حسان خان

لائبریرین
سمرقند صَیقلِ رُویِ زمین است
بُخارا قُوّتِ اسلام و دین است

(لاادری)
سمرقند رُوئے زمین کی صَیقل و جِلا ہے۔۔۔ بُخارا اسلام و دین کی قُوّت ہے۔

سمرقند و بُخارا پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہری اُزبک شاعر حمزه حکیم‌زاده نیازی کی ایک فارسی بیت:
دِلا، غافل مشو هرگز، نِگر گردونِ دُنیا را
شُمار اِمروز را فُرصت، مخور اندوهِ فردا را

(حمزه حکیم‌زاده نیازی)
اے دل! ہرگز غافل مت ہوؤ، چرخِ دُنیا کو نِگاہ کرو۔۔۔ اِمروز کو فُرصت شُمار کرو، فردا کا غم مت کھاؤ۔
× اِمروز = آج؛ فردا = آنے والا کل
 

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہری اُزبک شاعر حمزه حکیم‌زاده نیازی کی ایک فارسی بیت:
مکن اسرارِ خود ظاهر به نزدِ هر کس و ناکس
کُشودِ غُنچه‌ها آرَد خَزانِ برگِ زیبا را

(حمزه حکیم‌زاده نیازی)
ہر کس و ناکس کے سامنے اپنے اَسرار کو ظاہر مت کرو۔۔۔ غُنچوں کا کُھلنا [اپنے عقب میں] برگِ زیبا کی خزاں لاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون دید که در سُخن تمامم
«حسّانِ عجم» نِهاد نامم

(خاقانی شروانی)
جب [میرے عَمو نے] دیکھا کہ میں سُخن میں کامل ہوں تو اُنہوں نے میرا نام «حسّانِ عجم» رکھ دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شِروانی (رح) اپنے عَمو کی سِتائش میں کہتے ہیں:
با من به یتیم‌داری آن مَرد
آن کرد که عم به مُصطفیٰ کرد
(خاقانی شروانی)

اُس مرد نے یتیم پروَری میں میرے ساتھ وہ کیا جو مُصطفیٰ (ص) کے عَمو (حضرتِ ابوطالب) نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شِروانی ایک بیت میں اپنے مرحوم عَمو کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
فُروغِ فکر و صفایِ ضمیرم از عم بود
چو عم بِمُرد، بِمُرد آن همه فُروغ و صفا

(خاقانی شروانی)
میری فکر کی تابندگی اور میرے ضمیر کی پاکیزگی [میرے] عَمو کے باعث تھی۔۔۔ جب [میرے] عَمو مر گئے، تو وہ تمام تابندگی و پاکیزگی [بھی] مر گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شِروانی ایک بیت میں اپنے مرحوم عَمو کے غم میں کہتے ہیں:
خاقانیا به ماتمِ عم خون گِری نه اشک
کاین عم به جایِ تو پدری‌ها نموده بود

(خاقانی شروانی)
اے خاقانی! [اپنے] عَمو کے ماتم میں خون روؤ، نہ کہ اشک۔۔۔ کیونکہ اِس عمو نے تمہارے حق میں [ہمیشہ] پدرانہ سُلوک کیا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خُلَفائے راشدین کی سِتائش میں کہی گئی ایک بیت:
چهار یارش تا تاجِ اصفیا نشدند

نداشت ساعدِ دین یاره داشتن یارا
(خاقانی شروانی)
جب تک [رسول] کے چار یار تاجِ برگُزیدَگاں نہ ہو گئے، دین کی کلائی زیورِ دست بند رکھنے کی قُوّت و جُرأت نہ رکھتی تھی۔
(یعنی چار یارِ رسول کے باعث دین زیوروں سے مُزیّن ہوا۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دیارِ خُراسان کے اشتیاق میں کہی گئی ایک بیت:
چه سبب سُویِ خُراسان شُدنم نگْذارند
عندلیبم به گُلستان شُدنم نگْذارند

