حسان خان

لائبریرین
ساقی بیار باده و پُر کن به جامِ ما
تا نُه رِواقِ چرخ بِگردد به کامِ ما

(عایشه دُرّانی)
اے ساقی! بادہ لے آؤ اور ہمارے جام میں پُر کر دو۔۔۔ تاکہ فلک کے نو ایوان ہماری مُراد و آرزو کے موافق گھومیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دامی نهاده‌ام به رهِ عشقت ای صنم
باشد که مُرغِ وصلِ تو افتد به دامِ ما

(عایشه دُرّانی)
اے صنم! میں نے تمہارے عشق کی راہ میں ایک دام بِچھایا ہوا ہے کہ شاید تمہارا پرندۂ وصل ہمارے دام میں گِر جائے۔
× دام = جال
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سر بر سریرِ عرش رسانم ز افتخار
گر پرتوِ جمال تو افتد به بامِ ما

(عایشه دُرّانی)
اگر تمہارے حُسن کا پرتَو ہمارے بام پر گِر جائے تو میں فخر سے اپنا سر عرش کے تخت پر پہنچا دوں گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اسپِ تازی زیرِ پالان گشته مجروح و ضعیف
طوقِ زر در گردنِ خر شد نمی‌دانم چرا

(عایشه دُرّانی)
اسپِ عربی پالان کے زیر میں مجروح و ضعیف ہو گیا ہے، [جبکہ] خر کی گردن میں‌ طوقِ زرّیں آ گیا [ہے]۔۔۔ میں نہیں جانتی کیوں؟

تشریح: عربی اسْپوں (گھوڑوں) کو اسپوں کی اعلیٰ ترین نسل مانا جاتا ہے۔ جبکہ خر کو اُس کے مقابلے میں کمتر حیثیت والا سمجھا جاتا ہے۔ شاعرہ زمانے اور مُعاشرے کی پریشان حالی کا ذکر اور شِکوَہ کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ جو نجیب و اصیل اسپِ عربی تھا وہ تو لاغر و مجروح و کمزور کھڑا ہے، یعنی زمانے کی ناقدردانی کا شکار ہے، جبکہ دیگر جانب خر کی گردن میں زر سے بنا طوق موجود ہے۔ یعنی اب خروں کی عربی اسپوں سے بیشتر تعظیم کی جا رہی ہے۔ شاعرہ بیت کے آخر میں لاعلمی و حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ اُن کو اِس کا سبب نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ اِس اظہارِ لاعلمی میں بھی ہم عصر زمانے کے بے ترتیب و درہم ہونے کی ایک شکایت محسوس ہوتی ہے۔
'پالان' باربردار جانوروں کی پُشت پر رکھے جانی والی گدّی کو کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
من آں مرغم کہ دارم آشیاں در دامنِ صحرا
کند بادِ صبا بیہودہ در بُستاں سراغِ من


چندر بھان برہمن

میں وہ پرندہ ہوں کہ میرا آشیاں صحرا کے دامن میں ہے، بادِ صبا فضول ہی میرا سراغ گلستانوں میں لگاتی پھرتی ہے۔
 
چنان در جستجویت شد بمحشر شورشی پیدا
که طومارِ شفاعت از کفِ پیغمبران گم شد
(ظهیر فاریابی)

محشر میں تیری جستجو کی وجہ سے ایسی شورش پیدا ہوئی کہ پیغمبروں کی کف سے دفترِ شفاعت گم ہوگیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چو تو ہرگز نباشد خواجہ ما را
چو ما ہرگز ترا نبود غلامے


شیخ شرف الدین پانی پتی (بُو علی قلندر)

ہمارے لیے تیرے جیسا آقا ہرگز کوئی اور نہیں ہو سکتا، اور تیرے لیے ہمارے جیسا غلام بھی کوئی اور نہ ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو گِردِ کسی گَرد که او گِردِ تو گَردد
تو یارِ کسی باش که او یارِ تو باشد
(سلمان ساوجی)

تم اُس شخص کے گِرد گھومو جو تمہارے گِرد گھومے۔۔۔ تم اُس شخص کے یار بنو جو تمہارا یار ہو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
گماں مبر کہ نصیبِ تو نیست جلوۂ دوست
درونِ سینہ ہنوز آرزوے تو خام است


علامہ محمد اقبال ۔ (زبورِ عجم)

یہ خیال مت کر کہ تیرے نصیب میں جلوۂ دوست نہیں ہے، (سچ تو یہ ہے کہ) تیرے سینے میں ابھی تک تیری آرزو خام ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کرگس و زاغ و زغن بِگْرفته جایِ عندلیب
بُلبُلان بی‌بال و بی‌پر شد نمی‌دانم چرا

(عایشه دُرّانی)
کرگس و زاغ و زغن نے بُلبُل کی جگہ لے لی ہے، [جبکہ] بُلبُل بے بال و پر ہو گئے [ہیں]، میں نہیں جانتی کیوں؟
× کرگَس = گِدھ | زاغ = کوّا | زغن = چِیل
 

حسان خان

لائبریرین
ای عزیزان سر به سر کارِ جهان است واژگون
سر همه پا، پا همه سر شد نمی‌دانم چرا

