"نہد "کا مصدر "نہادن "ہے اوراس کا معنی "لگانا" سے موزون ہے ۔بالکل زبردست ترجمہ ہے یہ۔شاباشخشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔
ویسے نہد کس فعل سے مصدر ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے معنی یہاں لگانے کے ہی ہوں گے۔
ناصر خسرو کا خیال اِس سے مختلف تھا۔ وہ کہتے ہیں:حدیثِ خوب چون بسیار گردد
اگر خود هست گوهر خوار گردد
(هُمام تبریزی)
"سخنِ ارزشمند زمانی که بسیار گفته و تکرار شود حتی اگر در گرانمایگی مانندِ گوهری باشد بیارزش میشود."
سُخنِ خوب و قتیمی جس وقت بار بار کہا اور تکرار کیا جائے، حتیٰ اگر گراں مایگی میں وہ کسی گوہر کی مانند ہو، بے قیمت ہو جاتا ہے۔
مولانا جامی بھی هُمام تبریزی کے ہم خیال تھے:حدیثِ خوب چون بسیار گردد
اگر خود هست گوهر خوار گردد
(هُمام تبریزی)
"سخنِ ارزشمند زمانی که بسیار گفته و تکرار شود حتی اگر در گرانمایگی مانندِ گوهری باشد بیارزش میشود."
سُخنِ خوب و قتیمی جس وقت بار بار کہا اور تکرار کیا جائے، حتیٰ اگر گراں مایگی میں وہ کسی گوہر کی مانند ہو، بے قیمت ہو جاتا ہے۔
زآمده شادمان بباید بود
یعنی جو اتفاق پیش آئے اُس پر شادمان رہنا چاہیے۔جو سامنے آئے اس سے شادمان ہونا چاہیے
وز گذشته نکرد باید یاد
'گذشته' سے یہاں وقتِ گذشتہ مراد ہے۔جو گزر جائے اسے یاد نہیں کرنا چاہیے۔
نیک بخت آن کسی که داد و بخورد
شوربخت آن که او نخورد و نداد
یعنی نیک بخت وہ ہے جس نے عطا بھی کیا اور خود بھی کھایا، جبکہ بدبخت وہ ہے جس نے نہ خود کھایا اور نہ دیگروں کو عطا کیا۔اچھی قسمت والا وہ ہے جس نے دیا اور کھایا۔
بری قسمت والا وہ ہے جس نے نہ دیا نہ کھایا۔