حسان خان

لائبریرین
تنها نگهِ او دلِ ما را نفریبد
چشمِ همه خوبانِ جهان شعبده‌باز است

(نظمی تبریزی)
فقط ایک اُس کی نگاہ ہمارے دل کو فریب نہیں دیتی، [بلکہ] تمام خُوبانِ جہاں کی چشم شُعبَدہ باز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نظامی گنجوی کی مثنوی 'شرف‌نامه' سے ایک اقتباس:
چُنین گوید آن پیرِ دیرینه‌سال
ز تاریخِ شاهانِ پیشینه‌حال
که در بزمِ خاصِ مَلِک فَیلَقُوس
بُتی بود پاکیزه و نوعَروس
به دیدن هُمایون به بالا بلند
به ابرو کمان‌کَش به گیسو کمند
چو سروی که پیدا کند در چمن
ز گیسو بنفشه ز عارِض سمن
جمالی چو در نیم‌روز آفتاب
کرشمه‌کُنان نرگسی نیم‌خواب
سرِ زُلفِ پیچان چو مُشکِ سیاه
وزو مُشک‌بُو گشته مُشکویِ شاه
بر آن ماه‌رو شه چُنان مهربان
که جُز یادِ او نامدش بر زبان

(نظامی گنجوی)
وہ پیرِ سالخوردہ شاہانِ سابق کی تاریخ میں سے کہتا ہے کہ پادشاہ فَیلَقُوس کی بزمِ خاص میں ایک پاکیزہ و نوعَروس نِگارِ زیبا تھا جس کا دیدار مبارک تھا اور جس کی قامت بلند تھی، جس کا ابرو کمان دار، اور جس کی گیسو کمند تھی، وہ اِک ایسے سَرو کی مانند تھا جو چمن میں ظاہر ہوتا ہے، اُس کے گیسو گُلِ بنفشہ اور اُس کے رُخسار گُلِ سمن تھے۔۔ اُس کا جمال ایسا تھا جیسے بہ وقتِ نیم روز خورشید ہو، اور اُس کی نیم خوابیدہ چشمِ نرگس ناز و غمزہ کُناں تھی۔ اُس کی زُلفِ پیچاں کا سِرا مُشکِ سیاہ کی مانند تھا، اور اُس سے شاہ کی حرم سرا مُشک آلود ہو گئی تھی۔ اُس ماہ رُو سے شاہ اِس طرح محبّت کرتا تھا کہ شاہ کی زبان پر اُس کی یاد کے بجُز نہ آتا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رازی که از آن هیچ کس آگاه نباشد
در سینهٔ ما جوی که گنجینهٔ راز است

(‌نظمی تبریزی)
وہ راز کہ جس سے کوئی بھی شخص آگاہ نہ ہو، [اُس کو] ہمارے سینے میں تلاش کرو کہ [یہ] گنجینۂ راز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گُفتم که سرِ زُلفِ تو روزی به کف آرم
گُفتا که اُمیدِ تو عجب دور و دراز است

(نظمی تبریزی)
میں نے کہا کہ: میں ایک روز تمہارے سرِ زُلف کو [اپنے] دست میں لے آؤں گا۔۔۔ اُس نے کہا کہ: تمہاری اُمید عجب دور و دراز ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
به هر کاری زدم دست و ندیدم
به عالَم خوش‌تر از کارِ محبّت

(نظمی تبریزی)
میں نے ہر ایک کار کو آزمایا، [لیکن] میں نے عالَم میں کارِ محبّت سے خوب تر [کار] نہیں دیکھا۔
× کار = کام
 

حسان خان

لائبریرین
ای مرهمِ هر سینهٔ مجروح لبِ تو
فرسوده قدم‌هایِ دلم در طلبِ تو

(اثیر اخسیکَتی)
اے [کہ] تمہارا لب ہر سینۂ مجروح کا مرہم ہے۔۔۔ میرے دل کے قدم تمہاری طلب میں فرسودہ ہو گئے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نوروز درآمد و برآورد
هر گنج که در زمین دفین است

(ادیب صابر تِرمِذی)
نوروز داخل ہو گیا، اور زمین میں جو بھی خزانہ مدفون تھا، اُس کو وہ بالا لے آیا۔

تشریح:
عیسوی تقویم کے مطابق ہر سال ۲۰-۲۱ مارچ کو خورشید بُرجِ حَمَل میں داخل ہوتا ہے جس کو موسمِ بہار کا آغاز سمجھا جاتا ہے، اور اِسی آمدِ بہار کی خوشی میں اور فصلِ بہار کے استقبال میں ہر سال اِس روز 'نوروز' نامی جشن اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ایران و افغانستان میں سرکاری سطح پر رائج شمسی ہجری تقویم کے سالِ نو کی ابتداء بھی اِسی 'نوروز' کے روز ہوتی ہے۔
شاعر نے یہ بیت وصفِ آغازِ بہار میں کہی ہے۔ بہار کی آمد سے قبل تک زمین خُشکیدہ، اور اُس کی سرسبزی مفقود ہوتی ہے۔ شاعر نے سبزے اور گیاہ و درخت کو زمین کے خزانوں سے تشبیہ دی ہے اور اُس کی نگاہ میں زمین کی بے سبزی ایسی ہے گویا زمین کا خزانہ زمین کے اندر مدفون ہو۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ جب نوروز داخل ہوا تو وہ زمین کے تمام خزانوں کو بالا و بیرون لے آیا، یعنی نوروز نے زمین کو دوبارہ سرسبز کر دیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغان شاعر خلیل‌الله خلیلی پشتو کے دو معروف ترین شاعروں خوشحال خان ختک اور عبدالرحمٰن بابا کی توصیف میں کہتے ہیں:
موج‌ها دارد چو دریا طبعِ خوشحالِ ختک
می‌نماید پیشِ طبعِ وی اباسین فرغَری
نغمهٔ رحمٰن سُرودِ ذوق می‌خوانَد به گوش
می‌کند همچون پدر ما را به عرفان رهبری

