محمد وارث

لائبریرین
نیست صہبائی چو جامِ جم نصیبم گو مباد
مے ز خونِ دل کشیدَم خویش را جم ساختم


(مولانا صہبائی)

اے صہبائی، کہو کہ اگر میرے نصیب میں جامِ جم نہیں ہے تو نہ ہو، کہ میں خونِ دل سے مے کشید کرتا ہوں، اور اپنے آپ کو جم (جمشید) بنا لیتا ہوں۔

غالب کے ہم عصر یہ وہی مولانا صہبائی ہیں جن کے متعلق غالب نے (شاید کسی سرخوشی کے وقت) کہا تھا کہ "مولانا نے بھی کیا عجیب و غریب تخلص رکھا ہے، عمر بھر میں ایک چلّو بھی نصیب نہیں ہوئی اور صہبائی تخلص رکھا ہے۔ سبحان اللہ، قربان جایئے اس اتقا کے اور صدقے جایئے اس تخلص کے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
حسرتِ جلوۂ آں ماہِ تمامے دارَم
دست بر سینہ، نظر بر لبِ بامے دارَم


(اقبال لاھوری)

میں اُس ماہِ تمام (مکمل چاند) کے جلوہ کی حسرت رکھتا ہوں، ہاتھ سینے پر ہے اور نظر لبِ بام پر رکھی ہوئی ہے!
 

محمد وارث

لائبریرین
کفر است در طریقتِ ما کینہ داشتَن
آئینِ ماست سینہ چو آئینہ داشتَن


(طالب آملی)

ہماری طریقت میں کینہ رکھنا کفر ہے، ہمارا آئین تو یہی ہے کہ سینہ، آئینے کی طرح (صاف شفاف) ہو (کہ جو کوئی اس میں دیکھے اپنا ہی چہرہ پائے)۔
 

مغزل

محفلین
باخدا خبر نہ دار م، چوں نماز می گزارم
کہ رکوع شد تمامے ، کہ امام شد فلانے

(سیدی مولائے روم)

بخدا خبر نہیں ہے جو نماز میں ہوں پڑھتا
کہ رکوع کب ہوا ہے ، کہ امام کون ساہے​

(وارث صاحب اب چونکہ میں فارسی سے نابلد ہوں سو صحیح ترجمہ اس میں تدوین کردیں) پیشگی شکریہ
 

مغزل

محفلین
ہممم اس کا مطلب ہے کہ ترجمہ ٹھیک ہی ہوگیا تھا، بہت شکریہ وارث صاحب، نظامی صاحب اور سخنور صاحب
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ای مرغ سحر عشق ز پروانہ بیاموز
کآن سوختہ را جان شد و آواز نیامد

این مدعیان در طلبش بی خبرانند
کآن را کہ خبر شد خبری باز نیامد
سعدی

ای مرغ سحر خود کو عاشق کہنے سے پہلے عشق کرنے کا طریقہ تتلی سے سیکھو
کہ تتلی( شمع کے عشق میں اس کے گرد اتنا گھومتی ہے کہ( جل جاتی ہے، لیکن کبھی اس کی آواز نہیں نکلتی

اسی طرح یہ لوگ جو خود کو (خدا کا( عاشق کہتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت با خبر دکھاتے ہیں، کچھ نہیں جانتے
کیونکہ جو (خدا کے( عشق میں اس مرحلے تک پہنچتا ہے کہ کچھ جاننے کے لائق ہو، اتنا مست ہوجاتا ہے کہ کچھ بتانے کے لائق نہیں رہتا

کافی لمبا ترجمہ ہو گیا، اصل میں اس شعر سے پہلے جناب سعدی نے ایک واقعی لکھا ہے، جس کے بغیر یہ شعر ناقص سا لگتا ہے، اسی لیے اس کا پس منظر لکھنے کی جگہ میں نے ترجمہ لمبا کردیا۔ لیکن اگر کوئی اسے مختصر اور مفید الفاظ میں بیان کر دے تو مہربانی ہوگی۔ میں نہ اچھا لکھنے والا ہوں، نہ اچھا مترجم۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

دو شعر ایک موضوع پر دو مختلف شعرا سے:

1- چُو رَسی بِہ طور سینا اَرِنِی نَگُفتِہ بُگذَر
کہ نَیَرزَد این تَمَنّا بہ جواب لَن تَرانی

2- چو رسی بہ طور سینا ارنی نگفتہ مَگذر
کہ خوش است از او جوابی چہ تَرا چہ لن ترانی

