جناب محمد وارث اور دیگر فارسی دوست احباب کی توجہ درکار ہے۔
میرزا غالب کی فارسی مثنوی ’’چراغِ دَیر‘‘ مطبوعہ صورت میں یا انٹرنیٹ پر کہیں دستیاب ہے؟ پاکستان میں تو اپنی سی کوشش کر چکا۔ اعجاز عبید صاحب کوئی اتہ پتہ بتا سکتے ہیں؟
بہت نوزش!۔
رفتم کہ خار از پا کشم ۔ محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و ۔ صد سالہ راہم دور شد
چلتے ہوئے ایک کانٹا نکالنے کے کیے ایک لمحے کے لیے ٹہرا اور محمل نگاہ سے اوجھل ہو گیا ۔
میرا ایک لمحے کا غافل ہونے نے مجھے سو سالوں کی مسافت پیچھے کر دیا ۔
یہ شعر کئی طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ نہ جانے اس کی اصلی صورت کون سی ہے۔اور کس کا ہے ۔والد صاحب اسی طڑح پڑھتے تھے۔نازکی سے مضمون عرفی کاسا لگتا ہے۔ممکن ہےکسی اور کا ہو۔لیکن نزاکت کا کمال طاق ہے۔
واہ واہ ۔۔۔بہت خوب وارث صاحب۔۔۔کیا پر لطف ادائیگی ہے۔۔۔مرحوم والد صاحب کے اشعار بے اختیار زبان پر آگئے ۔ (یہ یوم مزدور پہ ایک مشاعرہ کے لیے لکھے گئے تھے ردیف بوجھ)گواہ اینکہ نہ رند و نہ زاہدیم بس است
پیالہٴ تہی و سبحہٴ گسستہٴ ما
حُسین خان اسیری اصفہانی
ہم نہ رند ہیں اور نہ ہی زاہد، اور اس (دعوے) پر گواہی یہی ہے کہ ہمارا جام خالی ہے اور تسبیح ٹوٹی ہوئی ہے۔
واہ واہ ۔۔۔ بہت خوب وارث صاحب۔۔۔ کیا پر لطف ادائیگی ہے۔۔۔ مرحوم والد صاحب کے اشعار بے اختیار زبان پر آگئے ۔ (یہ یوم مزدور پہ ایک مشاعرہ کے لیے لکھے گئے تھے ردیف بوجھ)
میں کسے تائب کہوں ۔کس کو کہوں توبہ شکن
لوگ پھرتے ہیں لیے اب خالی پیمانوں کا بوجھ
ٹانک آئے گا کہیں ۔ دیر و حرم کے درمیاں
ہے گراں اب شیخ پر تسبیح کے دانوں کا بوجھ