حسان خان

لائبریرین
عاشق از حالِ دلِ پُرخون چه حاجت دم زنَد
می‌توان دانِست از رنگِ سِرِشکِ لاله‌گون

(محمد فضولی بغدادی)
عاشق کو کیا حاجت کہ وہ [اپنے] دلِ پُرخون کے حال کے بارے میں حَرف کہے؟۔۔۔ [یہ چیز تو اُس کے] اشکِ لالہ گُوں کے رنگ سے جانی جا سکتی ہے۔
× اشکِ لالہ گُوں = گُلِ لالہ جیسا سُرخ اشک
 
آخری تدوین:
چون برگ و چون درخت بگفتند بی‌زبان
بی گوش بشنوید که این‌ها مبارکست


بے زباں درخت و برگ کی (ہی) طرح بولتے ہیں، (اسے) بغیر کانوں کے سنیے کہ یہ سب مبارک ہے۔

ای جانِ چار عنصرِ عالم، جمالِ تو
بر آب و باد و آتش و غبرا مبارکست


اے عالم کے چار عناصر کی جان! تیرا جمال پانی، ہوا، آگ اور زمین (سب) پر مبارک ہے۔

مولانا روم
 

حسان خان

لائبریرین
چون برگ و چون درخت بگفتند بی‌زبان
اِس مصرعے کا مفہوم میری نظر میں یہ ہے:
اُنہوں نے برْگ کی طرح اور درخت کی طرح زبان کے بغیر کہا ہے (یعنی جس طرح برْگ و درخت زبان کے بغیر خدا کی تمجید کرتے ہیں، اُسی طرح اُنہوں نے کہا ہے)۔

بر آب و باد و آتش و غبرا مبارکست
اِس مصرعے میں «بر» کا ترجمہ «پر» کرنا درست ہے، لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں «بر»، «برایِ» کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پنهان مشو که رُویِ تو بر ما مبارک است
نظّارهٔ تو بر همه جان‌ها مبارک است

(مولانا جلال‌الدین رومی)
پِنہاں مت ہوؤ کہ تمہارا چہرہ ہمارے لیے مُبارک ہے۔۔۔ تمہارا نظارہ تمام جانوں کے لیے مُبارک ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون برگ و چون درخت بگفتند بی‌زبان
«چون» کو اگر «مانندِ» کی بجائے «جب» کے طور پر تعبیر کیا جائے تو بیت کا مفہوم یہ نِکلے گا:
جب برگ نے اور جب درخت نے زبان کے بغیر کہا [ہے] تو گوش کے بغیر سُنیے کہ یہ چیزیں مُبارک ہیں۔


لیکن پھر «بِگُفتند» سے مسئلہ پیدا ہو رہا ہے کیونکہ عموماً غیر عاقل چیزوں کے لیے شخصِ سومِ جمع کا صیغہ استعمال نہیں ہوتا۔ میں دیوانِ کبیر کے تُرکی ترجمے میں اِس بیت کا ترجمہ تلاش کرنے کی کوشش کروں گا اور دیکھوں گا کہ مترجم نے اِس بیت کو کس طرح تعبیر کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سجده برم، که خاکِ تو بر سر چو افسر است
پا درنِهم، که راهِ تو بر پا مُبارک است

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں [تمہاری خاک پر/کو] سجدہ کرتا ہوں کیونکہ تمہاری خاک سر کے لیے مثلِ تاج ہے۔۔۔ میں [تمہاری راہ پر] پاؤں رکھتا ہوں کیونکہ تمہاری راہ پاؤں کے لیے مُبارک ہے۔
 

وجاہت حسین

محفلین
سجده نتوان کرد بر آبِ حیات
تا نیابم زین تن خاکی نجات
(مولانا رومی)


آبِ حیات پر سجدہ نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ جب تک کہ تو اِس مٹی کے جسم سے نجات نہ پالے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا نسوزی و نسازی همچو شمع
دم مزن از پاک‌بازی پیشِ جمع

(عطّار نیشابوری)
جب تک تم شمع کی مانند نہیں جلتے اور [اُس کی مانند] تحمُّل و بُردباری نہیں کرتے، تم مردُم کے سامنے پاک بازی کا دعویٰ مت کرو۔
 

