حسان خان

لائبریرین
به شامِ بی‌کسی جز غم، غریبان را که می‌پُرسد؟
به غیر از درد، حالِ دردمندان را که می‌پُرسد؟

(حسرت حِصاری)
شامِ بے کَسی میں غم کے بجز بے چاروں کو کون پوچھتا ہے؟۔۔۔ درد کے بجز دردمندوں کا حال کون پوچھتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
به جز اشک از جبینم گَردِ مظلومی که می‌شُوید؟
به جز خونابِ حسرت چشمِ گریان را که می‌پُرسد؟

(حسرت حِصاری)
اشک کے بجز میری جبین سے مظلومی کی گَرد کون دھوتا ہے؟۔۔۔ پُرحسرت اشکِ خُونیں کے بجز [میری] چشمِ گِریاں کو کون پوچھتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ندانم، ای فلک، از چه سبب داری به ما کینه
زدی تو بی‌حیا ما را هزاران خار در سینه

(کریم دیوانه)
اے فلک! میں نہیں جانتا کہ تم کس سبب سے ہمارے ساتھ کینہ رکھتے ہو؟۔۔۔ اے بے حیا! تم نے [ہمارے] سینے میں ہزاروں خار مارے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تیر و توپ و لشکر و زندان داری، پادشاه
آهِ سوزان، اشکِ ریزان تیر و پیکانِ من است

(کریم دیوانه)
اے پادشاہ! تمہارے پاس تیر و توپ و لشکر و زندان ہیں
[جبکہ] میرے تیر و پَیکاں، آہِ سوزاں اور اشکِ ریزاں ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
در دل مرا همیشه خیالِ محمد است
جان را هوایِ بزمِ وصالِ محمد است

(جذبی حِصاری)
میرے دل میں ہمیشہ حضرتِ محمد کا خیال ہے۔۔۔ [میری] جان کو حضرتِ محمد کی بزمِ وصال کی آرزو ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
روز و شب وردِ زبان نامِ خدا باشد مرا
مونسِ جان هر نفَس حمد و ثنا باشد مرا

(جذبی حِصاری)
روز و شب [میرا] وِردِ زباں خدا کا نام ہے۔۔۔ ہر لمحہ میرا مونسِ جاں [خدا کی] حمد و ثنا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آمد بهار و فصلِ گُل و لاله‌زار شد
از بُویِ گُل تمامِ جهان مُشک‌بار شد

(جذبی حِصاری)
بہار آئی اور گُل و لالہ زار کا موسم ہو گیا۔۔۔ گُل کی خوشبو سے تمام جہاں مُشک بار ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
یک گُلی از گُلشنِ باغِ جهان گُم کرده‌ام
بُلبُلِ مستم که راهِ بوستان گُم کرده‌ام

(جذبی حِصاری)
میں نے باغِ جہاں کے گُلشن میں سے ایک گُل گُم کر دیا ہے۔۔۔ میں بُلبُل مست ہوں کہ میں نے بوستان کی راہ گُم کر دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هرگز مباد هیچ کسی دور از وطن
یوسف چه حَظ ز مصرِ زُلیخا گرفته‌است؟

(جذبی حِصاری)
[خدا کرے کہ] کوئی بھی شخص وطن سے ہرگز دور نہ ہو!۔۔۔ حضرتِ یوسف کو زُلیخا کے مِصر سے کون سی خوشی و بہرہ مندی حاصل ہوئی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
کسی که پای برون می‌نِهد ز کِشورِ خویش
اگرچه یوسفِ مصری بُوَد، در آزار است

(جذبی حِصاری)
جو شخص کہ اپنے مُلک سے پاؤں بیرون نِکالتا ہے، وہ اگرچہ یوسفِ مصری [بھی] ہو تو آزار میں [رہتا] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رنگِ حسرت، بُویِ کُلفت، خاکِ غُربت، گَردِ غم
این همه از دوریِ نقشِ کفِ پایِ توام

(حسرت حِصاری)
رنگِ حسرت، بُوئے مشقّت، خاکِ غریب الوطنی، گَردِ غم۔۔۔۔ یہ سب مَیں تمہارے نقشِ کفِ پا کی دُوری کے باعث ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قدم برون منه از کُلبهٔ وطن، جذبی
که داغِ محنتِ هجران ز مرگ دشوار است

(جذبی حِصاری)
اے 'جذبی'! [اپنا] قدم کُلبۂ وطن سے بیرون مت نِکالو۔۔۔ کہ داغِ غمِ ہجراں، موت سے زیادہ دشوار ہے۔
× کُلبَہ = جھونپڑی؛ کوٹھری
 

حسان خان

لائبریرین
مرو به غُربت و عیشِ وطن غنیمت دان
اسیرِ کِشورِ غُربت همیشه بیمار است

(جذبی حِصاری)
دیارِ غیر اور غریب الوطنی میں مت جاؤ اور وطن کے عیش و عشرت کو غنیمت جانو اور اُس سے فائدہ اُٹھاؤ۔۔۔۔ مُلکِ غریب الوطنی کا اسیر ہمیشہ بیمار [رہتا] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حیف عُمرِ تو که بی یادِ خدا می‌باشی
روز و شب در پَیِ این نفْس و هوا می‌باشی

