کیا یہاں بدتر ز مرگ است نہیں ہونا چاہیے بھیا؟شُورَوی (سوویت) دَور کی تاجکستانی 'انقلابی' فارسی شاعری کا ایک نمونہ:
عِصیان کن اِمروز، ای مردِ دهقان،
ضِدِّ اسارت، ضِدِّ امیران!
در جوش آ چون بحرِ کبیری،
شوریده برخیز مانندِ طوفان!
تا کَی مشقّت در قسمتِ ماست؟
تا چند راحت در کامِ بایان؟
بدتر از مرگ است این زندگانی،
دُنیا به مایان - گور است و زندان!
این گور و زندان ویران نماییم،
تا روز بینیم مانندِ انسان!
(میرزا تورسونزاده)
اے مردِ دہقاں! اسیری کے خلاف اور حاکِموں کے خلاف اِمروز (آج) بغاوت کر دو۔۔۔ کسی بحرِ عظیم کی طرح جوش میں آؤ، اور طوفاں کی مانند شورش کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ کب تک مشقّت ہماری قسمت میں ہے؟۔۔۔ کب تک راحت اغنیاء کو نصیب رہے؟۔۔۔ یہ زندگانی موت سے بدتر ہے۔۔۔ دُنیا ہم مردُم کے لیے قبر و زندان ہے!۔۔۔ [آؤ،] اِس قبر و زندان کو ویران کر دیں۔۔۔ تاکہ ہم [ایک باعِزّت] انسان کی طرح روز (دِن) دیکھیں!
× ماوراءالنہری فارسی میں تُرکی الاصل لفظ 'بای' ثروتمند و مالدار و غنی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
آپ نے درست نشان دہی کی۔ یہاں 'بدتر ز مرگ' ہی ہے۔کیا یہاں بدتر ز مرگ است نہیں ہونا چاہیے بھیا؟
ہمارا تو 3 اکست کے بعد سے ہر دن تلخ گزر رہا ہے کہ محمد وارث صاحب اردو محفل سے دور ہیں۔فکرِ شنبہ تلخ دارد جمعۂ اطفال و تو
پیر گشتی و ہماں در فکرِ فردا نیستی
صائب تبریزی
چھٹی کے بعد والے دن کی فکر سے بچوں کا چھٹی کا دن بھی تلخ ہی گذرتا ہے اور تُو کہ جو بوڑھا ہو چکا ہے (افسوس) تجھے ابھی تک کل کی کوئی فکر نہیں ہے۔
(شنبہ یعنی ہفتہ۔ شعر میں جمعے اور ہفتے کی مثال ہے آج کل اسے اتوار اور سوموار سمجھنا چاہیئے)۔
ڈاکٹر صاحب کے اجداد کیا خبر کب مسلمان ہوئے لیکن وہ کشمیری برھمنوں کے خاندان سے تھے۔ اسی نسبت سے شاید علامہ نے خود کو گلِ خیابانِ کشمیر کہا ہے۔تنم گُلی ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است
(علامه اقبال لاهوری)
میرا تن جنّتِ کشمیر کے گُلزار کا ایک گُل ہے۔۔۔ [جبکہ میرا] دل حریمِ حِجاز سے، اور [میری] نوا شیراز سے ہے۔
× میں مصرعِ اول میں 'گل' کو 'گِل' (خاک، آب آمیختہ خاک) سمجھ رہا تھا، لیکن بیشتر قابلِ اعتماد جگہوں پر یہ 'گُل' کے طور پر تعبیر ہوتا نظر آیا ہے، لہٰذا اُسی لفظ و معنی کو ترجیح دی ہے۔
واہ!!ماوراءالنہری اُزبک شاعر حمزه حکیمزاده نیازی کی ایک فارسی بیت:
مکن اسرارِ خود ظاهر به نزدِ هر کس و ناکس
کُشودِ غُنچهها آرَد خَزانِ برگِ زیبا را
(حمزه حکیمزاده نیازی)
ہر کس و ناکس کے سامنے اپنے اَسرار کو ظاہر مت کرو۔۔۔ غُنچوں کا کُھلنا [اپنے عقب میں] برگِ زیبا کی خزاں لاتا ہے۔