وجاہت حسین

محفلین
غرق نورم گرچه سقفم شد خراب
روضه گشتم گرچه هستم بوتراب
(مولانا رومی)


میں نور میں غرق ہوں اگرچہ میرا چھت (یعنی جسم) تباہ ہے۔۔۔ میں باغ بن گیا ہوں اگرچہ میں ابو تراب ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون برگ و چون درخت بگفتند بی‌زبان
بی گوش بشنوید که این‌ها مبارکست
تُرکیہ کے معروف ادبیات شِناس و تصوُّف شِناس و مولوی شِناس مرحوم عبدالباقی گؤلپېنارلې نے دیوانِ کبیر کے تُرکی ترجمے میں اِس بیت کا یہ مفہوم بیان کیا ہے:
"برْگ، درخت، جس طرح یہ خبر دے رہے ہیں، جس طرح بے حَرف، بے صدا، اِس سُخن کو کہہ رہے ہیں [اُسی طرح] آپ بھی بے گوش سُنیے، سماعت کیجیے؛ کیونکہ مُبارک ہے یہ خبر۔"
(تُرکی سے ترجمہ شُدہ)
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ علی (رض) کی مدح میں کہی گئی بیت:
ز قیدِ خُسرویِ هر دو کَون آزاد است
کسی که از دل و جان شد غُلامِ قنبرِ او

(محمد بَیرم خان)
جو شخص دل و جان سے اُن کے قنبر کا غُلام ہو گیا، وہ ہر دو جہاں کی قیدِ شاہی سے آزاد ہے۔
× قَنبَر = حضرتِ علی کے غُلام و خادِم کا نام
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای چنگ پرده‌هایِ سِپاهانم آرزوست
وی نای نالهٔ خوشِ سوزانم آرزوست

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے چنگ! مجھ کو مقامِ اِصفہان کی آرزو ہے۔۔۔ اور اے نَے! مجھ کو اِک خوب و سوزاں نالے کی آرزو ہے۔

× مشرقِ وسطیٰ کی موسیقی میں «راگ» کو «مَقام» کہا جاتا ہے۔ «اِصفہان» ایک مقامِ موسیقی کا نام ہے، جس کی یہاں شاعر آرزو کر رہے ہیں۔ چنگ و نَے دو سازوں کے نام ہیں۔ «نَے» فارسی میں «بانسری» کو کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
در پردهٔ حِجاز بِگو خوش ترانه‌ای
من هُدهُدم صفیرِ سُلیمانم آرزوست

(مولانا جلال‌الدین رومی)
مَقامِ حِجاز میں اِک خوب و زیبا ترانہ کہو۔۔۔ میں ہُدہُد ہوں، مجھ کو سُلیمان کی صفِیر (سِیٹی) کی آرزو ہے۔

× مشرقِ وسطیٰ کی موسیقی میں «راگ» کو «مَقام» کہا جاتا ہے۔ «حِجاز» ایک مقامِ موسیقی کا نام ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(حمدیہ رباعی)
ای واقفِ اَسرارِ نهانِ همه کس
وی در همه حال رازدانِ همه کس
ای ذکرِ تو بر سرِ زبانِ همه کس
وی نامِ خوشِ تو حِرزِ جانِ همه کس

(محمد بَیرم خان)
اے ہر شخص کے اَسرارِ نِہاں سے واقف!۔۔۔ اور اے تمام حالوں میں ہر شخص کے رازدان!۔۔۔ اے کہ تمہارا ذکر ہر شخص کی زبان پر ہے۔۔۔ اور اے کہ تمہارا نامِ خوب ہر شخص کا تعویذِ جاں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سُلطان سُلیمان قانونی عُثمانی کی مدح میں کہی گئی ایک بیت:
حُسامِ شما داده ای مالکِ عصر
به رُوم آب و رنگی به گُلزارِ اسلام

(شیخ عبدالله شبِستَری 'نیازی')
اے مالکِ عصْر! آپ کی شمشیرِ تیز نے دیارِ رُوم کو آب [و تاب] اور گُلزارِ اسلام کو رنگ [و رونق] دی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
ما وطن‌آوارَگان را غُربتی در کار نیست

(بیدل دهلوی)
ہم وطن آوارَگاں کو کسی غریب الوطنی کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