(عایشه دُرّانی)
اے عزیزو! کارِ جہاں سرتاسر معکوس ہے۔۔۔۔ تمام سر پا، اور تمام پا سر ہو گئے [ہیں]، میں نہیں جانتی کیوں؟
* معکوس = اُلٹا
 

حسان خان

لائبریرین
کرگس و زاغ و زغن کرده به گُلشن مأویٰ
عندلیبان همه سرگشته و بی‌بال و پر است

(عایشه دُرّانی)
کرگس و زاغ و زغن نے گُلشن میں سُکونت کر لی ہے، جبکہ تمام بُلبُل سرگشتہ و بے بال و پر ہیں۔
× کرگَس = گِدھ | زاغ = کوّا | زغن = چِیل
 

حسان خان

لائبریرین
آمد نسیمِ صبح‌دم ترسم که آزارش کُند
تحریکِ زُلفِ عنبرش از خواب بیدارش کُند

(عُثمان بیگ)
بادِ صبح آ گئی، میں ڈرتا ہوں کہ وہ اُس [محبوب] کو آزُردہ کر دے گی۔۔۔ اُس کی زُلفِ عنبرآلود کی حَرکت اُس کو خواب سے بیدار کر دے گی۔

مأخذ: تذکرة‌الشعراء - سید عظیم شیروانی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
با تو در دوزخِ سوزان بِتوان زیست مُدام
بی تو با حورِ جِنان روضهٔ رِضوان چه کنم

(عایشه دُرّانی)
تمہارے ساتھ دوزخِ سوزاں میں [بھی] ہمیشہ رہا جا سکتا ہے۔۔۔ [لیکن] تمہارے بغیر میں حُورِ جنّت اور باغِ رضواں کے ساتھ کیا کروں؟
 

حسان خان

لائبریرین
هر کسی کِشتهٔ خود می‌دِرَوَد آخرِ کار
هستم از فعلِ بدِ خویش پشیمان چه کنم

(عایشه دُرّانی)
ہر کوئی آخرِ کار خود کا بویا ہوا کاٹتا ہے۔۔۔ میں خود کے فعلِ بد سے پشیمان ہوں، کیا کروں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
لُطفے ، امدادے ، مدارے ، نیازے ، خدمتے
اے ز معنٰی غافل! آدم شو بہ ایں مقدار ہا

(میرزا عبد القادر بیدل)
کسی پر مہربانی ، کسی کی مدد ، کسی سے مروت اور کسی کی خدمت کر۔
اے حقیقت سے بے خبر انسان! اگر انسان بننا ہے ، تو ان صفات کا انسان بن
(ترجمہ از سید نصیر الدین نصیر)
 

الف نظامی

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب، بیدل کا کلام اردو ترجمے کے ساتھ تو میں بھی سالہا سال سے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن افسوس نہیں ملتا بلکہ مجھے تو صرف فارسی کلیات بھی نہیں ملے۔

لیکن اس تلاش میں ایک نایاب کتاب میرے ہاتھ لگی، اس کتاب کا نام Life and Works of Abdul Qadir Bedil ہے اور یہ ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کا Ph. D thesis ہے اس میں بیدل کا کچھ کلام نمونے کے طور پر مع انگریزی ترجمہ کے موجود ہے اور وہیں سے دیکھ کر لکھتا ہوں۔ یہ کتاب 1960 میں چھپی تھی اور بہت اعلٰی اور تحقیقی مواد سے بھر پور ہے، مصنف نے اس سلسلے میں افغانستان کا سفر بھی کیا تھا اور وجہ یہ ہے کہ بیدل کا اب بھی افغانستان میں وہی مقام ہے جو غالب اور اقبال کا برصغیر ہندوستان، پاکستان میں اور افغانستان میں ہر پڑھے لکھے شخص کے پاس کلیاتِ بیدل ہوتے ہیں جیسے یہاں غالب کا دیوان اور اقبال کی کتب ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر عبد الغنی کی اس کتاب کا فارسی ترجمہ دیکھیے
احوال و آثار
میرزا عبد القادر بیدل
تالیف دکتور عبد الغنی
ترجمہ میر محمد آصف انصاری

 

حسان خان

لائبریرین
از چشمِ ساقی مستِ شرابم
بی مَی خرابم، بی مَی خرابم

(علامه اقبال لاهوری)
میں چشمِ ساقی کے باعث شراب میں مست ہوں۔۔۔۔ میں شراب کے بغیر [ہی] سیاہ مست ہوں، میں شراب کے بغیر [ہی] سیاہ مست ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
یا رب این راه بر من آسان کن
دیوِ نفسِ مرا مسلمان کن

(فخرالدین مبارک شاه مَرْورُودی)
یا رب! اِس راہ کو مجھ پر آسان کر دو۔۔۔ میرے نفْس کے شیطان کو مسلمان کر دو۔
 

فہد اشرف

محفلین
بدیدن ہمایوں بہ بالا بلند
بابرو کمان و بگیسو کمند
چو سروے کہ کند در کمند
ز گیسو بنفشہ ز عارض سمن

”کند در کمند“ کے معنی کیا ہیں؟ اور ”سروے“ سرو کا درخت ہے یا کچھ اور؟
شعر کا ماخذ جودھا بائی کی ایک پورٹریٹ ہے۔
 
Top