خسیس را ز مُدارا زبان دراز شود
ز آب شعله کَشَد آتشی که بولهبیست (صائب تبریزی)
نرمی و ملاطفت سے پست شخص کی زبان دراز ہو جاتی ہے؛ جو آتش ابولہبی ہو وہ آب سے [مزید] شعلہ ور ہو جاتی ہے۔
چراغِ انجمنِ ماست دیدهٔ بیدار
مَیِ شبانهٔ ما گریههای نیمشبیست (صائب تبریزی)
ہماری انجمن کا چراغ دیدۂ بیدار ہے، [اور] ہماری شرابِ شبانہ نیم شب کے وقت کے گریے ہیں۔
دمِ مردن ز شوقِ آن که یارِ دلنواز آید
رود صد بار جانم با نَفَس بیرون و باز آید (عرفی شیرازی)
مرنے کے وقت میری جان یارِ دل نواز کے آنے کے اشتیاق میں صد بار سانس کے ساتھ بیرون جاتی اور واپس آتی ہے۔
دلِ معشوق را ذوق است از همراهیِ عاشق
که گر محمود را گویی بیا اول ایاز آید (عرفی شیرازی)
معشوق کے دل کو عاشق کی ہمراہی سے ایسا ذوق حاصل ہوتا ہے کہ اگر محمود سے کہو کہ 'آ جاؤ' تو اُس سے قبل ایاز آ جائے۔ × 'دلِ معشوق را ذوق است...' کی بجائے 'چنان معشوق را ذوقیست...' بھی نظر آیا ہے۔
بس قامت خوش که زیر چادر باشد
چون باز کنی مادر مادر باشد سعدی شیرازیؒ
چادر میں لیٹے ہوئے اکثر خوش اندام دکھائی دیتے ہیں۔
مگر جب چادر کھینچ لی جائے تو نانی کی طرح کھوسٹ ثابت ہوتے ہیں۔
نرم دار آواز بر انسان چو انسان زانکه حق
انکر الاصوات خواند اندر نُبی صوت الحمیر (سنایی غزنوی)
انسان کے مقابل انسان کی طرح [اپنی] آواز نرم رکھو، کیونکہ حق تعالیٰ نے قرآن میں خروں کی آواز کو ناگوارترین آواز پکارا ہے۔
× اِس شعر میں سورۂ لقمان کی آیت ۱۹ کی جانب اشارہ ہے۔
صورت زیبای ظاهر هیچ نیست
ای برادر سیرت زیبا بیار
آدمی را عقل باید در بدن
ورنه جان در کالبد دارد حمار سعدی شیرازیؒ
خوبصورت ہونا کوئی چیز نہیں خصلت اچھی چاہیے ۔آدمی کو عقلمند ہونا چاہیے جان تو گدھے کے جسم میں بھی ہوتی ہے۔
گر فروتر نشست خاقانی ! نه ورا عیب و نه ترا ادب است
«قل هو الله» بین که در قرآن زیر«تبّت یداابی لهب» است خاقانی شیروانی
نیچے بیٹھنے میں خاقانی کو عار نہیں! تجھ میں ادب نہیں۔دیکھوقرآن!{قل ھواللہ احد } میں اللہ تعالٰی کی تعریف ہے۔
اور اس سے خالق کی عظمت میں کچھ فرق نہیں پڑھتا کہ یہ سورة سورہء{تبت یداابی لهب } کے نیچے واقع ہوئی ہے۔
محمد فضولی بغدادی کے ایک فارسی قصیدے سے اقتباس: در عراقِ عرب امروز منم سلمان را به صفایِ سخن و حُسنِ فصاحت، ثانی گرچه در لطفِ ادا رتبهٔ سلمانم نیست قطرهای را نبُوَد حوصلهٔ عُمّانی لیک سلمان همهٔ عمر تلف کرد حیات در ثنایِ نسبِ فرقهٔ چنگیزخانی من کمین مادِح و منسوب به اهلالبیتم کارِ من نیست به جز مدح و مناقبخوانی (محمد فضولی بغدادی) میں عراقِ عرب میں امروز صفائے سخن اور حُسنِ فصاحت میں سلمانِ ساوجی کا ثانی ہوں۔ اگرچہ لطفِ ادا میں مجھے سلمان کا رتبہ حاصل نہیں ہے، کہ کسی قطرے کے پاس بحر کی ظرفیت نہیں ہوتی۔ لیکن سلمان نے تمام عمر [اپنی] زندگی فرقۂ چنگیزخانی کے نسب کی ثنا میں تلف کر دی۔ [جبکہ] میں اہلِ بیت کا ادنیٰ مدح گو اور اُن سے منسوب ہوں، میرا کام صرف مدح و مناقب خوانی ہے۔
× 'فرقۂ چنگیزخانی' سے آلِ جلایِر مراد ہے، جو سلمان ساوجی کے زمانے میں عراق اور ایران کے چند حصوں کے حکمران تھے۔ یہ سلاطین مسلمان، لیکن منگول نسل تھے۔ سلمان ساوجی نے اِس خاندان کے افراد کے لیے قصیدے کہے تھے۔
خاکِ بغداد به مرگِ خُلَفا میگرید
ورنه این شطِّ روان چیست که در بغداد است (خواجو کرمانی)
خاکِ بغداد خلفاء کی موت پر گریہ کرتی ہے؛ ورنہ یہ دریائے رواں (دجلہ) کیا ہے جو بغداد میں ہے؟ × 'مرگِ خلفا' کی بجائے 'خونِ خلفا' بھی نظر آیا ہے، جس کی موجودگی میں مصرعِ اول کا ترجمہ یہ ہو گا: خاکِ بغداد خلفاء کے قتل پر گریہ کرتی ہے۔