(جذبی حِصاری)
تمہاری عُمر پر حَیف! کہ تم یادِ خُدا کے بغیر [رہتے] ہو۔۔۔۔ [اور] روز و شب اِس نفْس و ہوائے [نفْس] کے عقب میں [رہتے] ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

از ہستیِ خویش تا پشیماں نشوی
سرحلقۂ عارفاں و مستاں نشوی
تا در نظرِ خلق نگردی کافر
در مذہبِ عاشقاں مسلماں نشوی

جب تک تُو اپنی ہستی پر پشیماں نہ ہوگا (اور اپنی ہستی کی نفی نہ کرے گا) تب تک تُو عارف اور مست لوگوں کا سرپرست اور بزرگ نہ بنے گا۔ اور جب تک تُو لوگوں کی نظر میں کافر نہ ہوگا، تب تک تُو مذہبِ عاشقاں میں مُسلمان نہ ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
غیرِ عشقت راه‌بین جُستیم، نیست
جز نشانت هم‌نشنین جُستیم، نیست

(مولانا جلال‌الدین رومی)
ہم نے تمہارے عشق کے سوا [کوئی] راہ شِناس تلاش کیا، نہ مِلا۔۔۔۔ ہم نے تمہارے نِشان کے بجز [کوئی] ہم نشیں تلاش کیا، نہ مِلا۔
× مصرعِ دوم میں شاید وہ نِشان/نِشانی مُراد ہے جو کسی شخص یا چیز کے چلے جانے کے بعد باقی رہ جاتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
منم آں نہالِ خوبی، کہ بہ ایں شکستہ حالی
بہ تلاشِ سایہ ہر کس، بہ کنارِ من بیاید


جناب نصیر تُرابی صاحب (کراچی)

میں وہ نیک طینت، فائدہ مند، خوبیوں والا درخت ہوں کہ میری اس ساری شکستہ حالی کے باوجود، جس کسی کو بھی (چلچلاتی اور کڑی دھوپ میں) سائے کی تلاش ہوتی ہے وہ میرے پہلو میں آ جاتا ہے۔
 
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی

ترجمہ- اگر ذوقِ نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنی نوا کر تلخ تر کر دے، اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حدی خواں اپنی لے اور تیز کر دیتے ہیں۔

اس شعر کا ایک جگہ ترجمہ تحریر کرنا ہے۔
محمد وارث بھائی اس کا ترجمہ کنفرم کرنے کے لیے گوگل کیا تو آپ کے اس مراسلے تک آپہنچا۔ (آپ کا شکریہ) یہاں میں اپنی ایک الجھن دور کرنا چاہتا ہوں کہ"حدی را تیز تر می خواں" تو جملہ امر ہے اور صیغہ مخاطب ہے، جبکہ اس کا ترجمہ آپ نے "حدی خواں اپنی لے اور تیز کر دیتے ہیں۔" سے کیا ہے جو کہ مضارع ہے اور صیغہ غائب ہے۔ نیز شعر میں حدی کو "تیز خواندن" کا امر ہے جبکہ آپ کے ترجمہ میں حدی خواں کی "خبر" معلوم ہوتی ہے۔ ایسی تبدیلی کن قواعد کی بنا پر ہے؟
یہ صرف ایک طالب علمانہ الجھن ہے۔:)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی

ترجمہ- اگر ذوقِ نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنی نوا کر تلخ تر کر دے، اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حدی خواں اپنی لے اور تیز کر دیتے ہیں۔

اس شعر کا ایک جگہ ترجمہ تحریر کرنا ہے۔
محمد وارث بھائی اس کا ترجمہ کنفرم کرنے کے لیے گوگل کیا تو آپ کے اس مراسلے تک آپہنچا۔ (آپ کا شکریہ) یہاں میں اپنی ایک الجھن دور کرنا چاہتا ہوں کہ"حدی را تیز تر می خواں" تو جملہ امر ہے اور صیغہ مخاطب ہے، جبکہ اس کا ترجمہ آپ نے "حدی خواں اپنی لے اور تیز کر دیتے ہیں۔" سے کیا ہے جو کہ مضارع ہے اور صیغہ غائب ہے۔ نیز شعر میں حدی کو "تیز خواندن" کا امر ہے جبکہ آپ کے ترجمہ میں حدی خواں کی "خبر" معلوم ہوتی ہے۔ ایسی تبدیلی کن قواعد کی بنا پر ہے؟
یہ صرف ایک طالب علمانہ الجھن ہے۔:)
آپ کی بات درست ہے انصاری صاحب، میرے ترجمے میں واقعی کافی مسائل ہیں، اور یہ ترجمہ شاید اس وقت کا ہے جب صرف ذوق و شوق ہی سے ترجمہ کر دیا کرتا تھا۔ :)
 
Top