× یہاں «وطن‌آوارہ» کی ترکیب اُس شخص کے مفہوم میں استعمال ہوئی ہے کہ جو وطن [ہی] میں آوارہ و دربدر و غریب الوطن ہو۔
 
آخری تدوین:
عاشق نہ شُدی، جلوۂ جاناں کہ شناسی؟
تا سر نہ دہی، ہمّتِ مرداں کہ شناسی؟


تو عاشق ہی نہیں ہوا، جاناں کے جلووں کو کیسے پہچانے گا (کیونکہ) جب تک سر نہ دے گا، ہمتِ مرداں کو کیسے جانے گا؟

خود را نہ پرستیدہ ای، عرفاں کہ شناسی؟
کافر نہ شُدی، لذّتِ ایماں کہ شناسی؟


تو نے اپنے آپ کی پرستش کی ہی نہیں، کیسے جانے گا کہ عرفان کیا چیز ہے، تو کافر ہی نہیں ہوا تو ایمان کی لذت کو کیسے جانے گا؟

امروز نہ دیدی تو اگر روئے صنم را
فردا بہ قیامت، رخِ جاناں کہ شناسی؟


آج (اس دنیا میں) تو اگر (اپنے) صنم کا چہرہ نہیں دیکھے گا تو کل قیامت کے دن اس کو پہچانے گا کیسے؟

(سوداگر)

عاشق نہ شُدی جلوۂ جاناں چہ شناسی؟
تا سر نہ دہی ہمّتِ مرداں چہ شناسی؟
تو عاشق ہی نہیں ہوا، جاناں کے جلووں کو کیسے پہچانے گا (کیونکہ) جب تک سر نہ دے گا، ہمتِ مرداں کو کیسے جانے گا؟
خود را نہ پرستیدہ ای، عرفاں چہ شناسی؟
کافر نہ شُدی، لذّتِ ایماں چہ شناسی؟
تو نے اپنے آپ کی پرستش کی ہی نہیں، کیسے جانے گا کہ عرفان کیا چیز ہے، تو کافر ہی نہیں ہوا تو ایمان کی لذت کو کیسے جانے گا؟
امروز نہ دیدی تو اگر روئے صنم را
فردا بہ قیامت، رخِ جاناں چہ شناسی؟
آج (اس دنیا میں) تو اگر (اپنے) صنم کا چہرہ نہیں دیکھے گا تو کل قیامت کے دن اس کو پہچانے گا کیسے؟
زاہد شدی عابد شدی واعظ شدی لیکن
صوفی نہ شدی مشرب رنداں چہ شناسی؟
رندوں کے مشرب کو سمجھنے کے لئے تیرا زاہد، عابد اور واعظ ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لئے راہ طریقت وتصوف کا مسافر ہونا ضروری ہے کیونکہ رندوں کے مشرب کو ایک صوفی سے بہتر کون جان سکتا ہے۔
سوداگرؔ عاشق شدہ بندہ خواجہ
اے مدعی تو عظمت پیراں چہ شناسی
سوداگرؔ تو حضرت خواجہ معین الدّین چشتی رحمۃاللہ علیہ کے ایک پیروکار کا عاشق ہوا ہے (تب یہ آشنائی حاصل ہوئی ہے) لیکن اے سائل (تجھے ان باتوں سے کیا سروکار کیونکہ) تجھے تو ان بلند مرتبہ ہستیوں کے مقام کا ادراک ہی نہیں۔
(حضرت شاہ محمّد صدّیقی سوداگرؔ چشتی قلندری المیرزئی حیدرآبادی رحمۃاللہ علیہ)
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ علی (رض) کی مدح میں کہی گئی بیت:
هزار بار بُوَد خوش‌ترم ز بُویِ بهار
شمیمِ رایِحهٔ مرقدِ مُعطّرِ او

(محمد بَیرم خان)
اُن کے مرقدِ مُعطّر کی بُوئے خوش میرے نزدیک بُوئے بہار سے ہزار بار خوش تر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر بی‌دلی که محنتِ شامِ فراق دید
دانست قدرِ نعمتِ صبحِ وصال را

(محمد بَیرم خان)
جس بھی بے دل نے شامِ فراق کا رنج دیکھا، وہ نعمتِ صُبحِ وصال کی قدر جان گیا۔
 
Top