محمد وارث

لائبریرین
سوختم اما نہ چوں شمعِ طرب در بینِ جمع
لالہ ام کز داغِ تنہائی بہ صحرا سوختم


رھی مُعیری

میں جل گیا لیکن نہ اس طرح کہ جیسے خوشی کے مجمعوں میں شمع جلتی ہے، میں تو لالہ کے پھول کی مانند ہوں‌ کہ جو داغِ تنہائی سے صحرا میں جل گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نه افغانیم و نه تُرک و تتاریم،
چمن‌زادیم و از یک نوبهاریم.
تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است،
که ما پروردهٔ یک شاخساریم.

(علامه اقبال لاهوری)
ہم نہ افغان ہیں اور نہ تُرک و تاتار ہیں۔۔۔ ہم چمن زادے ہیں اور ایک [ہی] نوبہار سے ہیں۔۔۔ رنگ و بو کی تمیز ہم پر حرام ہے۔۔۔ کیونکہ ہم ایک [ہی] شاخسار کے پرورش یافتہ ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز بی‌غمی نبُوَد رنگِ رویِ من برجا
ز ضعف رنگِ مرا قُوّتِ پریدن نیست

(صائب تبریزی)
میرے چہرے کا رنگ بے غمی کے باعث باقی و برقرار نہیں ہے۔۔۔ [بلکہ] کمزوری کے سبب میرے رنگ کو قوّتِ پرواز نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آه تا کَی ناله تا کَی اشک تا کَی در فراق
سینه مجروح از غم است و اِلتِیامم آرزوست

(مولانا سعدیِ زمان حُسینی)
فراق میں آہ کب تک؟ نالہ کب تک؟ اشک کب تک؟۔۔۔ میرا سینہ غم سے مجروح ہے اور مجھے [زخم کی] شِفایابی کی آزرو ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بیدل ار واقفی ز سرِ یقین
ترک کن قصۂ من و ما را


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

بیدل اگر تُو یقین کے اسرار سے واقف ہے تو یہ "میں اور ہم" کا قصہ ترک کر دے، ختم کر دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک حدیثِ نبوی کا منظوم فارسی ترجمہ:
سر ز مادر مکَش که تاجِ شرف
گردی از راهِ مادران باشد
خاک شو زیرِ پایِ او که بهشت
در قدم‌‌گاهِ مادران باشد

(عبدالرحمٰن جامی)
[اپنی] مادر کی نافرمانی و سرکَشی مت کرو کیونکہ مادروں کی راہ کی ذرا سی گَرد تاجِ شرَف ہے۔۔۔ اُس کے پاؤں کے زیر میں خاک ہو جاؤ کیونکہ بہشت مادروں کی قدم گاہ میں ہے۔

محمد فضولی بغدادی نے اِس حدیث کا منظوم تُرکی ترجمہ یوں کیا ہے:
ایک حدیثِ نبوی کا منظوم تُرکی ترجمہ:
آنالار حُرمتین توتون که مُدام
قابلِ رحمتِ اِلٰه اۏلاسېز
آیاغې آلتېنا سۆرۆن اۆزلر
گر دیلرسیز که جنّتی بولاسېز

(محمد فضولی بغدادی)
مادروں کی حُرمت رکھیے تاکہ آپ ہمیشہ خدا کی رحمت کے قابل ہو جائیں۔۔۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جنت کو پا لیں تو [مادر] کے پاؤں کے زیر میں [اپنے] چہرے مَلیے۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Analar hörmətin tutun ki, müdam
Qabili-rəhməti-ilah olasız.
Ayağı altına sürün üzlər,
Gər dilərsiz ki, cənnəti bulasız.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Analar hürmetin tutun ki müdâm
Kâbil-i rahmet-i ilâh olasız
Ayağı altına sürün yüzler
Ger dilersiz ki cenneti bulasız
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اعترافِ جهل هم صِنفی‌ست از اَصنافِ علم
عیبِ نفس آن است کز عیبِ جهالت غافل است

