حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی اپنی تُرکی مثنوی 'لیلیٰ و مجنون' میں شامل سہ لسانی نعتیہ قصیدے میں فرماتے ہیں:
با انبیاست نسبتِ ذاتِ تو چون الف

هم ابتدا تویی به حقیقت هم انتها
(محمد فضولی بغدادی)
انبیا کے ساتھ آپ کی ذات کی نسبت مثلِ الف ہے۔۔۔ [یعنی] [اُن کی] ابتدا بھی حقیقتاً آپ ہیں اور [اُن کی] انتہا بھی۔
× لفظِ 'انبیا' کے اوّل و آخر میں الف آتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پاکستانی شاعر میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری اپنی نظم 'ایرانِ ما' میں فرماتے ہیں:
ساغرِ میخانهٔ حافظ، مُلِ خیّام‌رنگ

راحتِ جان و سُکونِ دیدهٔ حیرانِ ما
(میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری)
میخانۂ حافظ کا ساغر، اور خیّام رنگی شراب ہماری جان کی راحت اور ہمارے دیدۂ حیران کا آرام ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بسکہ آغشتہ بخون است دلم تازہ ہنوز
بر تنم گر بشگافند گُل آٰید بیروں


زیب النسا مخفی

بسکہ میرا دل ابھی بھی (ارمانوں کے) تازہ خون سے آلودہ ہے، اس لیے اگر میرے جسم (سینے) کو شگاف دیں تو اُس میں سے (بجائے دل کے) پُھول باہر آئے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بِدان صفت که به موج اندرون روَد کشتی
همی‌روَد تنِ زارم در آبِ چشمِ ترم
(ادیب پیشاوری)

جس طرح موجوں کے اندر کشتی چلتی ہے، [اُسی طرح] میرا تنِ زار میری چشمِ تر کے آب میں چلتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چنان نهفتم در سینه داغِ لاله‌رخی
که شد چو غنچه لبالب ز خونِ دل جگرم
(ادیب پیشاوری)

میں نے ایک [محبوبِ] لالہ رُخ کا داغ سینے میں اِس طرح پوشیدہ رکھا کہ غُنچے کی مانند میرا جگر خونِ دل سے لبالب ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شامِ غم‌ده دل ایدر عشقوڭې عالَم‌لره فاش
که نهان ائیله‌ییمز شمعی زُجاجِ حلَبی
(بهشتی)
شامِ غم میں [میرا] دل تمہارے عشق کو دنیاؤں کے سامنے فاش کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ شیشۂ حلَبی شمع کو پنہاں نہیں کر سکتا۔

Şâm-ı gamda dil ider ‘ışkuñı âlemlere fâş
Ki nihân eyleyimez şem‘i zücâc-ı Halebî

(Behiştî)

× شامی شہر حلَب کے شیشے مشہور تھے۔ مندرجۂ بالا بیت میں شاعر کا خیال ہے کہ شیشۂ حلَبی اتنا زیادہ شفّاف ہوتا ہے کہ اُس میں شمع مخفی نہیں رہ سکتی، اور یہی کیفیت شاعر کے دل کی ہے کہ اُس میں محبوب کا عشق پنہاں نہیں رہ پاتا اور آشکار ہو جاتا ہے۔
خیالِ لعلِ لبش در درونِ سینهٔ من
چو باده در دلِ پُرخونِ شیشهٔ حلَبی‌ست
(ابنِ حُسام خوسْفی)
اُس کے لبِ لعل کا خیال میرے سینے میں ایسے ہے کہ گویا شیشۂ حلَبی کے دلِ پُرخون میں شراب ہو۔
× شامی شہر حلَب کے شیشے مشہور تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بیسویں صدی کے آغاز کے مشہور فارسی شاعر 'ادیب پیشاوری' شہرِ پشاور میں متولّد ہوئے تھے، لیکن اُن کی بیشتر زندگی ایران میں بسر ہوئی تھی اور وہیں اُن کا انتقال ہوا۔ اِسی چیز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پاکستانی شاعر میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری ایک بیت میں کہتے ہیں:
لالهٔ صحرایِ پیشاور به ایران درشِکُفت
غازهٔ رُویِ عجم گردید، آب و رنگِ ما
(میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری)

صحرائے پشاور کا گُلِ لالہ ایران میں شکوفا ہوا۔۔۔ ہمارا آب و رنگ، عجم کے چہرے کا غازہ بنا۔
× شُکُوفا ہونا = کِھلنا
 

حسان خان

لائبریرین
بنی آدم اعدایِ یک‌دیگرند
همه خود‌پرستند و خود‌پرورند
یکی چون شود با مصیبت دُچار
دگر می‌کند شکرِ پروردگار
(سید آغا صادق حسین نقوی)
بنی آدم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔۔۔ سب کے سب خود پرست و خود پروَر ہیں۔۔۔ جب کوئی ایک فرد مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو فردِ دیگر پروردگار کا شکر کرتا ہے۔

× شاعر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
پاکستانی شاعر میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری اپنی نظم 'ایرانِ ما' میں فرماتے ہیں:
عزّ و شانِ قولِ 'السّلمانُ مِنّا' را نِگر
افتخارِ تازیان شد حضرتِ سلمانِ ما
(میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری)

