به کوی میکده هر سالکی که ره دانست
دری دگر زدن اندیشه تب۔ه دان۔س۔ت
زمان۔ه اف۔سر رندی نداد جز به کسی
ک۔ه سرفرازی عالم در این کله دانس۔ت
بر آستان۔ه میخانه هر که یاف۔ت رهی
ز فیض جام می اسرار خانقه دان۔س۔ت
هر آن که راز دو عالم ز خ۔ط ساغر خواند
رموز جام جم از نقش خاک ره دانس۔ت
ورای طاع۔ت دیوان۔گان ز ما مط۔ل۔ب
ک۔ه شیخ مذهب ما عاقلی گنه دانست
دلم ز نرگس ساقی امان نخواست به جان
چرا که شیوه آن ترک دل سیه دانس۔ت
ز جور کوکب طالع سحرگهان چش۔م۔م
چنان گریست که ناهید دید و مه دانست
حدیث حاف۔ظ و ساغر که می‌زند پن۔هان
چه جای محتسب و شحنه پادشه دانست
بلندمرت۔ب۔ه شاهی که نه رواق سپهر
ن۔مون۔ه‌ای ز خ۔م طاق بارگه دانست
 
گويی سالهاست که می شناسمت
بلکه قرن ها!
حضور محسوست را
لبخند های گاه و بيگاهت را
همه را می شناسم
برايم ملموسی!
تمام خاطراتی که با تو نداشته ام
تمام حرفهايی که به هم نگفته ايم
تمام يادگارهايی که به هم نداده ايم
حتی ثانيه هايی که با هم نبوده ايم
همه را به خاطر دارم!
امروز بدون تو
عبور کردم از کوچه هايی که با تو از آن نگذشتم!
از کدام کوچه با هم گذشتيم؟
هيچ کوچه ای نبود…
هيچ از تو ندارم هيچ!
روح غريبت
رمز و راز درونت
صدايت
اما برايم ملموس است
گويی قرن هاست که با من بوده ای
گويی سالهاست که می شناسمت
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست ؟
صحراست کہ دریاست تہ بال و پر ما ست۔
اقبال۔
(شاہین نے) نعرہ لگایا کہ میں شاہین ہوں اور مجھے زمیں کی پستیوں سے کیا کام۔
صحرا ہو کہ دریا ۔۔۔ سب ہمارے بازوؤ ں کی زد میں ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
یا رب این آتش که در جان من است
سرد کن زان سان که کردی بر خلیل
(حافظ)

یا رب یہ جو آگ میرے اندر لگی ہوئی ہے، اِسے بھی ویسے ہی سرد کر دے جیسے تو نے خلیل پر کی تھی۔
 
آئینہ زنگار از صیقل ز تقویٰ پاک کن
پاک بنگر اندرآں آئینہ جانا نہ را
حافظ شیرازی

اپنے زنگ آلود آئینے کو تقویٰ کی صیقل سے صاف کر لے اور پھر اس آئینے میں معشوق کو اچھی طرح دیکھ
 

محمد وارث

لائبریرین
گفتم کہ مرگِ ناگہاں؟ گفتا کہ دردِ ہجرِ من
گفتم علاجِ زندگی؟ گفتا کہ دیدارِ منست

امیر خسرو

میں نے کہا مرگ ناگہانی کیا ہے، کہا میرے ہجر کا درد۔ میں نے کہا علاجِ زندگی کیا ہے، کہا کہ میرا دیدار۔
 

حسان خان

لائبریرین
از بیمِ رقیب طوفِ کویت نکنم
وز طعنهٔ خلق گفتگویت نکنم
لب بستم و از پای نشستم اما
این نتوانم که آرزویت نکنم

(ابوسعید ابوالخیر)

میں رقیب کے خوف سے تیری گلی کا طواف نہ کروں؛ اور خلق کے طعنوں سے بچنے کے لیے تیری گفتگو نہ کروں؛ (گو) لب بستہ ہوں اور ایک جگہ بیٹھا ہوا ہوں لیکن؛ یہ نہیں کر سکتا کہ تیری آرزو نہ کروں۔