ساقی به نورِ باده برافروز جامِ ما
مطرب بگو که کارِ جهان شد به کامِ ما (حافظ شیرازی)
مطلبِ ظاہری ظاہر ہے کہ اے ساقی نورِ شراب سے ہمارا پیالہ روشن کر دے یعنی شرابِ تابان بھر دے کہ پیالہ روشن ہو جاوے اور اے مطرب (خوشی کا یہ نغمہ) کہہ دے کہ دہر کا تصرف ہمارے مقصود کے موافق ہو گیا یعنی ہم کامیاب ہو گئے۔ اور بلسانِ اشارت مصرعِ اولیٰ میں مرشد سے درخواست کرتے ہیں کہ شرابِ محبت و عشق سے ہمارا قلب لبریز کر دے یعنی عشقِ حقیقی عطا فرما اور مصرعِ ثانیہ میں اِس طلب کی کامیابی پر خوشی ظاہر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کے مرتبۂ ابتدائی کے حصول پر مسرور ہیں اور اُس کے مرتبۂ انتہائی کے وصول کے متمنی ہیں واللہ اعلم مقصود ترغیب ہے دوامِ طلب پر اور تعلیمِ شکر ہے حصولِ مقصود پر۔
(مترجم و شارح: مولانا اشرف علی تھانوی)
ای بسا هُند و تُرکِ همزبان
ای بسا دو تُرک چون بیگانگان
پس زبانِ محرمی خود دیگر است
همدلی از همزبانی بهتر است مولاناؒ لغت: ہمدلی ۔قلبی یگانگت ۔۔۔محرمی۔ہمراز ہونا اے (مخاطب) بہت سے ہندو اور ترک ہمزبان (محرم) ہیں۔اے (مخاطب) دو ترک بیگانوں کی طرح ہیں محرمی کی زبان دوسری ہے ہم دلی ہم زبانی سے بہتر ہے مترجم :مولاناقاضی سجاد حسین صاحب
دلم ز دهلی و گلزارِ شالامار گرفت
کجاست سیرِ صفاهان و چارباغ کجاست (واله داغستانی)
میرا دل دہلی اور گلزارِ شالامار سے ملول ہو گیا ہے؛ کہاں ہے اصفہان کی سیر، اور چارباغ کہاں ہے؟ × چارباغ/چهارباغ = اصفہان کا ایک مشہور خیابان
دارم امید که تا هست به گلزارِ سخن
بلبلِ ناطقه را فرصتِ خوشاِلحانی
فضلِ مداحیِ اولادِ نبی را دایم
دارد ایزد به فضولیِ حزین ارزانی (محمد فضولی بغدادی)
مجھے امید ہے کہ جب تک گلزارِ سخن میں بلبلِ ناطِقہ کو خوش اِلحانی کی فرصت ہے، ایزد تعالیٰ فضولیِ حزیں پر اولادِ نبی کی مدّاحی کا فضل ہمیشہ عطا رکھے گا۔
در ضمیرِ ما نمیگُنجد به غیر از دوست کس
هر دو عالم را به دشمن دِه که ما را دوست بس (اوحدی مراغهای)
ہمارے ضمیر میں دوست کے سوا کوئی نہیں سماتا؛ دونوں عالَم دشمن کو دے دو کہ ہمیں دوست کافی ہے۔
مجو درستی عهد از جهان سست نهاد
که این عجوز عروس هزاردامادست خواجه شمسالدین محمد شیرازی ؒ
زمانہ سے جس کی بنیاد فانی ہے عہد کی پائیداری مت ڈھونڈ
کہ یہ بوڑھی عورت ہزار داماد کی دلہن ہے۔
در دیدہ بجائے خواب آب است مرا
زیرا کہ بدیدنت شتاب است مرا
گویند "بخواب تا بخوابش بینی"
اے بیخبراں چہ جائے خواب است مرا
میری آنکھوں میں نیند کی بجائے آنسو ہیں، اس وجہ سے کہ مجھے تیری دید کی خواہش اور جلدی ہے۔ (مجھ سے) کہتے ہیں کہ تُو سو جا تا کہ تُو اُس کے خواب دیکھے، اے بے خبرو یہ میرے لیے سونے کا کون سا موقع ہے (کہ میں تو اُس کے انتظار میں بیٹھا ہوں)۔
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'جا/جای' کے مجازی معنوں میں 'امکان، توانائی، مجال، اور جرأت' بھی شامل ہیں، اور اِس کے شاہد کے طور پر ایک یہ شعر دیا گیا ہے: گمان مبر که مرا بی تو جایِ هال بُوَد
جز از تو دوست گرَم، خونِ من حلال بُوَد (دقیقی طوسی) یہ گمان مت کرو کہ مجھے تمہارے بغیر آرام و صبر کی توانائی ہے؛ اگر تمہارے سوا میرا کوئی دوست ہو تو میرا خون حلال ہے!
لہٰذا، اِس مصرعے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے:
اے بے خبرو! مجھ میں نیند کی طاقت کہاں ہے۔۔۔