حسان خان

لائبریرین
قطرهٔ هستیِ من کاش نبود
واصلِ بحرِ قِدَم می‌بودم
(صدرالدین کاشف دِزفولی)
کاش میری ہستی کا قطرہ نہ ہوتا! [اور] میں واصلِ بحرِ قِدَم [و ازل] ہوتا!
 

حسان خان

لائبریرین
ضیایِ دیدهٔ گریان تو بودی
انیسِ این دلِ سوزان تو بودی
(صدرالدین کاشف دِزفولی)

دیدۂ گریاں کی روشنی تم تھے؛ اِس دلِ سوزاں کے انیس و ہمدم تم تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیدهٔ ما می‌شود روشن ز خاکِ پایِ او
خاکِ او را کُحلِ چشمِ کاشفِ محزون کنید
(صدرالدین کاشف دِزفولی)

ہماری چشم اُس کی خاکِ پا سے روشن ہو جائے گی؛ اُس کی خاک کو کاشفِ محزوں کی چشم کا سُرمہ کر دیجیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
از لعلِ لبت به عاشقان جامی بخش
از لطف به خستگانِ خود کامی بخش
محتاج به قند و گُل نگردم هرگز
یک بوسه به هم‌راهیِ دُشنامی بخش
(صدرالدین کاشف دِزفولی)
اپنے لعلِ لب سے عاشقوں کو اِک جام عطا کرو؛ از روئے لُطف اپنے خستوں کو کوئی مُراد عطا کرو؛ میں [دوبارہ] ہرگز قند و گُل کا محتاج نہیں ہوؤں گا؛ کسی دُشنام کی ہمراہی میں ایک بوسہ عطا کرو۔
× دُشنام = گالی
 

حسان خان

لائبریرین
ز شرابِ لعلِ نوشین منِ رندِ بی‌نوا را
مددی که چشمِ مستت به خُمار کُشت ما را
(سلمان ساوجی)

[اپنے] لبِ لعلِ شیریں کی شراب سے مجھ رندِ بے نوا کی ذرا مدد کرو کہ تمہاری چشمِ مست نے [اپنی] مخموری سے ہمیں قتل کر دیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ببوئے زلفِ تو گر جاں بباد رفت چہ شد
ہزار جانِ گرامی فدائے جانانہ


لسان الغیب حافظ شیرازی

اگر تیری زلفوں کی خوشبو سے (میری) جان بر باد ہو گئی تو پھر کیا ہوا؟ کہ ہزار عزیز و معزز جانیں محبوب پر قربان۔
 

لاریب مرزا

محفلین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

یا رب نظرے بر منِ سرگرداں کن
لطفے بہ منِ دل شدۂ حیراں کن
با من مکن آنچہ من سزائے آنم
آنچ از کرم و لطفِ تو زیبد آں کن


یا رب، مجھ سرگرداں کے حال پر کرم کی نظر کر۔ مجھ حیران و پریشان عاشقِ صادق کے حال پر لطف فرما۔ میرے ساتھ وہ مت کر کہ جس کا میں سزاوار ہوں، بلکہ میرے ساتھ وہ کر کہ جو تیرے لطف و کرم کو زیب دیتا ہے۔
کیا کہنے!!
 

حسان خان

لائبریرین
ز وُجودِ خود ملولم قدحی بِیار ساقی
بِرَهان مرا زمانی ز خودیِ خود خدا را
(سلمان ساوجی)
میں خود کے وُجود سے ملول ہوں۔۔۔ اے ساقی ایک کاسۂ [شراب] لے آؤ [اور] خدارا مجھے ذرا وقت [کے لیے] خود کی خودی و انانیت سے رَہائی دلا دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
پِسرا ز ره بِبُردی به نوایِ نَی دلِ من
به سرت که بارِ دیگر بِسرا همین نوا را

(سلمان ساوجی)
اے پِسر! تم نَے کی نوا سے میرے دل کو راہ سے [ہتھیا] لے گئے۔۔۔ تمہارے سر کی قسم! کہ بارِ دیگر اِسی نوا کو بجاؤ۔
× نَے = بانسری
 

