چون خاکِ کربلاست فضولی مقامِ من
نظمم به هر کجا که رسد حرمتش رواست
زر نیست، سیم نیست، گهر نیست، لعل نیست
خاک است شعرِ بنده، ولی خاکِ کربلاست
(فضولی بغدادی)
اے فضولی! خاکِ کربلا میرا مقام ہے لہٰذا میری نظم جہاں بھی پہنچے اس کی حرمت روا ہے۔ میرا شعر سیم و زر نہیں ہے، لعل و گہر نہیں ہے بلکہ خاک ہے ، لیکن خاکِ کربلا ہے
فخرِ آذربائجان حضرت فضولی کے ترکی دیوان کا اختتامیہ قطعہ:
چون خاکِ کربلاست فضولی مقامِ من
نظمم به هر کجا که رسد حرمتش رواست
درّ نیست، سیم نیست، گهر نیست، لعل نیست
خاک است شعرِ بندہ، ولی خاکِ کربلاست
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! چونکہ خاکِ کربلا میرا مقام ہے (یعنی چونکہ میں کربلا میں مقیم ہوں یا یہ کہ میں منزلت میں خاکِ کربلا کے برابر ہوں)، اس لیے میری نظم جہاں بھی پہنچے اُس کی حرمت روا ہے۔ اس ناچیز بندے کے اشعار موتی نہیں ہیں، سیم نہیں ہیں، گہر و لعل نہیں ہیں، بلکہ صرف خاک ہیں، لیکن وہ کوئی عام خاک نہیں، بلکہ کربلا کی خاک ہیں۔