(محمد فضولی بغدادی)
[اپنے] جہل کا اعتراف بھی اَصنافِ علم میں سے ایک صِنف ہے۔۔۔ عیبِ نفس تو یہ ہے کہ [کوئی شخص خود کے] عیبِ جہالت سے غافل ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی 'ساقی‌نامه' میں فرماتے ہیں:
بیا ساقی آن راحت‌افزایِ روح
که طوفانِ غم راست کشتیِ نوح

(محمد فضولی بغدادی)
اے ساقی! آؤ وہ راحت افزائے روح [لے آؤ] کہ جو طوفانِ غم کے لیے کشتیِ نوح ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی ایک نعتیہ بیت میں کہتے ہیں:
مه کرده ز شوق، سینه را چاک
از حسرتِ شعلهٔ کمالش

(محمد فضولی بغدادی)
ماہ نے اُن کے شعلۂ کمال کی حسرت سے اشتیاقاً [خود کے] سینے کو چاک کر دیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
رهِ حِرص است آن راهی که پیدا نیست پایانش

(محمد فضولی بغدادی)
راہِ حِرص وہ راہ ہے کہ جس کا اختتام ظاہر نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به خوبانِ خُجندی گوشهٔ چشمی نمی‌سازم
که جان و دل بُوَد مُشتاقِ تُرکانِ سمرقندی

(هَجری)
میں شہرِ خُجند کے خُوباں کی جانب کوئی گوشۂ چشم نہیں کرتا کیونکہ [میری] جان و دل تُرکانِ سمرقندی کے مُشتاق ہیں۔

× جس مأخذ سے میں نے یہ بیت نقل کی ہے، اُس میں 'جان و دل' کی بجائے 'جانِ دل' درج ہے، جو میری نظر میں درست نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عَجزی سمرقندی اپنی نظم 'سمرقند' کے مطلع میں شہرِ سمرقند کی ستائش میں کہتے ہیں:
ای هوایِ مُشک‌آمیزت صفابخشِ فضا!
وی غُبارت داده بر آیینهٔ عالَم جلا!

(عَجزی سمرقندی)
اے [کہ] تمہاری مشُک آمیز ہوا فضا کو صفا بخشتی ہے۔۔۔۔ اور اے [کہ] تمہارے غُبار نے آئینۂ عالَم کو تابش و درخشندگی دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از نسلِ حور یا ز مَلَک آفریده‌ای
نسبت چه سان به آدم و حوّا کنم تو را

(شاه فایض بُخارایی)
تم حُور یا فرشتے کی نسل سے تخلیق ہوئے ہو۔۔۔ میں تمہاری نسبت آدم و حوّا کے ساتھ کس طرح کروں؟
 

حسان خان

لائبریرین
میرزا اکرم فکری کی مُخمّس 'در تعریفِ سمرقند' کا بندِ اول:
بیا، ای دل، تماشا کن که خوبان در سمرقند است
سمن‌بر، لاله‌رو، آهونگاهان در سمرقند است
ستم‌گر، نازپرور، نازنینان در سمرقند است
سهی‌قد، ماه‌پیکر، خوش‌خرامان در سمرقند است
سمن‌رو و پری‌اندام و جانا‌‌ن در سمرقند است

(میرزا اکرم فکری)
آؤ، اے دل، تماشا کرو کہ خُوباں سمرقند میں ہیں
سمن بر، لالہ رُو، آہو نگاہاں سمرقند میں ہیں
ستمگر، ناز پروَر، نازنیناں سمرقند میں ہیں
سَرْو قد، ماہ پیکر، خوش خِراماں سمرقند میں ہیں
سمن رُو و پری اندام و جاناں سمرقند میں ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
ای جان، از آن به سینهٔ خود جا کنم تو را
تا صَرفِ راهِ آن بُتِ رعنا کنم تو را