حسان خان

لائبریرین
تا قتیلِ دوست باشد جان چرا جوید حیات؟
تا مریضِ عشق باشد دل کجا خواهد دوا؟
(سلمان ساوجی)

جب تک جان قتیلِ دوست ہے، وہ حیات کیوں تلاش کرے گی؟ جب تک دل مریضِ عشق ہے، وہ دوا کہاں چاہے گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
زین خراب‌آبادِ گِل سلمان به کُلّی شد ملول
ای خوشا روزی که ما گردیم ازین زندان رَها
(سلمان ساوجی)

اِس [آب و] گِل سے بنے خراب آباد (یعنی دنیا) سے سلمان کُلّاً ملول ہو گیا [ہے]؛ اے خوشا وہ روز کہ جب ہم اِس زندان سے رَہا ہوں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہزار جانِ گرامی فدائے اہلِ نظر
کہ مالِ منصبِ دنیا بہ ہیچ نشمارند


شیخ سعدی شیرازی

ہزاروں عزیز اور معزز جانیں قربان اُن اہلِ نظر پر کہ جو دنیاوی منصبوں کے مال و دولت کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے اور انہیں ہیچ سمجھتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
پاکستانی شاعر سید صفی حیدر رضوی 'دانش' اپنی نظم 'خطاب به برادرانِ ایرانی' میں کہتے ہیں:
پُخته‌تر شد بادهٔ اردو ز فیضِ فارسی
می‌فزاید لذّتش از شکّرستانِ شما
(سید صفی حیدر رضوی 'دانش')

فارسی کے فیض سے بادۂ اردو پُختہ تر [و کامل تر] ہو گیا۔۔۔ آپ کے شَکَرستان سے اُس کی لذت میں اضافہ ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پاکستانی شاعر سید صفی حیدر رضوی 'دانش' اپنی نظم 'خطاب به برادرانِ ایرانی' میں کہتے ہیں:
تا ابد تابنده مانَد بر سِپهِر دوستی

این هلالِ پاکِ ما خورشیدِ تابانِ شما
(سید صفی حیدر رضوی 'دانش')
ہمارا یہ ہلالِ پاک، [اور] آپ کا خورشیدِ تاباں آسمانِ دوستی پر تا ابد تابَندہ رہے!

× یہ بیت اُس وقت کہی گئی تھی جب پرچمِ ایران پر شیر و خورشید کی علامت موجود تھی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پاکستانی شاعر سید صفی حیدر رضوی 'دانش' اپنی نظم 'خطاب به برادرانِ ایرانی' میں کہتے ہیں:
ساغر از میخانهٔ سعدی و حافظ می‌کشیم
در رگ و پَی می‌دَوَد صهبایِ عرفانِ شما
(سید صفی حیدر رضوی 'دانش')

ہم سعدی و حافظ کے میخانے سے ساغر کھینچتے ہیں۔۔۔۔ [ہماری] رگ و پَے میں آپ کی شرابِ عرفان دوڑتی ہے۔
 
از بت‌پرست وقتِ تماشایِ حسنِ او
حرفی بغیرِ نامِ خدا نشنود کسی
(حافظ شیرازی)

اس کے حسن کے دیدار کے وقت بت پرست سے کوئی حرف خدا کے نام کے سوا کوئی نہیں سنتا ہے۔

مترجم: قاضی سجاد حسین
 
وقتی که پرسشی کنی اصحابِ درد را
ما را که کشته‌ای بجدایی، جدا بپرس
(سلمان ساوجی)

جب تو اصحاب درد کی بیمارپرسی کرے تو ہماری جدا بیمارپرسی کر کہ ہمیں جدائی ہی کی وجہ سے تو نے مارا ہے۔
 
اس شعر کے دوسرے مصرعے میں نحو، صرف اور بدیع سے کیا مراد ہیں؟
گذشت عمر و تو در فکرِ نحو و صرف و معانی بهایی
از تو بدین «نحو»«صرف» عمر، «بدیع» است
شیخ بهایی
 
Top