(خاقانی شروانی)
مجھ کو کس لیے خُراسان کی جانب جانے نہیں دیتے؟۔۔۔ میں بُلبُل ہوں، مجھ کو گُلستان کی جانب جانے نہیں دیتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شِروانی کی مثنوی «تُحفة‌العِراقَین» سے چند ابیات:
قرآن گنج است تو سُخن‌سنج
هِین قربان گَرد بر سرِ گنج
بر گنج بسی کنند قربان
قربان شو پیشِ گنجِ قرآن
عثمان که به احمد اقتدا کرد
نه بر سرِ گنج جان فدا کرد
گُلگُونه نمود خونِ عثمان
بر رُویِ مُخدّراتِ قرآن
خود خونِ مُطهّرِ چُنان کس
گُلگُونهٔ قُدسیان سزد بس

(خاقانی شروانی)
قُرآن گنج (خزانہ) ہے، تم سُخن سنْج ہو۔۔۔ ہاں! [جَلدی سے] اِس خزانے پر قُربان ہو جاؤ!۔۔۔ خزانے پر کئی [چیزیں] قُربان کرتے ہیں۔۔۔ تم خزانۂ قُرآن کے پیش میں قُربان ہو جاؤ۔۔۔ احمد (ص) کی اقتدا کرنے والے حضرتِ عُثمان (رض) نے کیا خزانۂ [قُرآن] پر جان کو فدا نہ کر دیا؟۔۔۔ حضرتِ عُثمان (رض) کے خون نے قُرآن کی پردہ نشینوں (آیتوں) کے چہرے پر سُرخی مَل دی۔۔۔ ایسے [کسی بُزُرگ] شخص کا خونِ مُطہّر خود اِس چیز کا لائق و سزاوار ہے کہ اُس کو فقط قُدسیوں کا غازہ بنایا جائے۔
 
آخری تدوین:

عباد اللہ

محفلین
شُورَوی (سوویت) دَور کی تاجکستانی 'انقلابی' فارسی شاعری کا ایک نمونہ:
عِصیان کن اِمروز، ای مردِ دهقان،
ضِدِّ اسارت، ضِدِّ امیران!
در جوش آ چون بحرِ کبیری،
شوریده برخیز مانندِ طوفان!
تا کَی مشقّت در قسمتِ ماست؟
تا چند راحت در کامِ بایان؟

بدتر از مرگ است این زندگانی،
دُنیا به مایان - گور است و زندان!
این گور و زندان ویران نماییم،
تا روز بینیم مانندِ انسان!

(میرزا تورسون‌زاده)
اے مردِ دہقاں! اسیری کے خلاف اور حاکِموں کے خلاف اِمروز (آج) بغاوت کر دو۔۔۔ کسی بحرِ عظیم کی طرح جوش میں آؤ، اور طوفاں کی مانند شورش کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ کب تک مشقّت ہماری قسمت میں ہے؟۔۔۔ کب تک راحت اغنیاء کو نصیب رہے؟۔۔۔ یہ زندگانی موت سے بدتر ہے۔۔۔ دُنیا ہم مردُم کے لیے قبر و زندان ہے!۔۔۔ [آؤ،] اِس قبر و زندان کو ویران کر دیں۔۔۔ تاکہ ہم [ایک باعِزّت] انسان کی طرح روز (دِن) دیکھیں!