از پای نشستن: آرام گرفتن، قرار گرفتن، نشستن
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گمان مبر که بوَد بیشتر ز ایرانی‌
کسی بروی زمین دوستدار پاکستان
(ملک الشعراء محمد تقی بهار)

یہ کبھی بھی نہ سوچنا کہ ایرانیوں سے بڑھ کر اس روئے زمین پر پاکستان کا کوئی بہتر دوست ہوسکتا ہے۔

یہ پاکستان کے استقلال کے فوراً بعد کہا گیا شعر ہے، جب پاکستان کا مسلم/تیسری دنیا میں کچھ نام تھا اور پاکستان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب تو جو بدقسمتی سے پاکستان کی ساکھ ہے، شاید ہی کوئی غیر ملکی اس قسم کے اشعار کہنے کے بارے میں سوچے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن تلخ‌وش، که صوفی ام الخبائثَش خواند
اًشهیٰ لنا واَحلیٰ من قُبلَةِ العَذاریٰ
(حافظ)

وہ تلخ گونہ شراب جسے ریاکار صوفی ام الخبائث کہتا ہے، ہمارے لیے ایک دوشیزہ کے بوسے سے زیادہ ہوس انگیز اور شیریں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر غم را چو آتش دود بودی
جهان تاریک بودی جاودانه
(شهید بلخی)

اگر غم سے بھی آگ کی طرح دھواں نکلتا تو جہان ہمیشہ تاریک رہتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر غم را چو آتش دود بودی
جهان تاریک بودی جاودانه
(شهید بلخی)

اگر غم سے بھی آگ کی طرح دھواں نکلتا تو جہان ہمیشہ تاریک رہتا۔
واہ واہ ،،بہت خوب شعر ہے ۔۔۔اگر کتابت میں بودی کے بجائے " بودے " ہو تو زیادہ بہتر ہو۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِمغاں
ہزار بادہء ناخوردہ در رگِ تاک است
یہ خیال نہ کرو کہ پیر مغاں کا کام اب ختم ہو گیاہے ۔ (ابھی تو ) بہت سی شراب انگور کی رگوں میں باقی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
واہ واہ ،،بہت خوب شعر ہے ۔۔۔ اگر کتابت میں بودی کے بجائے " بودے " ہو تو زیادہ بہتر ہو۔

جی، فارسی کی پاکستانی کتابت میں 'بودے' ہی لکھا جاتا ہے۔ میں نے چونکہ ایرانی ویب سائٹ سے یہ شعر کاپی کیا ہے اس لیے ایرانی طرز پر ہی کتابت کو رہنے دیا ہے۔

ضمنا برائے اطلاع عرض ہے کہ جدید ایرانی فارسی میں 'ے' کی آواز سرے سے معدوم ہے، اس لیے وہاں ہمیشہ 'ی' ہی کتابت میں استعمال ہوتا ہے۔ افغان فارسی (دری) میں البتہ 'ے' کی آواز ہے اور اُس میں یہ لفظ بودے ہی پڑھا جاتا ہے، مگر لکھتے وہ بھی 'بودی' ہی ہیں اور ان کے ہاں بھی 'ے' معیاری حروف تہجی کا حصہ نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شکریہ حسان صاحب۔بلاد عرب وعجم میں عربی فارسی کے جو جو لہجات موجودو مروج ہیں ان میں تفاوت جس حد تک ہے وہ بسا اوقات ایک دوسرے کی فہم کی حدود سے بعید ہو جاتے ہیں مثلا گ کا استعمال نوے فیصدعربی لہجات میں برملا کیا جاتا ہے حالاں گاف کا کوئی فونیٹک ایکولنٹ عربی میں نہیں ۔حتی کہ یہاں کے بعض اردو بولنےحضرات کی اردو کا لہجہ میرےلیے سمجھنا میرے لیے کافی دشوار ہوتا ہے۔ میں یہاں عربی لغت کا طالب علم ہوں جہاں میرے ساتھ اردو ہندی اندونیشی کے ساتھ ترک ۔ترکمانی اور فارسی بولنے والے بھی ہیں ۔ اور اگر آپ جدید ایرانی فارسی کے ملفوظہ اور منظوقہ عناصر کا تجربہ رکھتے ہوں گے۔تو آپ پر یقیناً واضح ہو گا کہ وہ کتنا متفاوت ہے ۔مثلاً بعض لوگ
ً گراںً کو وہ کیا کیا پروناؤنس کرتے ہیں ۔۔۔
میں نے محض اپنی رائے میں اس کتابت کو ًبہتًر ً لکھا تاکہ یہاں لوگ تعلیم و تعلم کی خاطر رجوع کرتے ہیں۔اس سے منشاء تصحیح یا خدانخواستہ تضحیک نہیں تھا ۔۔ اور ے اور ی یہاں فعل کی گرامیٹکل شیپ کو واضح کرتے ہیں چنانچہ ان کا استعمال یہاں بہتراور میننگ فل ہے۔یہاں کوئی فارسی بولنے والا فارسی شاعری پڑھنے شاید ہی یہاں کا رخ کرتا ہو۔ چنانچہ ترجمہ بھی اسی لیے لکھا جاتا ہے۔ :happy:
 