(خلیل‌الله خلیلی)
خوشحال ختک کی طبعِ [شاعری] بحر جیسی امواج رکھتی ہے۔۔۔ اُن کی طبعِ [شاعری] کے پیش میں اباسین (دریائے سندھ) جُوئے کُوچک و خشکیدہ نظر آتا ہے۔۔۔ رحمٰن بابا کا نغمہ کان میں سُرودِ ذوق گُنگُناتا ہے، اور پدر کی مانند ہماری [تصوّف و] عرفان کی جانب رہبری کرتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آزادگی‌ست گوهرِ تاجِ حیاتِ قوم
ای وای ما چه گوهرِ یکتا فروختیم

(خلیل‌الله خلیلی)
آزادگی قوم کی حیات کے تاج کا گوہر ہے۔۔۔ اے وائے! ہم نے کیسا گوہرِ یکتا فروخت کر دیا۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
بگذر زِ غنا تا نشوی دشمنِ احباب
اول سبقِ حاصلِ زر ترکِ سلام است

(بیدل)
ترجمہ: تو دولت مندی کو چھوڑ دے ، تا کہ دوستوں کا دشمن نہ بن جائے ، کیوں کہ حصولِ زر کا پہلا سبق احباب سے سلام کا انقطاع ہوتا ہے
(ترجمہ از سید نصیر الدین نصیر)
 

الف نظامی

لائبریرین
چہ شد زبانِ تمنا خموش آہنگ است
نگاہ نامہ ء سائل بس است سوئے کریم

(بیدل)
اگر تمنا اور حاجت مندی کی زبان آہنگِ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے تو کیا ہوا؟
سائل کا کریم کی طرف نگاہ کا پیام ہی کافی ہے۔
یہاں سائل کی نگاہ کو پیام سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں حسن یہ ہے کہ گویا سائل نے کریم کو صرف دیکھا نہیں ، بلکہ اس کی التفاتِ نگاہ کے نام ایک خط بھیجا ہے ، ظاہر ہے اربابِ مروت کسی کے خط کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں
(ترجمہ از سید نصیر الدین نصیر)
 

الف نظامی

لائبریرین
از قضا آئینہ چینی شکست
خوب شد سامان خودبینی شکست
شہزادی زیب النساء کا کہا ہوا شعر ہے جو ایک اعلی خطاط بھی تھیں۔

متعلقہ:
روزی زیب‌النساء در حضورِ پدرش نشستہ بود. در آن حجره یک آیینہ قدنَما و گران‌بها در طاقچہ گذاشتہ بودند. ناگاه آیینہ بہ علتِ نامعلومی افتاد و شکست. در این هنگام این مصرع بی‌اختیار از زبانِ عالمگیر (اورنگزیب - پادشاهِ هندوستان - پدرِ زیب‌النساء) جاری شد:
از قضا آیینہ چینی شکست
زیب‌النساء فی‌البدیہہ مصرعِ دومِ آن را چنین ساخت:
خوب شد اسبابِ خودبینی شکست.
ماخذ: تاجکستان کا سرکاری نشریہ 'جمہوریت'

ایک روز زیب النساء اپنے والد کے حضور میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس حجرے میں ایک قدنما و گراں بہا آئینہ طاقچے میں رکھا ہوا تھا۔ دفعتاً آئینہ کسی نامعلوم سبب سے گر کر ٹوٹ گیا۔ اس موقع پر عالمگیر (اورنگزیب - بادشاہِ ہند - پدرِ زیب النساء) کی زبان سے بے اختیار یہ مصرع جاری ہوا:
از قضا آیینهٔ چینی شکست،
(قضا کے ہاتھوں چینی آئینہ ٹوٹ گیا)
زیب النساء نے فی البدیہہ اُس کا مصرعِ ثانی یوں باندھا:
خوب شد اسبابِ خودبینی شکست۔
(اچھا ہوا، اسبابِ خودبینی ٹوٹ گئے)

× قدنما آئینہ = پورا قد دکھانے والا آئینہ
 
محاورہ مابین خدا و انسان
از علامہ اقبال


خدا

جہاں راز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی

من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی

تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائر نغمہ زن را

انسان

تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
※※※※※
خدا اور انسان
ترجمہ فیض احمد فیض

