سروری داند

ہر وہ جس نے اپنے کلاہ کو ٹیڑھا کیا ہے اور طمطراق سے براجمان ھے، ضروری نہیں کہ اس کا کلاہ امتیازی بھی ہو اور سرداری کے طور طریقے (آئین) بھی جانتا ہو (کلاہ ٹیڑھا کرنا اور فخر سے تخت پر بیٹھنا اس کو سزا وار ہے جو کوئی امتیاز رکھتا ہو اور دلوں پر حکومت کرنے کا فن بھی جانتا ہو)۔

شاعر کے نام کا علم نہیں ہوسکا، اندازِ بیاں اور سیاق و سباق سے اقبال یا سبک ہندی کے کسی شاعر کا لگتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
صد سنگ شد آئینہ و صد قطرہ گہر بست
افسوس ھماں خانہ خرابست دل ما
سینکڑوں پتھر آئینہ اور سینکٹروں قطرے موتی بن گئے ، افسوس کہ ابھی تک میرے دل کا خانہ خراب ہے۔
ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی
 
Top