در خمِ زُلفِ تو دیدم دلِ خود را روزے
گفتمش چونی وچوں میر ہی اے زندانی
گفت آرے چہ کنی گرنبری رشک بمن
ہر گدا را نبود مرتبہ سلطانی

شیرازی

میں نے ایک دن اپنے دل کو تیری زلف کے پیچ میں دیکھا تو اس سے کہا کہ اے قیدی تو کیسا ہے اور کیسے اس قید سے چھوٹے گا تو وہ بولا کہ تو مجھ پر رشک کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے کہ ہر فقیر کو بادشاہی حاصل نہیں ہوتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ حسان صاحب۔بلاد عرب وعجم میں عربی فارسی کے جو جو لہجات موجودو مروج ہیں ان میں تفاوت جس حد تک ہے وہ بسا اوقات ایک دوسرے کی فہم کی حدود سے بعید ہو جاتے ہیں مثلا گ کا استعمال نوے فیصدعربی لہجات میں برملا کیا جاتا ہے حالاں گاف کا کوئی فونیٹک ایکولنٹ عربی میں نہیں ۔حتی کہ یہاں کے بعض اردو بولنےحضرات کی اردو کا لہجہ میرےلیے سمجھنا میرے لیے کافی دشوار ہوتا ہے۔ میں یہاں عربی لغت کا طالب علم ہوں جہاں میرے ساتھ اردو ہندی اندونیشی کے ساتھ ترک ۔ترکمانی اور فارسی بولنے والے بھی ہیں ۔ اور اگر آپ جدید ایرانی فارسی کے ملفوظہ اور منظوقہ عناصر کا تجربہ رکھتے ہوں گے۔تو آپ پر یقیناً واضح ہو گا کہ وہ کتنا متفاوت ہے ۔مثلاً بعض لوگ
ً گراںً کو وہ کیا کیا پروناؤنس کرتے ہیں ۔۔۔
میں نے محض اپنی رائے میں اس کتابت کو ًبہتًر ً لکھا تاکہ یہاں لوگ تعلیم و تعلم کی خاطر رجوع کرتے ہیں۔اس سے منشاء تصحیح یا خدانخواستہ تضحیک نہیں تھا ۔۔ اور ے اور ی یہاں فعل کی گرامیٹکل شیپ کو واضح کرتے ہیں چنانچہ ان کا استعمال یہاں بہتراور میننگ فل ہے۔یہاں کوئی فارسی بولنے والا فارسی شاعری پڑھنے شاید ہی یہاں کا رخ کرتا ہو۔ چنانچہ ترجمہ بھی اسی لیے لکھا جاتا ہے۔ :happy:

آپ کی بات درست ہے سید صاحب اور حسان صاحب کی بھی۔

اصولی طور پر تو ہمیں جدید املا لکھنی چاہیے لیکن کیا کریں وہ مے کو بھی می لکھتے ہیں :) سو میری بھی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہی املا لکھوں جو برصغیر میں رائج رہی ہے تا کہ یہاں پڑھنے والوں کو آسانی رہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آپ کی بات درست ہے سید صاحب اور حسان صاحب کی بھی۔