× ماوراءالنہری فارسی میں تُرکی الاصل لفظ 'بای' ثروتمند و مالدار و غنی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
کیا یہاں بدتر ز مرگ است نہیں ہونا چاہیے بھیا؟
 
فکرِ شنبہ تلخ دارد جمعۂ اطفال و تو
پیر گشتی و ہماں در فکرِ فردا نیستی


صائب تبریزی

چھٹی کے بعد والے دن کی فکر سے بچوں کا چھٹی کا دن بھی تلخ ہی گذرتا ہے اور تُو کہ جو بوڑھا ہو چکا ہے (افسوس) تجھے ابھی تک کل کی کوئی فکر نہیں ہے۔

(شنبہ یعنی ہفتہ۔ شعر میں جمعے اور ہفتے کی مثال ہے آج کل اسے اتوار اور سوموار سمجھنا چاہیئے)۔
ہمارا تو 3 اکست کے بعد سے ہر دن تلخ گزر رہا ہے کہ محمد وارث صاحب اردو محفل سے دور ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
افغان تُرکمن شاعر حاجی محمد یوسف 'مایل' کی ایک بیتِ مُلمّع، جس کا مصرعِ اوّل فارسی میں اور مصرعِ دوم تُرکمنی تُرکی میں ہے:
این دلِ نازک‌خیالم، در خیالت گشته غرق
پاره پاره بولدی قلبم، من نچوک أیلای بیان

(حاجی محمد یوسف 'مایل')
میرا یہ دلِ نازُک خیال تمہارے خیال میں غرق ہو گیا ہے۔۔۔ میرا قلب پارہ پارہ ہو گیا، میں کیسے بیان کروں؟
 

حسان خان

لائبریرین
برادرم حسان خان ، کیا افغانستان کے ازبک ازبک ترکی کے برائے عربی رسم الخط کاربردہ کرتے ہیں؟
جی، افغانستان میں اُزبَکان اور افغانستان و ایران میں تُرکمَنان اپنے زبانچوں کے لیے ہنوز عربی-فارسی رسم الخظ کا استعمال کرتے ہیں اور اُسی میں کتابیں شائع کرتے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تنم گُلی ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است

(علامه اقبال لاهوری)
میرا تن جنّتِ کشمیر کے گُلزار کا ایک گُل ہے۔۔۔ [جبکہ میرا] دل حریمِ حِجاز سے، اور [میری] نوا شیراز سے ہے۔

× میں مصرعِ اول میں 'گل' کو 'گِل' (خاک، آب آمیختہ خاک) سمجھ رہا تھا، لیکن بیشتر قابلِ اعتماد جگہوں پر یہ 'گُل' کے طور پر تعبیر ہوتا نظر آیا ہے، لہٰذا اُسی لفظ و معنی کو ترجیح دی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے اجداد کیا خبر کب مسلمان ہوئے لیکن وہ کشمیری برھمنوں کے خاندان سے تھے۔ اسی نسبت سے شاید علامہ نے خود کو گلِ خیابانِ کشمیر کہا ہے۔
ضرب کلیم میں ایک فلسفہ زدہ سید زادے سے مخاطب ہوکر یہی بات کہی " میں اصل کا خاص سومناتی ۔آبا مرے لاتی و مناتی ۔۔۔تو سید ہاشمی کی اولاد وغیرہ "
 

حسان خان

لائبریرین
ز ظُلم پیشِ که نالد فضولیِ مسکین
در این دیار چو غیر از تو پادشاهی نیست؟

(محمد فضولی بغدادی)
[اے محبوب!] جب اِس دیار میں تمہارے بجُز کوئی پادشاہ نہیں ہے تو پس فضولیِ مسکین [تمہارے] ظُلم کے بارے میں کس کے سامنے نالہ [و فریاد] کرے؟
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
ماوراءالنہری اُزبک شاعر حمزه حکیم‌زاده نیازی کی ایک فارسی بیت:
مکن اسرارِ خود ظاهر به نزدِ هر کس و ناکس
کُشودِ غُنچه‌ها آرَد خَزانِ برگِ زیبا را

(حمزه حکیم‌زاده نیازی)
ہر کس و ناکس کے سامنے اپنے اَسرار کو ظاہر مت کرو۔۔۔ غُنچوں کا کُھلنا [اپنے عقب میں] برگِ زیبا کی خزاں لاتا ہے۔
واہ!!
 
Top