خدا

میں نے اِک مٹی سے یہ سارا جہاں پیدا کیا
تونے قفقاز و تتار وسیستاں پیدا کیے

میں نے اس مٹی سے فولادِ گراں پیدا کیا
تو نے شمشیر و تبر، تیر و سناں پیدا کیے

تیرا تیشہ نہالِ چمن کے لیے
اور قفس طائرِ نغمہ زن کے لیے

انسان

رات پیدا تو نے کی، پیدا کیا میں نے چراغ
خاک پیدا تو نے کی، پیدا کیا میں نے ایاغ

تیری قدرت نے بنائے کوہ و صحرا، دشت و راغ
میری محنت نے بنائے گلشن و گلزار و باغ

سنگ سے میں نے آئینہ پیدا کیا
زہر سے میں نے نوشینہ پیدا کیا
※※※※※​
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از حالِ دلم اگر بِپُرسد
آواره و در‌به‌در بِگویید

(عبدالغفور ندیم کابُلی)
اگر وہ میرے دل کے حال کے بارے میں پوچھے تو آوارہ و در بدر کہیے گا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بدیدن ہمایوں بہ بالا بلند
بابرو کمان و بگیسو کمند
چو سروے کہ کند در کمند
ز گیسو بنفشہ ز عارض سمن

”کند در کمند“ کے معنی کیا ہیں؟ اور ”سروے“ سرو کا درخت ہے یا کچھ اور؟
شعر کا ماخذ جودھا بائی کی ایک پورٹریٹ ہے۔
تیسرے مصرعے کا وزن درست نہیں ہے، کوئی لفظ رہ گیا ہے۔ سروے، سرو کا درخت ہی ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
تیسرے مصرعے کا وزن درست نہیں ہے، کوئی لفظ رہ گیا ہے۔ سروے، سرو کا درخت ہی ہے۔
نظامی گنجوی کی مثنوی 'شرف‌نامه' سے ایک اقتباس:
چُنین گوید آن پیرِ دیرینه‌سال
ز تاریخِ شاهانِ پیشینه‌حال
که در بزمِ خاصِ مَلِک فَیلَقُوس
بُتی بود پاکیزه و نوعَروس
به دیدن هُمایون به بالا بلند
به ابرو کمان‌کَش به گیسو کمند
چو سروی که پیدا کند در چمن
ز گیسو بنفشه ز عارِض سمن
جمالی چو در نیم‌روز آفتاب
کرشمه‌کُنان نرگسی نیم‌خواب
سرِ زُلفِ پیچان چو مُشکِ سیاه
وزو مُشک‌بُو گشته مُشکویِ شاه
بر آن ماه‌رو شه چُنان مهربان
که جُز یادِ او نامدش بر زبان

(نظامی گنجوی)
وہ پیرِ سالخوردہ شاہانِ سابق کی تاریخ کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ پادشاہ فَیلَقُوس کی بزمِ خاص میں ایک پاکیزہ و نوعَروس نِگارِ زیبا تھا جس کا دیدار مبارک تھا اور جس کی قامت بلند تھی، جس کا ابرو کمان دار، اور جس کی گیسو کمند تھی، وہ اِک ایسے سَرو کی مانند تھا جو چمن میں ظاہر ہوتا ہے، اُس کے گیسو گُلِ بنفشہ اور اُس کے رُخسار گُلِ سمن تھے۔۔ اُس کا جمال ایسا تھا جیسے بہ وقتِ نیم روز خورشید ہو، اور اُس کی نیم خوابیدہ چشمِ نرگس ناز و غمزہ کُناں تھی۔ اُس کی زُلفِ پیچاں کا سِرا مُشکِ سیاہ کی مانند تھا، اور اُس سے شاہ کی حرم سرا مُشک آلود ہو گئی تھی۔ اُس ماہ رُو سے شاہ اِس طرح محبّت کرتا تھا کہ شاہ کی زبان پر اُس کی یاد کے بجُز نہ آتا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

شوریدہ دِلے و قصہ گردوں گردوں
گریاں چشمے و اشک جیحوں جیحوں
کاہیدہ تنے و شعلہ خرمن خرمن
ہر شعلہ ز کوہِ قاف افزوں افزوں


دل پریشان و غمناک و سرگرداں ہے اور قصہ جگہ جگہ شہر شہر ہے۔ آنکھیں گریاں ہیں اور آنسو دریا دریا ہیں۔ جسم کی کھیتی کمزور ہے اور شعلے خرمن خرمن ہیں اور ہر شعلے کی لپک کوہِ قاف (قاف کے پہاڑوں) سے بھی بلند ہے۔ (پہلے مصرعے میں لفظ قصہ کی جگہ غصہ بھی ملتا ہے)۔
 
چو ریزم اشک، از دل آهِ دردآلود برخیزد
بلی باران چو بر آتش بریزد، دود برخیزد
(حیدری تبریزی)

جب میں آنسو بہاتا ہوں تو دل سے درد آلود آہ نکلتی ہے؛ بے شک جب آگ پر بارش گرے تو دھواں اٹھتا ہی ہے
 
Top