مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے اپنی شاہکار "کوثر سیریز" کی آخری کتاب "موجِ کوثر" میں سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل کے پانچ اشعار دیے ہیں سو وہ ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
شیخ صاحب نے یہ اشعار سر سید کا مذہبی جوش و ولولہ دکھانے کیلیئے دیئے ہیں اور کیا سچ بات کہی ہے شیخ صاحب نے لیکن شاعرانہ نکتہ نظر سے بھی ان اشعار میں سر سید کا زورِ بیان اور صنعتوں کا کمال دیکھیئے، زور بیانِ میں تو یہ اشعار بڑے بڑے کلاسیکی فارسی اساتذہ کے کلام سے لگا کھاتے ہیں۔
فلاطوں طفلکے باشد بہ یُونانے کہ من دارَم
مسیحا رشک می آرد ز درمانے کہ من دارم
(افلاطون تو ایک بچہ ہے اس یونان کا جو میرا ہے، مسیحا خود رشک کرتا ہے اس درمان پر کہ جو میں رکھتا ہوں)
خُدا دارم دِلے بریاں ز عشقِ مُصطفٰی دارم
ندارَد ھیچ کافر ساز و سامانے کہ من دارم
(میں خدا رکھتا ہوں کہ جلے ہوے دل میں عشقِ مصطفٰی (ص) رکھتا ہوں، کوئی کافر بھی ایسا کچھ ساز و سامان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے)
ز جبریلِ امیں قُرآں بہ پیغامے نمی خواھم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ من دارم
(جبریلِ امین سے پیغام کے ذریعے قرآن کی خواہش نہیں ہے، وہ تو سراسر محبوب (ص) کی گفتار ہے جو قرآن کہ میں رکھتا ہوں)
فلَک یک مطلعِ خورشید دارَد با ہمہ شوکت
ھزاراں ایں چنیں دارد گریبانے کہ من دارم
آسمان اس تمام شان و شوکت کے ساتھ فقط سورج کا ایک مطلع رکھتا ہے جب کہ اس (مطلع خورشید) جیسے ہزاروں میرے گریبان میں ہیں۔
ز بُرہاں تا بہ ایماں سنگ ھا دارَد رہِ واعظ
ندارد ھیچ واعظ ہمچو برہانے کہ من دارم
واعظ کی دلیل و عقل سے ایمان تک کی راہ پتھروں سے بھری پڑی ہے لیکن کوئی واعظ اس جیسی برہان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے۔
(سر سید احمد خان)