آذربائجان میں واقع مقام 'چالدران' میں سلطان سلیمِ اول عثمانی کی شاہ اسماعیل صفوی پر فتحِ قاطع کے بعد ایرانی سنّی عالم فتح اللہ بن روزبِہان خُنجی نے، جو صفوی قیام کے بعد ایران سے فرار کر کے ماوراءالنہر و ترکستان چلے گئے تھے، اُس فیروزی کی مناسبت سے سلطان سلیمِ اول کے نام ایک نظم لکھی تھی، جس میں سے چند ابیات ملاحظہ کیجیے:
اساسِ دین تو در دنیا نهادی
تو شرعِ مصطفیٰ بر جا نهادی
مجدَّد گشت دین از همّتِ تو
جهان در زیرِ بارِ منّتِ تو
اگر مُلکِ شریعت مستقیم است
همه از دولتِ سلطان سلیم است
ز بیمت در تزلزل فارس و تُرک
چو افکندی ز سر تاجِ قِزِل بُرک
فکندی تاجش از سر ای مظفَّر
فکن اکنون به مردی از تنش سر
قِزِل بُرک است همچون مارِ افعی
سرش را تا نکوبی نیست نفعی
تویی امروز از اوصافِ شریفه
خدا را و محمد را خلیفه
روا داری که گبر و ملحد و دد
دهد دُشنامِ اصحابِ محمد
بیا از نصرِ دین کسرِ صنم کن
به تختِ روم، مُلکِ فارس ضم کن
که شرق و غرب را از دولت و کام
بگیرد باز ذوالقرنینِ اسلام
(فضلالله بن روزبِهان خُنجی)
تم نے دنیا میں دین کی اساس رکھی؛ تم نے شریعتِ مصطفیٰ کو برقرار کیا؛ دین تمہاری ہمّت سے مُجدَّد ہو گیا؛ دنیا تمہاری مدیون ہے؛ اگر ملکِ شریعت مستقیم ہے تو وہ تماماً سلطان سلیم کے اقبال سے ہے؛ جب تم نے تاجِ قِزِلباش کو سر سے گرایا تو [تب سے] فارس و تُرک میں تمہارے خوف سے تزلزُل ہے؛ اے فتح مند! تم نے سر سے اُس کا تاج گرایا؛ اب [اپنی] مردانگی سے اُس کے تن سے سر جدا کر دو؛ قِزِلباش موذی و زہردار سانپ کی مانند ہے؛ جب تک تم اُس کا سر نہ کُچلو، کوئی نفع نہیں ہے؛ تم اوصافِ شریفہ کے سبب امروز خدا و محمد کے خلیفہ ہو؛ کیا تم روا رکھو گے کہ مجوسی و ملحد و درندۂ وحشی اصحابِ محمد کو دُشنام دیتا رہے؟ آؤ، دین کی نُصرت سے بُت کو پاش کر دو؛ [اور] مُلکِ فارس کو تختِ رُوم کے ساتھ ضم کر لو؛ تاکہ نیک بختی و کامگاری سے ذوالقرنینِ اسلام دوبارہ شرق و غرب کو تصرُّف میں لے لے۔
× 'بُرک' تُرکی زبان میں 'کُلاہ' کو کہتے تھے۔ 'قِزِل بُرک' یعنی سُرخ کُلاہ والا قِزِلباش۔
ماخذِ ابیات: صفویه در عرصهٔ دین، فرهنگ و سیاست: جلدِ اول - رسول جعفریان