حسان خان

لائبریرین
اس شعر کا ترجمہ تحریر کردیں لطفا
گناه من همه در دوستی همین که بر آتش
گرم چو عود بسوزد، گناه دوست نبینم
اوحدی بافقی
شعر کا مفہوم واضح نہیں ہے، لیکن اپنی فہم کے مطابق لفظی ترجمہ کر رہا ہوں:
محبّت میں میرا کُل گناہ یہی ہے کہ اگر[چہ] یار مجھے آتش پر عُود کی مثل جلا دے، میں اُس کے گناہ سے صَرفِ نظر کر لیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هست روشن‌تر ز رویِ آفتاب
چهرهٔ ماهِ مُبینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

زبانِ فارسی کے ماہِ مُبین کا چہرہ خورشید سے زیادہ روشن ہے۔


× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
می‌سرایم گرچه در اردو سُخن
هست فکرِ من رهینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

اگرچہ میں اردو میں سُخن سرائی کرتا ہوں [لیکن] میری فکر زبانِ فارسی کی مرہون و مقروض ہے۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہزار جانِ گرامی فدائے بالایَت
بیا کہ کشتۂ عشق از بلا نمی ترسد


خواجوی کرمانی

ہزاروں عزیز اور معزز جانیں قربان تیرے قد و قامت پر (کہ جس کے جلو میں سو سو فتنے اور بلائیں ہوتی ہیں) آجا آجا کہ جو عشق کا مارا ہو وہ بلاؤں سے نہیں ڈرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بر زبانم هست هر دم دوستان
ذکرِ لذّت‌آفرینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)
اے دوستو! میری زبان پر ہر دم زبانِ فارسی کا ذکرِ لذّت آفریں ہے۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
گذشت عُمر و تو در فکرِ نحو و صَرف و معانی
بهایی! از تو بدین «نحو» «صَرفِ» عُمر، «بدیع» است
(شیخ بهایی)
عمر گذر گئی [لیکن] تم [ہنوز] علمِ نحو و علمِ صَرف و علمِ معانی کی فکر میں ہو۔۔۔ اے بہائی! تمہارا عُمر کو اِس طرز سے خرچ و ضائع کرنا عجیب و حیرت انگیز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شعله‌ها در سینه افروزد همی
نغمه‌هایِ آتشینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

زبانِ فارسی کے آتشیں نغمے سینے میں شعلے روشن کرتے ہیں۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قطعہ از علامہ محمد اقبال

گدائے جلوہ رفتی بر سرِ طُور
کہ جانِ تو ز خود نا محرمے ہست
قدم در جستجوئے آدمے زن
خدا ہم در تلاشِ آدمے ہست

(پیامِ مشرق)

تُو (خدا کے) جلوے کا گدا بن کر طُور پر گیا، (وہ اس لیے) کہ تیری جان خود اپنے آپ ہی سے نامحرم ہے (اپنے آپ ہی کو نہیں پہچانتی ورنہ طور پر جانے کی ضرورت نہ پڑتی)، اپنے قدم کسی آدمی کی جستجو میں اُٹھا کہ خدا خود بھی کسی آدمی کی تلاش میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کج‌روان را می‌نماید راهِ راست
گُفته‌هایِ راستینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

زبانِ فارسی کے گُفتہ ہائے راستیں کج رَووں کو راہِ راست دکھاتے ہیں۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تشنگان را سلسبیل و کوثر است
چشمهٔ ماءِ مَعینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

زبانِ فارسی کا چشمۂ آبِ رواں تشنوں کے لیے سلسَبیل و کوثر ہے۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مَحرمِ سِرِّ حقیقت بوده‌اند
شاعرانِ پاک‌بینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

زبانِ فارسی کے شاعرانِ پاک بیں مَحرمِ رازِ حقیقت رہے ہیں۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
چهرهٔ افکار را آراستند
اوستادانِ وزینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)
زبانِ فارسی کے اُستادانِ باوقار و متین نے چہرۂ افکار کی آرائش کی۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اهلِ عالَم را سُخن آموختند
نغز‌گویانِ فطینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

زبانِ فارسی کے خوب گویانِ دانا نے اہلِ عالَم کو سُخن سِکھایا۔


× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شد جهان پُر از طنینِ فارسی
هست عالَم خوشه‌چینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

زبانِ فارسی کی بانگ سے دنیا پُر ہو گئی؛ عالَم زبانِ فارسی کا خوشہ چیں ہے۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاطرِ بی‌تاب را تسکین دِهم
با حدیثِ دل‌نشینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

میں زبانِ فارسی کی حدیثِ دل نشیں سے خاطرِ بے تاب کو تسکین دیتا ہوں۔
× خاطِر = ذہن، ضمیر؛ قلب؛ فکر

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاتَمِ اردو که اندر دستِ ماست
شد مُزیّن از نگینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

ہمارے دست میں جو اردو کی انگُشتری ہے وہ زبانِ فارسی کے نگین سے مُزیّن ہوئی۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سرخوش و سرمست و سرشارم ضیاء
از شرابِ احمرینِ فارسی
(ضیاء محمد ضیاء)

اے ضیاء! میں زبانِ فارسی کی شرابِ سُرخ سے سرخوش و سرمست و سرشار ہوں۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مومن و کافر سوئے حق راہ بُرد
زاہدِ گم راہ بہ باطل ھماں


درویش ناصر بخاری

مومن اور کافر دونوں ہی حق کی راہ پا گئے اور اُس تک پہنچ گئے لیکن راہ گم کردہ (اور ریا کار) زاہد ویسے کا ویسا ہی باطل کے ساتھ ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
ز وُجودِ خود ملولم قدحی بِیار ساقی
بِرَهان مرا زمانی ز خودیِ خود خدا را
(سلمان ساوجی)
میں خود کے وُجود سے ملول ہوں۔۔۔ اے ساقی ایک کاسۂ [شراب] لے آؤ [اور] خدارا مجھے ذرا وقت [کے لیے] خود کی خودی و انانیت سے رَہائی دلا دو۔
خوب!!
 
Top