شہزادی زیب النساء کا کہا ہوا شعر ہے جو ایک اعلی خطاط بھی تھیں۔از قضا آئینہ چینی شکست
خوب شد سامان خودبینی شکست
روزی زیبالنساء در حضورِ پدرش نشستہ بود. در آن حجره یک آیینہ قدنَما و گرانبها در طاقچہ گذاشتہ بودند. ناگاه آیینہ بہ علتِ نامعلومی افتاد و شکست. در این هنگام این مصرع بیاختیار از زبانِ عالمگیر (اورنگزیب - پادشاهِ هندوستان - پدرِ زیبالنساء) جاری شد:
از قضا آیینہ چینی شکست
زیبالنساء فیالبدیہہ مصرعِ دومِ آن را چنین ساخت:
خوب شد اسبابِ خودبینی شکست.
ماخذ: تاجکستان کا سرکاری نشریہ 'جمہوریت'
ایک روز زیب النساء اپنے والد کے حضور میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس حجرے میں ایک قدنما و گراں بہا آئینہ طاقچے میں رکھا ہوا تھا۔ دفعتاً آئینہ کسی نامعلوم سبب سے گر کر ٹوٹ گیا۔ اس موقع پر عالمگیر (اورنگزیب - بادشاہِ ہند - پدرِ زیب النساء) کی زبان سے بے اختیار یہ مصرع جاری ہوا:
از قضا آیینهٔ چینی شکست،
(قضا کے ہاتھوں چینی آئینہ ٹوٹ گیا)
زیب النساء نے فی البدیہہ اُس کا مصرعِ ثانی یوں باندھا:
خوب شد اسبابِ خودبینی شکست۔
(اچھا ہوا، اسبابِ خودبینی ٹوٹ گئے)
× قدنما آئینہ = پورا قد دکھانے والا آئینہ
تیسرے مصرعے کا وزن درست نہیں ہے، کوئی لفظ رہ گیا ہے۔ سروے، سرو کا درخت ہی ہے۔بدیدن ہمایوں بہ بالا بلند
بابرو کمان و بگیسو کمند
چو سروے کہ کند در کمند
ز گیسو بنفشہ ز عارض سمن
”کند در کمند“ کے معنی کیا ہیں؟ اور ”سروے“ سرو کا درخت ہے یا کچھ اور؟
شعر کا ماخذ جودھا بائی کی ایک پورٹریٹ ہے۔
تیسرے مصرعے کا وزن درست نہیں ہے، کوئی لفظ رہ گیا ہے۔ سروے، سرو کا درخت ہی ہے۔
نظامی گنجوی کی مثنوی 'شرفنامه' سے ایک اقتباس:
چُنین گوید آن پیرِ دیرینهسال
ز تاریخِ شاهانِ پیشینهحال
که در بزمِ خاصِ مَلِک فَیلَقُوس
بُتی بود پاکیزه و نوعَروس
به دیدن هُمایون به بالا بلند
به ابرو کمانکَش به گیسو کمند
چو سروی که پیدا کند در چمن
ز گیسو بنفشه ز عارِض سمن
جمالی چو در نیمروز آفتاب
کرشمهکُنان نرگسی نیمخواب
سرِ زُلفِ پیچان چو مُشکِ سیاه
وزو مُشکبُو گشته مُشکویِ شاه
بر آن ماهرو شه چُنان مهربان
که جُز یادِ او نامدش بر زبان
(نظامی گنجوی)
وہ پیرِ سالخوردہ شاہانِ سابق کی تاریخ کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ پادشاہ فَیلَقُوس کی بزمِ خاص میں ایک پاکیزہ و نوعَروس نِگارِ زیبا تھا جس کا دیدار مبارک تھا اور جس کی قامت بلند تھی، جس کا ابرو کمان دار، اور جس کی گیسو کمند تھی، وہ اِک ایسے سَرو کی مانند تھا جو چمن میں ظاہر ہوتا ہے، اُس کے گیسو گُلِ بنفشہ اور اُس کے رُخسار گُلِ سمن تھے۔۔ اُس کا جمال ایسا تھا جیسے بہ وقتِ نیم روز خورشید ہو، اور اُس کی نیم خوابیدہ چشمِ نرگس ناز و غمزہ کُناں تھی۔ اُس کی زُلفِ پیچاں کا سِرا مُشکِ سیاہ کی مانند تھا، اور اُس سے شاہ کی حرم سرا مُشک آلود ہو گئی تھی۔ اُس ماہ رُو سے شاہ اِس طرح محبّت کرتا تھا کہ شاہ کی زبان پر اُس کی یاد کے بجُز نہ آتا تھا۔