ارنی طلب نُمایم بہ مزار طور سینا
چو کلیم برنگردم بہ جواب لن ترانی


1- جب (حضرت موسی( کی طرح طور پر خدا سے ہم کلام ہونا تو اس کو دیکھنے کی خواہش نہ کرنا۔
کیونکہ جواب نفی سن کر مایوسی ہوگی۔

2 جب (حضرت موسی( کی طرح طور پر خدا سے ہم کلام ہونا تو اس کو دیکھنے کی خواہش ضرور کرنا۔
کیونکہ محبوب سے جواب ملنے ہی میں مزا ہے، چاہے ہاں ہو یا نا۔

لیکن اگر میں طور پر گیا تو خواہش دید کروں گا
اور لن ترانی ( کبھی مجھے نہیں دیکھو گے( کے جواب پر قناعت نہ کروں گا، اور اس کو دیکھے بغیر نہ لوٹوں گا۔

مجھے تو دوسرا زیادہ پسند آیا، آپ کو کونسا؟
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

نیما یوشیج فارسی میں جدید شاعری کے بانی ہیں، ان کو "پدر شعر نو" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے شعر بہت اچھے ہوتے ہیں، ان کے ایک لمبے کلام کی چند سطریں:

نیست یک دم شکند خواب بہ چشم کس و لیک
غم این خفتہ چند
خواب در چشم ترم می شکند


ایک لمحہ کے لیے بھی کسی کے آنکھوں کی نیند نہیں ٹوٹتی، لیکن
ان سوتے لوگوں کے غم نے،
میری اشکبار آنکھوں کی نیند ختم کر دی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ترسِ خدا ز عالمِ زر جُو و جاہ جوئے
و انصاف و عدل در مَلَک و خاں نیافتَم


مجھے زر اور جاہ کی تلاش اور جستجو میں رہنے والی دنیا میں خوفِ خدا، اور مَلَک و خان (حکمرانوں) میں انصاف اور عدل نہیں ملا۔

بے نقد و مال جُملہ مسلماں وشند لیک
کس را بہ گاہِ سیم مسلماں نیافتَم


نقد و مال کے بغیر والے (فقراء) تو سبھی مسلمان ہیں لیکن سیم ( و زر) کی بارگاہ میں (دولت مندوں میں) مجھے کوئی بھی مسلمان نہیں ملا۔

(امیر خسرو دھلوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
بزیرِ خرقہ نہاں بادہ می خورد صوفی
حکیم و عارف و زاہد ازیں مستند


(نظیری نیشاپوری)

(ریا کار) صُوفی شراب اپنی گدڑی کے نیچے چھپا کر پیتا ہے (اور اس کے بھائی بند) حکیم، عارف، زاہد سبھی اسی (طرح پینے) سے مست ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نقوی صاحب، یہ شعر 'خسرو شیریں بیاں' سے لیا ہے جو کہ مسعود قریشی نے مرتب کی ہے اور لوک ورثہ اسلام آباد نے شائع کی ہے اس میں مسعود قریشی صاحب نے خسرو کی غزلیات کے منظوم تراجم بھی کیے ہیں۔ کتاب میں 'وشند' ہی ہے ہو سکتا ہے کتابت کی غلطی ہو!
 
شکریہ جناب۔
میں نے اصل شعر نہیں پڑھا ہے۔ اندازا کہہ رہا ہوں، کیونکہ وشند معنی کے لحاظ سے یہاں ٹھیک نہیں لگ رہا۔ شوند کا مطلب ہے ہوجانا۔ لیکن وشند کا مطلب کچھ اور ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گر گذَشتَم بر دَرِ مے خانہ ناگاھے چہ باک
گر بہ پیراں سر شکَستَم توبہ یک بارے چہ شُد؟


اگر میں مے خانہ کے دروازے سے اچانک گزر گیا تو کیا ڈر ہے، اور اگر پیری میں میں نے ایک بار توبہ توڑ ڈالی ہے تو کیا ہوا؟

ھائے و ھوئے عاشقاں شد از زمیں بر آسماں
نعرۂ مستاں اگر نشنید ھشیارے چہ شد


عاشقوں کی ہائے و ہو زمین سے آسمان تک پہنچ گئی، (لیکن) اگر ہشیاروں (عقلمندوں) نے مستوں کا یہ نعرہ نہیں سنا تو کیا ہوا۔

