مثنویِ «خِردنامهٔ اسکندری» کے اختتام میں عبدالرحمٰن جامی اپنے شاگرد و دوست امیر علیشیر نوایی کی تحسین میں ایک جا کہتے ہیں:مثنویِ خِردنامهٔ اسکندری کے اختتام میں عبدالرحمٰن جامی اپنے شاگرد و دوست امیر علیشیر نوایی کی تحسین میں ایک جا کہتے ہیں:
زهی طبعِ تو اوستادِ سخن
ز مِفتاحِ کِلکت گُشادِ سُخن
(عبدالرحمٰن جامی)
زہے تمہاری طبعِ [شاعری]، اے اُستادِ سُخن!۔۔۔ تمہارے قلم کی کلید سے سُخن کو کُشاد [حاصل] ہے۔