(شاه فایض بُخارایی)
اے جان! میں تمہیں خود کے سینے میں اِس لیے جگہ دیتا ہوں تاکہ تمہیں اُس بُتِ رعنا کی راہ میں صَرف کر دوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک حدیثِ نبوی کا منظوم فارسی ترجمہ:
هر کسی را لقب مکن مؤمن
گرچه از سعیِ جان و تن کاهد
تا نخواهد برادرِ خود را
آنچه از بهرِ خویشتن خواهد

(عبدالرحمٰن جامی)
ہر ایک شخص کو 'مؤمن' کا لقب مت دو۔۔۔ خواہ وہ [دین و ایمان کی راہ میں] جان و تن کی سعی و کوشش سے لاغر ہو جائے۔۔۔ جس وقت تک کہ وہ اپنے برادر کے لیے وہ چیز نہ چاہے، جو وہ خود کے لیے چاہتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی 'ساقی‌نامه' میں فرماتے ہیں:
سر از خوابِ غفلت چو برداشتم
لِوایِ فِراست برافراشتم
فِکندم به آثارِ حکمت نظر
به معمورهٔ صُنع کردم گُذر
ندیدم بِه از میکده منزلی
چو پیرِ مُغان مُرشدِ کاملی

(محمد فضولی بغدادی)
جب میں نے خوابِ غفلت سے سر اُٹھایا۔۔۔ [اور] پرچمِ ادراک و دانائی کو بلند کیا۔۔۔ [جب] میں نے آثارِ حِکمت پر نظر ڈالی۔۔۔ [اور خدا کی] تخلیق کے معمورے میں گُذر کیا۔۔۔ میں نے میکدے سے بہتر کوئی منزل نہ دیکھی۔۔۔ [اور نہ] پیرِ مُغاں جیسا کوئی مُرشدِ کامل [دیکھا]۔
 

حسان خان

لائبریرین
دارم ز هر که طالبِ دنیاست نفرتی
سلطانم، از گداصفتان عار می‌کنم

(محمد فضولی بغدادی)
جو بھی شخص طالبِ دنیا ہے، میں اُس سے نفرت رکھتا ہوں۔۔۔ میں سُلطان ہوں، مجھے گدا صِفت افراد سے شرم و بیزاری ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

اے دل چو فراقِ یار دیدی خوں شو
وے دیدہ موافقت بکن جیحوں شو
اے جاں تو عزیز تر نہ ای از یارم
بے یار نخواہمت ز تن بیروں شو


اے دل، جب کہ تُو نے یار کی جدائی دیکھ لی، سو خون ہو جا، اور اے آنکھوں موافقت کرو اور (رو رو کر) دریا ہو جاؤ۔ اے جان تُو مجھے یار سے زیادہ عزیز نہیں ہے اور یار کے بغیر میں تجھے بھی نہیں چاہتا، سو جسم سے باہر چلی جا۔
 

حسان خان

لائبریرین
در خدمتِ مُلوک و سلاطین کسی که کرد
صَرفِ متاعِ عُمر پیِ اکتسابِ جاه
در حیرتم که روزِ جزا چیست عُذرِ او
چون می‌کند به جانبِ معبودِ خود نگاه؟

(محمد فضولی بغدادی)
جس شخص نے جاہ و حشمت و شان و شوکت کے حُصول کے لیے متاعِ عُمر کو مُلوک و سلاطین کی خدمت میں صرف کر دیا ہو، میں حیرت میں ہوں کہ جب وہ بہ روزِ جزا اپنے معبود کی جانب نگاہ کرے گا کہ تو [اپنے اِس عمل کے لیے] اُس کا عُذر کیا ہو گا؟

× آخری دو مصرعوں کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے:
میں حیرت میں ہوں کہ بہ روزِ جزا اُس کا عُذر کیا ہو گا؟ [اور] وہ خود کے معبود کی جانب کیسے نگاہ کرے گا؟
 
آخری تدوین:
Top