(فخر الدین عراقی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ملک الشعراء میرزا محمد تقی بہار (1886ء - 1951ء) کے والد میرزا محمد کاظم صبوری بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ بہار جب اٹھارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تو شاعری کے میدان میں انہیں جیسے آزادی مل گئی کہ انکے والد ہمیشہ شاعری کے معاملے میں انکی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ بہار نے اتنی مہارت سے شعر کہنے شروع کیے کہ خراسان کے علماء و فضلاء نے یقین نہ کیا کہ یہ انکے شعر ہیں بلکہ سمجھا کہ بہار اپنے والد کے اشعار اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کیلیے بہار نے فی البدیہہ مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔

اسی طرح کے ایک مشاعرے میں بہار کی قابلیت جانچنے کیلیے اساتذہ نے انہیں چار لفظ 'تسبیح، چراغ، نمک اور چنار' دیکر کہا کہ رباعی کے وزن پر چار مصرعے کہو اور ان میں یہ الفاظ استعمال کرو، بہار نے چند لمحوں میں یہ رباعی پیش کر دی:

با خرقہ و تسبیح مرا دید چو یار
گفتا ز چراغِ زھد نایَد انوار
کس شہد نہ دیدہ است در کانِ نمک
کس میوہ نچیدہ است از شاخِ چنار


جب میرے یار نے مجھے خرقہ و تسبیح کے ساتھ دیکھا تو کہا کہ زہد کے چراغ سے انوار نہیں نکلتے، کسی نے نمک کی کان میں شہد نہیں دیکھا، کسی نے کبھی چنار کی شاخ سے پھل نہیں چنا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تا چشمِ تو ریخت خونِ عشّاق
زلفِ تو گرفت رنگِ ماتم


(خاقانی)

چونکہ تیری آنکھوں نے عشاق کا خون بہایا ہے (اسلیے) تیری زلفوں نے رنگِ ماتم پکڑا ہوا ہے (وہ سیاہ رنگ کی ہیں)!

حسنِ تعلیل کی ایک خوبصورت مثال، بالوں کا سیاہ ہونا بالوں کی ایک صفت ہے لیکن شاعر نے اس کو معطل کر کے اسکی وجہ کچھ اور ہی بتائی ہے اور کیا خوبصورت وجہ بتائی ہے :)
 

مغزل

محفلین
کافرِ عشقم بقولِ حضرتَ خسرو نصیر
من رگِ ہر تار گشتہ حاجتَ زنار نیست

ہزار نعمتِ دنیا اگر مرا بخشند
نثار گوشہ ِ آں چشمِ نیم باز کنم
من از ہجومِ خیال ِ مسلسلِ زلفش
نصیر سلسلہِ شوق را دراز کنم

صاحبزادہ نصیرگولڑہ شریف

(وارث صاحب سے ترجمہ کے درخواست ہے )
 

محمد وارث

لائبریرین
کافرِ عشقم بقولِ حضرتَ خسرو نصیر
من رگِ ہر تار گشتہ حاجتَ زنار نیست

ہزار نعمتِ دنیا اگر مرا بخشند
نثار گوشہ ِ آں چشمِ نیم باز کنم
من از ہجومِ خیال ِ مسلسلِ زلفش
نصیر سلسلہِ شوق را دراز کنم

صاحبزادہ نصیرگولڑہ شریف

(وارث صاحب سے ترجمہ کے درخواست ہے )

شکریہ مغل صاحب۔

پہلا شعر جو کہ شاہ صاحب نے امیر خسرو کی مشہور غزل کی زمین میں غزل کہی ہے اسکا ہے:

کافرِ عشقم بقولِ حضرتِ خسرو نصیر
من رگِ ہر تار گشتہ حاجتِ زنّار نیست

اے نصیر، بقولِ حضرتِ خسرو، میں بھی کافرِ عشق ہوں، میری ہر رگ تار بن چکی ہے سو زنار کی حاجت نہیں ہے!

دوسرے اشعار

ہزار نعمتِ دنیا اگر مرا بخشند
نثار گوشہ ِ آں چشمِ نیم باز کنم

دنیا کی اگر مجھے ہزار نعمتیں بھی بخشی جائیں تو میں ان نیم باز آنکھوں کے گوشوں پر نثار کر دوں۔

من از ہجومِ خیال ِ مسلسلِ زلفش
نصیر سلسلہِ شوق را دراز کنم

میں، اس کی (دراز) زلفوں کے مسلسل ہجومِ خیال سے، نصیر اپنا سلسلۂ شوق دراز کرتا ہوں۔
 
Top