اصولی طور پر تو ہمیں جدید املا لکھنی چاہیے لیکن کیا کریں وہ مے کو بھی می لکھتے ہیں :) سو میری بھی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہی املا لکھوں جو برصغیر میں رائج رہی ہے تا کہ یہاں پڑھنے والوں کو آسانی رہے۔

وارث بهائی، بڑی ے ہمارے برصغیر کی ہی اختراع ہے۔ یہ ضرور ہے کہ بڑی ے ایران، افغانستان اور ترکی میں استعمال ہوتا رہا ہے، مگر اس کا استعمال صرف نستعلیق خطاطی تک محدود تھا۔ کوئی الگ آواز اس حرف سے وابستہ نہ تھی۔ اردو کے ابتدائی مخطوطات اٹھائے جائیں تو اس میں بھی بڑی ے ناپید ملے گا۔ مثلا غالب اور میر کے زمانے میں 'ہے' کو 'ہی' لکھا جاتا تھا۔ پھر دورِ متاخر میں جب اردو کی معیاری کتابت شروع ہوئی تو سہولت کے لیے 'e' کی آواز کے لیے بڑی ے کے حرف کو مختص کر لیا گیا، جو کثرتِ استعمال سے اردو اور پنجابی کے لیے رائج ہو گیا۔ اس کے بعد برصغیر میں فارسی کی کتابت بھی اردو کے اسی اصلاح شدہ خط میں کی جانے لگی، جو برصغیر کے فارسی لہجے سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا۔

جدید فارسی املا میں می‌کند ہی لکھا جاتا ہے، جسے ایران میں 'mikonad' جبکہ افغانستان اور تاجکستان میں 'mekunad' تلفظ کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں اس کے لیے مے کند رائج ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زبانوں میں ارتقاءاور قدرتی تبدیلیوں کے عناصر کو روکا نہیں جاسکتا چاہے اسباب کوئی بھی ہوں ۔ ماڈرن اردو میں بھی ( مضحکہ خیز حد تک ) تبدیلیاں محسوس کی جاسکتی ہیں۔۔ وغیرہ۔کل کی اردو آج کی نئی نسل کے لیے جتنی اجنبی ہے وہ ہر ایک پر واضح ہے اور جیسے الفاظ (افریقا ۔ پخراٹ) اور محاورے ( آپ کی ہٹی تو نہیں) تشکیل و رواج پا رہے ہیں وہ آنے والے کل میں زبان کا نقشہ طے کریں گے ۔(اللہ تعالی ہماری زبان کا وقار قائم رکھے)
میرے پاس والد صاحب کی پرانی کتب میں سے ایک ماڈرن پرشین (اکسفورڈ مطبوعہ اور کچھ فارسی کتب ایرانی قٖونصل خانے سے میں نے حاصل کی تھیں) میں ہر جگہ چھوٹی یا ہی مکتوب ہے ۔ اورویب سایٹس کی بات تو چھوڑیں کہ وہ بہت حد تک فونٹ ڈیولپمینٹ کی محتاج ہوتی ہیں۔
دنیا کی کوئی زبان اس ارتقائ تغیر کےعنصر سے مستثنی نہیں۔چنانچہ کسی ایک جامد حالت کو حرف آخر سمجھنا میری رائے میں قدرتی بہاؤ سے ٹکرانے کی سعیء لاطائل کے مترادف ہوگا۔ لسانیات کے ماہرین مذہب اور فقہ کے ماہرین سےاختلاف میں پیچھے نہیں۔ یہ بحث طویل ہو گی۔ بہتر ہے کوئی اچھا سا شعر سنا کر بریکٹ بند کیا جائے ۔ اور جو کتابت کا انداز مناسب ہو (یا مناسب لگے) وہی اختیار کر لیا جائے۔:) ۔۔۔۔۔ایک افغانی لہجہ میں ے اور ی کا امتزاج ملاحظہ ہو۔ کئی سال پہلے سنا تھا۔یاد آگیا۔
http://www.soundsofmychildhood.com/posts/3559
 
Top