قولِ 'السّلمانُ مِنّا' کی عزّت و شان پر نگاہ کرو۔۔۔۔ ہمارے حضرتِ سلمانِ [فارسی] عربوں کا افتخار بنے۔
× ایک حدیث کے مطابق رسول (ص) نے فرمایا تھا کہ "سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے"۔ یہاں اُسی حدیثِ نبوی کی جانب اشارہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پاکستانی شاعر میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری اپنی نظم 'ایرانِ ما' میں فرماتے ہیں:
بویِ جویِ مولیان، آهنگِ سازِ رودکی

در نشاط و اِهتِزاز آورْد تارِ جانِ ما
(میرزا رضا حُسین همدانی پیشاوری)
جُوئے مُولیاں کی بُوئے [خوش]، اور سازِ رُودکی کا آہنگ ہمارے تارِ جاں کو نشاط و حرَکت میں لے آیا۔
× جُوئے مُولیاں = بُخارا کے ایک دریا کا نام

مندرجۂ بالا بیت میں رُودکی سمرقندی کے اِس مشہور قصیدے کی جانب اشارہ ہے:
بویِ جویِ مولیان آید همی
یادِ یارِ مهربان آید همی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
طُرّه از رُویت نمی‌گردد جدا
کافران را نیست از آتش نجات
(امیر حسن سجزی دهلوی)

[تمہاری] زُلف تمہارے چہرے سے جدا نہیں ہوتی؛ کافروں کو آتش سے نجات نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتی حَسَن چرا نکنی توبه از شراب
والله که توبه کردم و مستی نمی‌روَد
(امیر حسن سجزی دهلوی)

تم نے کہا: "اے حَسَن! تم کس لیے شراب سے توبہ نہیں کرتے؟" واللہ! کہ میں نے توبہ کر لی [ہے لیکن] مستی نہیں جاتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
آغازِ عیدِ شادی و اِتمامِ صومِ غم
موقوفِ ابرویِ چو هلالِ محمد است
(امیر حسن سجزی دهلوی)

عیدِ شادمانی کا آغاز اور روزۂ غم کا اختتام حضرتِ محمد (ص) کے مثلِ ہلال ابرو پر موقوف ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حَسَن گُلی ز گلستانِ سعدی آورده‌ست
که اهلِ معنی گُل‌چینِ این گلستانند
(امیر حسن سجزی دهلوی)
'حَسَن' گُلستانِ سعدی سے ایک گُل لایا ہے؛ کیونکہ اہلِ معنی اِس گلستان کے گُل چیں ہیں۔

× ایک جگہ مصرعِ اول میں 'ز' کی بجائے 'از' بھی نظر آیا ہے، لیکن اُس صورت میں 'گُلی' کے 'ی' میں اِسقاط واقع ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
امیر حسن سجزی دهلوی کی ایک مدحیہ رباعی:
(رباعی)

یا لَیْتَ هزار جان به تن داشتمی
تا در قدمِ شاهِ زمن داشتمی
بغداد چو دجله آب شد زین حسرت
کای کاش چنین خلیفه من داشتمی
(امیر حسن سجزی دهلوی)
اے کاش [میرے] تن میں ہزار جانیں ہوتیں، تاکہ میں [اُنہیں] شاہِ زمن کے قدم میں رکھ دیتا۔۔۔ بغداد اِس حسرت سے دجلہ کی مانند آب ہو گیا کہ اے کاش ایسا خلیفہ میرے پاس ہوتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
محبّت را بِفهیدم که دردِ بی‌دوا باشد
پذیرُفتم به جان این درد و گشتم از دوا فارغ
(طاهرالمولوی)

میں فہم کر گیا کہ محبّت [ایک] دردِ بے دوا ہے۔۔۔ [لہٰذا] میں نے جان [و دل] سے اِس درد کو قبول کر لیا اور [پس] دوا سے فارغ و آسودہ ہو گیا۔

× شاعر کا تعلق تُرکیہ سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
پریشانیِ حالم را نشُد بیگانه‌ها باعث
بِشُد ویرانیِ دل‌خانه را یک آشنا باعث
(طاهرالمولوی)

بیگانے میرے حال کی پریشانی کا باعث نہیں ہوئے ہیں [بلکہ میرے] خانۂ دل کی ویرانی کا باعث ایک آشنا ہے۔


× شاعر کا تعلق تُرکیہ سے تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کجا روم ز کوئے تو، منم اسیرِ موئے تو
کہ حل شود ز روئے تو، سوالہا، جوابہا


سید نصیر الدین نصیر

تیرے کوچے سے اُٹھ کر کہاں چلا جاؤں کہ میں تو تیری زلفوں کا اسیر ہوں اور تیرے چہرے کے دیدار سے سارے سوال حل ہو جاتے ہیں اور جواب بھی (سوال و جواب سے بے نیاز ہو جاتا ہوں)۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا قصهٔ من و تو در آفاق نشر شد
یاران حدیثِ لیلیٰ و مجنون بِهِشته‌اند
(امیر حسن سجزی دهلوی)

جب سے میرا اور تمہارا قصّہ عالَم میں نشر ہوا ہے، یاروں نے لیلیٰ و مجنوں کی حکایت کو ترک کر دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رُودکی سمرقندی اپنے ایک مدحیہ قصیدے میں کہتے ہیں:
ورْش بِدیدی سِفَندیار گهِ رزم

پیشِ سِنانش جهان دویدی و لرزان
(رودکی سمرقندی)
اور اگر اِسفندیار اُسے جنگ کے وقت دیکھ لیتا تو اُس کے نیزے کے مقابل جَست لگاتے ہوئے اور لرزتے ہوئے [دور] بھاگتا۔
× اِسفَندیار = ایک اساطیری بہادر جنگجو کا نام
 
آخری تدوین:
Top